حراموش کو فراموش کرنا ممکن نہیں

“ہم سب” پر گذشتہ بیس دن سے غیر حاضری کا سبب تارڑ صاحب کے ساتھ حراموش مہم میں شرکت رہی۔ تارڑ صاحب کی پلکوں پر نہ جانے کب سے حراموش جھیل پر ایک شب بسر کرنے کا خواب اٹکا تھا۔ پچھلے سال انہوں نے ایک کوشش کی لیکن بوجہ حرمزدگی موسم ‘ مسلسل تین دن جہاز اڑنے سے انکاری رہا۔ اس سال پروگرام یہ تھا کہ ایک گاڑی کرایے پر لی جائے گی اور لاہور سے اسلام آباد جایا جائے گا۔ وہاں ائیر پورٹ پر گاڑی باہر کھڑی رکھے جائے گی اور اگر فلائیٹ کینسل ہوئی تو گاڑی پر ہی روانہ ہوا جائے گا۔ عین وقت پر جہاز پر جانے کا تکلف سرے سے ہی پروگرام سے باہر کر دیا گیا اور گاڑی پر ہی روانہ ہوئے۔

ناران میں قیام تکلیف دہ رہا۔ تارڑ صاحب مسلسل ناسٹیلجیا کا شکار رہے۔ وہ 1956میں اس وادی میں آئے تھے۔ آج جبکہ ناران میں سب کچھ تباہ ہو چکا ہے تو یہ سب دیکھ کر ان کو کافی تکلیف ہوئی۔

ہمارے ساتھ منتظمین میں ڈاکٹر احسن اور کامران سلیم تھے۔ مشہور فوٹو گرافر اور ٹریکر عاطف سعید ہمراہ تھے۔ تارڑ صاحب کے تین دوست شامل تھے۔ اور بہت ہی کمال شخصیت شاہد زیدی، لاہور کے سب سے پرانے اور تجربہ کار فوٹو گرافر نے اپنے رویے سے سب کے دل موہ لیے۔ جمیل عباسی اور ندیم خاور شرکت نہ کر سکے جس کا ٹریک کے دوران مسلسل افسوس رہا۔

گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ نے تارڑ صاحب اور ان کے دوستوں کا گلگت میں شاندار استقبال کیا۔ دو گھنٹے کی ناقابل فراموش نشست اور گفتگو یاداشت کا حصہ بنی۔ سیاحت اور گلگت بلتستان کے حوالے سے کھل کر گفتگو رہی۔ تقریب سے فارغ ہونے کے بعد نگر میں دران ریسٹ ہاﺅس میں اسرار صاحب کے مہمان ہوئے۔ اگلا دن ہنزہ وغیرہ گھومتے رہے۔ اتفاقا ان محترم خاتون سے ملاقات ہو گئی جس نے آج سے
چالیس برس پہلے ایک سیاح (تارڑ صاحب) کو کریم آباد میں التر گلیشئر کے ’گدلے‘ پانیوں کو گھورتے دیکھا تھا اور بالکونی سے آواز دے کر کہا تھا‘ آپ نے ہمارا پانی پیا ہے؟ بعد میں ہنزہ داستان میں جب یہ واقعہ رقم ہوا۔ کتاب کا کچھ حصہ جس میں یہ واقعہ بھی شامل تھا ہنزہ کے تدریسی نصاب کا حصہ ہے۔ محترم خاتون کی بیٹیاں جو اب کنگ ایڈرورڈ میں پڑھتی ہیں فخر سے دوستوں کو بتاتی تھیں کہ یہ خاتون ان کی ماں تھی جس نے تارڑ صاحب سے یہ بات کہی تھی۔ ہم کریم آباد میں گھوم رہے تھے جب اچانک اس گھر کے سامنے پہنچے۔ گھر کے مکینوں نے پہچان لیا اور گھر کے اندر لے گئے۔ اور پھر ایک طویل قصہ ہے محبتوں کو۔۔

اس سے اگلے روز سسی پہنچے جہاں سے جیپوں پر سوار ہوئے۔ جیپ ٹریک کیسا تھا؟ بس خاموشی ہی بہتر ہے۔ پاکستان کا خطرناک ترین جیپ ٹریک رائے کوٹ سے تتو بھول گیا۔ حراموش کے پہلے قصبے میں اترتے وقت اکثریت کی رائے تھی کہ اگر اس ٹریک کا شائبہ بھی پہلے ہوتا تو ہم کبھی قصد سفر نہ کرتے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آپ جب ایک دفعہ جیپ پر سوار ہو جائیں اور جیپ ٹریک پر چل دے تو کیا کر سکتے ہیں۔ ماسوائے دعا کے ‘ کہ اس موڑ سے بچ جائیں یا اس کھائی میں گرنے سے محفوظ رہیں۔ جب ہم سسی اترے تو پہاڑ پر معلق ایک لکیر کے حوالے سے تارڑ صاحب نے ڈاکٹر احسن سے استفسار کیا  “ڈاکٹر کیا یہ وہ خبیث جیپ ٹریک ہے جس پر ہمیں جانا ہے”‘ اور تارڑ صاحب نے یہ سوال نوے فیصد اس یقین سے پوچھا کہ ڈاکٹر کہے گا۔۔ نئیں نئیں سر، کمال کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہم احمق نہیں ہیں کہ ایسے راستے پر جائیں وہ جیپ ٹریک تو اور ہے جس پر ہم نے جانا ہے۔ سمجھئے وہ تو ہائی واے موافق ہے۔۔ لیکن تارڑ صاحب کو ایک دھچکا لگا جب ڈاکٹر احسن نے ہاں میں سر ہلایا اور فوراً تارڑ صاحب کے تاثرات کو نہ دیکھنے کی غرض سے پورٹرز کی جانب دوڑ لگا دی۔

ٹریکنگ اس دن کے معمول میں شامل نہیں تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے جیپ ٹریک بند تھا‘ اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ٹریک کا آغاز
کرنا پڑا۔ رات کو کیمپنگ کی۔ بارش اور سیلاب‘ پہاڑوں سے گرتے بھاری پتھروں کی خوفناک آواز، اس رات کی یادوں کا مستقل حصہ بن گئی۔

دوسرے دن ٹریکنگ کرتے ہوئے اسکیرے کیمپنگ سائیٹ پہنچے۔ تیسرے دن ایک گلیشئر کو عبور کرتے حراموش کی چراگا ہ پہنچے۔ اس سے اگلے دن کتوال جھیل پر خیمہ زن ہوئے،

واپسی کا سفر پھر ایک طویل اور حیرت کا قصہ ہے۔

حراموش کیا ہے؟ تارڑ صاحب اس پر لکھیں گے۔۔شاید حق ادا کرلیں۔ میرے بس کی بات نہیں ہے۔

میں کیمرے کی مدد سے نیو ٹی وی پر ایک پروگرام کی شکل میں کچھ دکھانے کی کوشش کروں گا۔

تارڑ صاحب نے جس عمر میں یہ سب کیا ہے وہ ناقبل یقین ہے۔۔مکمل طور پر ناقابل یقین۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.