اساطیر اور بگروٹ

از تحریر : امیر حیدر بگورو

ٹرینگ کوآرڈینیٹر : فورم فار لنگویج انشیٹیوز اسلام اباد

سماجیات کی رو  سے انسان کے ارتقاء کا عمل  ایولوشن کے تحت ہوا ہے  انسان اور اس  کے سماج  میں  رولوشن کا تصور بہت بعد میں آیا ہے ۔ جو ں جوں انسان  نے علم حاصل کرنا شروع کی یوں یوں اس کی سوچ میں تبدیلیاں آتی گئی ہیں ۔  اگر ہم انسانی سماج   کی تبدیلیوں کا  بشریاتی تجزیہ کرے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے  کہ انسانی سماج  کے رہن سہن ،طرز زندگی،  اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا  ، کھانا پینا الغرض  سوچنے تک  ہر گزرتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا ہے ۔ انسان جب تاریخ کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو انسانی رویوں کے حیرت کدے  میں سوچ کا ابھرتا انبا ر دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔  جب ایولوشن کی بات کرتے ہیں  اور کرہ ارض میں نظر دوڈاتے ہیں تو     ہم دیکھتے ہیں کہ جہان دنیا میں مختلف اقوام پائی جاتی ہیں وہاں  ان کی ترقی کے سفر میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں محسو س کرتے ہیں۔  کچھ اقوام دنیا وی ترقی میں پہلے صف پر کھڑی ہیں  تو  کچھ درمیان پر  اور کچھ آخر ی صفوں میں دیکھنے کو ملیں گی۔  یوں ترقی کے تناسب میں فرق اقوام عالم کو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کرتا ہے۔  دنیا میں خشکی کے جو سات براعظم ہیں ان ساتوں میں   یکساں ترقی نظر نہیں ائے گی۔  ان میں اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو  ممالک اور قومیں ترقی کی راہ میں اگے نکل گئی ہیں انہوں نے کم ترقی یافتہ ممالک اور اقوام  کو کچلنے میں کثر باقی نہیں چھوڈی ہے۔ اگر ہم مندرجہ بالا   نظام اقوام کا اطلاق  اپنے ملک پر اور خاص کر اپنے   نام نہاد صوبے گلگت بلتستان پر کرے تو  ہمیں وہاں بھی یہی انسانی روش ہی نظر آئے گی۔  گلگت بلتستان  میں مختلف قبائل اباد ہیں جن کی اپنی جغرافائی سرحدوں سے لیکر اپنی اپنی رسوم و رواج  ، اپنی زبان کی بولیاں اور اپنے مخصوص تہوار کی بدولت اہمیت کا  حامل خطہ ہے ہر قبائل کی اپنی مخصوص جغرافیائی حدو و قیود ہیں اور نظام زندگی کے لیے اپنے مخصو ص قوانین موجود ہیں۔

اگے بڑھنے سے پہلے ایک چیز کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ۔ میں گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام اقوام  بلا تفریق جنس،  زبان ، قومیت ، رنگ اور نسل  اپنے ہی علاقے  کو لوگوں کو اپنے ہی لوگ سمجھتا ہوں۔ اور ان کا مفاد اپنا مفاد گردانتا ہوں۔  میں  قدامت پسند ی  یا علاقائیت  کے تمام تعصبات سے بالاتر ہو  کر علاقے کے عوام کی بلاتفریق عزت کرنا اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں۔   لیکن اس ساتھ ہی ساتھ ماضی میں ہونے کچھ نا انصافیاں اور معلومات کی ناکس ترسیل کو گلگت بلتستان کو لوگوں تک پہنچانا بھی اپنے اوپر فرض سمجھتا ہوں۔

جیسے اوپر کے پیراگراف میں سماجیت اور سماجی ارتقاء  قوموں کا ذکر کیا گیا ہے  جس میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی قومیں اس  ظلم کا شکار ہو چکی ہے ۔ اگرچہ ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھے بگروٹ  کی ایک تاریخ رہی ہے  اس کی ایک تایخی حیثیت رہی ہے  لیکن معلومات کی اس ناکس ترسیل میں بگروٹ کا پورا علاقہ  بشمول لوگ   اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں  میں لسانیات کا طالب  ہوں اس سلسلے میں پاکستان بلخصوص  گلگت بلتستان طول عرض میں  لوگوں سے شمالی پاکستان اور ڈارڈک قوم کی ابتدا اور ارتقاء کے بارے میں بات کرتا  رہتا ہوں ۔ گلگت میں بھی  بہت سارے احباب سے  بگورو قوم کی ابتدا کے بارے کرتا رہا ہوں۔ چونکہ بدقسمتی سے ہمارے علاقے  میں لکھت پڑھت کا سلسلہ   برطانیہ کے دور حکومت سے شروع ہوا ہے  اس سے پہلے اورل تاریخ ہوتی تھی جو سینہ در سینہ لوگوں تک منتقل ہوتی  رہتی تھی ۔   اس سلسلے میں میرے  بہت سارے تاریخ اور زبان جاننے والے دوست  کنفیوس ہیں کہ گلگت کی قدیم ابادیوں  میں بگروٹ کی ابادی پرانی یا داریل کی!  یقینا  جو احباب بگروٹ کو اور اس کی تاریخ کو جانتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بگروٹ کی آبادی اتنہائی قدیمی آبادی ہے  جن کے آثار بگروٹ میں موجود پرانے گاؤ ں (کوٹ) جیسے خانی کوٹ اور سونی کوٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔  بگروٹ میں کسی بھی شخص کو ان کی تاریخ کا اندازہ نہیں ہے  نہ کسی کہانی  (شلوق) کی شکل میں موجود ہے۔ آج بھی اس  کے اثار دیکھنے والے لوگ اس مخمصے کا شکار ہے  کہ  آیا یہ ابادی  کسی انسانوں کی تھی یا جنات کی۔  اگر ان کو دیکھوں کو  پانی کی سطح سے تقریبا  پندرہ بیس میل اوپر کی ہے۔ اور وہاں پر رہائشی گھرو جو کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو طرض  تعمیر  چار کونون کی بجائے گول ہے۔  میں جانتا ہوں اس  طرح کی سٹڈی اج تک کسی نے نہیں کی ہے۔       اس تاریخ کو اگر  دیکھو چاروں طرف بلند بالا پہاڑوں میں گھیرا ہوا بگروٹ جس  میں بلچھار دوبانی( پریوں کا مسکن)  راکھاپوشی اور دیران پیک نمایاں ہے۔  دوستوں اج  میں تاریخ کے کچھ ایسے حقائق سے پردہ اُٹھانا چاہتا ہوں  جو ماضی میں لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑھنے کی وجہ سے  ذمین بوس ہوئے ہوئے ہیں۔

میں جانتا ہوں اگر میں اپنے دوستوں سے پوچھوں سے راکھا پوشی کہاں واقع ہے تو بہت سارے احباب کہنگے کہ یہ نگر میں واقع ہے    ہاں یہ صرف اس لیے کہ کے کے ایچ اور چائینہ سے روڈ متصل ہونے کی وجہ سے  وہاں کے لوگوں نے اس کو کیش کروایا ہے دراصل ایسا نہیں ہے راکھاپوشی کی ایک تاریخی حیثیت ہے       اس آرٹیکل میں وہ کوشش کرونگا کہ اپ کو ان حقائق کا پردہ چاک کرو۔   بگروٹ میں راکھاپوشی  کے پہاڈ کے نیچے ایک گاؤں ہے جس کو بلچہ کہا جاتا ہے   راکھاپوشی کی تاریخ اس گاؤں کے ایک خاندان کے ساتھ متصل ہے  جن کو  ( رکینے ) کہا جاتا  ہے۔  یہ لوک کہانی ہے  جو میرا نانا اکثر سنایا کرتے تھے   ۔  بگروٹ  کا علاقہ ماضی میں پیشہ کے حساب  سے ذرعی اور ریوڈ بازی  رہا   ہے  لوگ زراعت کے ساتھ بکریاں چراتے تھے  کہتے ہیں کسی زمانے میں اسی رکینی فیملی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتوں  اپنی بکریاں  چرانےاُسی نالے  چلی گئی  ۔  شام کو اس بکریاں واپس آگئی لیکن وہ خاتوں  واپس نہیں آئی ۔  جب اس کی خاندان کے لوگوں نے بکریاں دیکھا اور اُ س کو نہیں دیکھا تو  وہ تمام لوگوں کو اکھٹا کر کے تین  دن تین راتیں اس  کو ایک ایک بہاڈی کے گاٹی اور ہر کاروس میں دیکھا اس کو ملنے کے کہی آثار نہیں ائے ۔ آخر کار لوگوں نے تھک ہار کر   یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس زمانے کے مشہور شیمن(دنیل) کے پاس جائنگے  جو اپنے مخصوص عمل کر اس کے بارے میں بتائے گا  ۔ رات کو شیمن (دنیل ) کے پاس گئے اور   اس نے عمل کے دوران بتایا کہ وہ   اب نہیں ملے گی کیونکہ اس کو پریوں نے اٹھا یا ہے۔  یوں اس چوٹی کا  پرانا نام   (راکینی پُشی تھا)  جو   گزرتے وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر راکھاپوشی بن گیا۔  جب ہم چھوٹے تھے یہ کہانی مشہور تھی اور ہم نے خود اپنے کانوں سے سنا بھی ہے  کہ  راکینی فیملی کا جب کوئی بندہ اس دارفانی سے کوچ کرنا ہوتا  تھا تو وہی موجودہ معروف راکھاپوشی میں ایک مخصوص  سُر میں   زور زور سے ڈھول بجانے کی آواز آرہی تھی۔ جب راکھاپوشی میں ڈھول بجتی تھی تو لوگ کہتے تھے کہ   رکینی فیملی کے ہاں فوتگی ہو گی۔  سر زمین گلگت بلتستان  اور راکا پوشی  اور اس کے قریب و جور میں رہنے والے باسیوں کو اندازہ ہے کہ یہ خطہ عرصے قدیم سے دیو مالائی کہانیوں  اور اساطیر   گھیرا ہوا ہے۔  لیجئے  ایک اور دیو مالائی کہانی جو  راکھاپوشی  بگروٹ سے منسلق ہے سنا ہی دیتا ہوں۔ گلگت کی دیو مالائی کہانیاں  اور شمین (دنیلوں) کا سب کو پتا ہے  شمینزم    کو قدیم مزہب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک وقت تھا   جب باقائدہ یہ مزہب تھی اور اس کے پیروکار تھے گلگت بلتستان میں ریسریچر کے مطابق اس مزہب کے ماننے ولوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ شمینوں کے شجرہ نسب کے حساب سے ان کی نسل (سرنگ) بگروٹ سے ملتی ہے۔  قدیم مشہور شیمنوں میں بگروٹ سے تعلق رکھنے والا شیمن  زر بیالی المعروف بیالی دادو  ، اور    تھوکو تالی کی کہانیاں کافی مشہور ہیں۔  کسی دن دنیل بیالی دادو کے بارے میں تفصیل سے لکھونگا۔ یہ کون تھا کیا تھا اور اس سے  کون سئ کہانیاں منسوب ہیں لیکن یہاں چونکہ راکاپوشی اور اس کی تاریخی پہلوں کو دیکھ رہا تھا ہوں اس حساب سے لکھ رہا ہوں۔  تھوکے بگروٹ چراہ میں موجود ایک خاندان ہے  اور کہتے ہیں  دنیل تالی اس خاندان سے تھا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے  کہ وہ  پریوں کی نسل تھا  اور اس نے شادی بھی ایک پری سے کی تھی جس کی روایتوں کے مطابق ایک بیٹی بھی تھی  کہتے اس موصوف نے اپنی بیوی  جو پری زاد تھی  کے بالوں میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے گرے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔  اس سے شینا اور شیمن میں درگنی کہتے ہیں ۔  کہتے ہیں موصوف کی پیٹی بھی کافی بڑی ہو گئی تھی    کہتے ہیں ایک دن یہ شخص  کسی بارات سے ساتھ ہرموش گیا ہوا تھا  ادھر گاؤں میں موجود  اس کی بیگم  دھوپ میں تاپ رہی تھی  اور اس کی بیٹی  اپنی ماں کے سر میں مساج کر رہی تھی    یوں نے اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کے تمام بال گرے لگے ہوئے ہیں اس نے اپنی ماں سے  اس کی وجہ پوچھی ، تو ماں نے سختی کھولنے سے منع کیا اور کہا کہ یہ گرے اس کے باپ کے لگائے ہوئے ہیں۔ یوں اس کی  ماں  کو  سردیوں میں دھوپ کی تپش کی  وجہ سے انکھ لگ گئی ۔ اسی دوران لڑکی جو خود بھی  پری تھی  نے تمام گرے کھول دیے۔ جونہی آخری گرہ کھولا اس کی ماں  بیدار ہو گئی   اور اپنی بیٹی کو برا بھلا کہا۔ یوں کہتے ہیں دونوں ما ں بیٹی اُڑ کر پرستان نکل گئی۔   یہاں موصوف بارات کے ساتھ ہراموش کے قریب کسی گاؤں میں ایک جگہ کسی بڑے پتھر کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کو(لوک کین) کہتے ہیں پتا چل گیا  کہ اس بیوی اور بچے چلے گئے  کہتے ہیں اس بڑے پتھر  پر کھڑا ہو گر ایک گانا گایا  ہے اور لوگوں کے حساب سے دہ وہاں سے غائب ہو گیا ہے۔  اس تالی دادو کی( برکیش) خزانہ راکاپوشی کے بلکل سامنے ہیں  کہتے ہیں  اس خزانے سے راکھاپوشی تک  ایک پل ہے  اور پریاں اگر راکھاپوشی میں کوئی شادی بیاں ہو تو وہ   بزریعہ اس راستے وہاں سے سامان لے جاتی ہیں ۔ یہ ان کے ترسل کا ایک راستہ ہے۔ ایسی ہزاروں لوک کہانیاں  اس جگہ سے منسوب ہیں

دوئم  دیران پیک کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا ہے  گلگت بلتستان کے  لوگوں کو  جب دیران پیک کا پوچھوں تو کہتے ہیں یہ بھی وادی نگر میں واقع ہے  جبکہ  اس کی تاریخ حقیقت کوئی اور ہے  یہ بھی بگروٹ میں واقع ایک گاؤں ہے  جہاں بگروٹ پھرپوں  اور چلکوٹ  سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اپنی زمینے ہیں ۔ وہ باقائدہ کے ساتھ لوگ وہاں جاکر کاشت کاری کرتے  ہیں  اس چھوٹے گاؤں کا نام دیرن ہے  یہ گاؤں عین دیران پیک کے  بنیاد میں موجود ہے۔   اسُی گاؤں کی وجہ سے اس پیک کا نام دیرن  پیک پڑھ گیا ۔  لیکن گلگت کے مقامی باسیوں کو  ان تاریخی حقائق کا پتا نہیں ہے۔ اسی طرح بگروٹ کی تین اہم چوٹیوں میں بلچھار دبانی(پریوں کا مسکن) ہے جو وادی بلچھار بگروٹ میں واقع ہے  اللہ کا کرم یہ ہے کہ اس کے ساتھ متصل ضلع ہنزہ نگر کا کوئی گاؤں نہیں ہے  ورنہ اس کو بھی  اب تک اپنی ملکیت بنا چکے ہوتے۔  یہاں تک کہ بگروٹ کے لوگ ان تمام تاریخی حقائق سے اگاہ  ہیں تا ہم معلومات کی ترسیل  ان ایشوز کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا ہے۔ جس کی بدولت ہمارے اس ثقافتی اورتا ریخی ورثے کا بندربانٹ کر رکھا ہے  تاہم اب بگروٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے احباب  کو ان ایشوز کا اندازہ ہوا ہے  وہ   اپنی ماضی کی شاندار  تاریخ کو  لوگوں تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔  آخر میں میں بگروٹ سے تعلق رکھنے والے  نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنے علاقے کی اہمیت  اور اس کے ثقافتی ورثے کو   بچانے اور اگلی نسل تک منتقل کرنے میں اپنا کردار  ادا کرے۔

 

 

 

 

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.