جامعات کی بین الاقوامیت

تحریر: ڈاکٹر عطااللہ شاہ، وائس چانسلر، کے آئی یو

عالمیت یعنی گلوبلائزیشن کے بعد تمام دنیا سکڑ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ جس کو ہم بسا اوقات ”عالمی گاؤں یعنی گلوبل ویلیج“ بھی کہتے ہیں۔ اس جدید دنیا میں انسانوں اور اداروں کے درمیان ایک قربت اور نزدیکیت ناگزیر ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی ان اداروں میں شامل ہیں۔ اس سے قبل کی اقساط میں جامعات کی علمی درجہ بندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے کی بین الاقوامی سطح پر علم و تحقیق کے اندر دنیا کی بہترین جامعات کے ساتھ ربط و رشتہ ایک ضروری عنصر ہے۔
بین الاقوامیت اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے اعلیٰ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کو دنیا کے مختلف اقوام، ثقافتوں اور ابھرتی ہوئی عالمی رجحانات کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ بنیادی طور پر اس کی تین اہم مقاصد ہو سکتے ہیں۔
اولاً۔تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی کی ساکھ اور وقار کو بلند کرنا۔
دوم۔معاشی اور سیاسی طور پر اعلیٰ تعلیمی ادارے کو عالمی مقابلے اور مسابقت کے لیے تیار کرنا۔
سوم۔طلبہ کو عالمی منڈی میں روزگار تک رسائی اور عالمی رجحانات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہے۔
کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے کو کئی طریقوں سے بین الاقوامیت کے دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن میں بین الاقوامی معیار کا تعلیمی نصاب کا نفاذ، طلبہ کو بیرون ملک تعلیم کے لیے تیار کرنا، بین الاقوامی طلبہ کو جامعہ میں داخل کرانا، مخصوص وقت کیلئے باہر سے اساتذہ کو یونیورسٹی میں پڑھانے کیلئے مہیا کرنا، فیکلٹی کا بین الاقوامی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ مل کر تحقیق اور کانفرنسز منعقدکرانا اور بین الاقوامی جامعات سے پارٹنر شپ وغیرہ کرنا۔ درج ذیل سطور مین ان کی مزید وضاحت پیش ہے۔
نصاب کو بین الاقوامی معیار پر لانے کے لیے مختلف طریقے وضع کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں نصاب اور مضمون کے اندر بین الاقوامی اہمیت کے موضوعات شامل کرانا، نصاب میں دنیا کے مختلف ممالک کے مصنفین کی تحریر کردہ کتب اور مطالعاتی مواد شامل کرنایا مختلف ثقافتوں کی بنیاد پر کیس سٹڈیز بنا کر طلبہ کی ذہنوں کو بین الاقوامی اور عالمی تعلیمی رجحانات سے روشناس کرانا شامل ہے۔
بسا اوقات ڈگری پروگرام کے دوران طلبہ کو مخصوس دورانئے کے لیے بین الاقوامی جامعات میں رجسٹرڈ کرانا، یا بین الاقوامی زبان سیکھنے کے لیے بیرون ملک بھیجوانا شامل ہے۔ اس ضمن میں HECنے پی ایچ ڈی کے دوران پاکستانی جامعات میں زیر تعلیم سکالر کو ایک سمسٹر کے لیے بیرون ملک یونیورسٹی میں مخصوص کورس یا تحقیق کے لیے فنڈز بھی فراہم کیا ہے۔ ادارے کی سطح پر یونیورسٹی جائنٹ ڈگری پروگرام یا جائنٹ کورسز بھی پیش کر سکتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بین الاقوامی کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹی کے ارباب اختیار بشمول شیخ الجامعہ کی طرف سے اس عمل کیلئے ہر قسم کا تعاون شامل ہو۔ اس ضمن میں یونیورسٹی کے اندر دفتر برائے بین الاقوامی امور (انٹرنیشنلائزیشن آفس) کا ہونا ناگزیر ہے۔ دوسری طرف تمام شعبہ جات کے لیے ضروری ہے کہ اس دفتر کے ساتھ قریبی رابطہ رکھیں اور اس کے ساتھ مکمل تعاون بھی کریں، لہٰذاضروری ہے کہ یونیورسٹی کے ساتھ ایک دوررس منصوبہ موجود ہوں جس کے ذریعے وہ اگلے پانچ سے دس سالوں کے اندر بین الاقوامی جامعات کے ساتھ ذکر کردہ میدانوں میں ایک فعال رابطہ قائم ہو جائے۔
انٹرنیشنل آفس کا کردار: جامعات اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی اداروں کی بین الاقوامیت میں انٹرنیشنل آفس کا کلید ی کردار ہے۔ اس دفتر کو چند انتہائی اہم امور بین الاقوامی اشتراک کے عمل میں تیزی لانا، یونیورسٹی سٹاف کو رہنمائی فراہم کرنا، طلبہ کیلئے بین الاقوامی یونیورسٹیز کے اندر تعلیم و تحقیق کے مواقع تلاش کرنا اور یونیورسٹی کے مشن کے حصول کے لیے سینئر مینجمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا شامل ہے۔
جامعات کی بین الاقوامیت میں تمام سٹاف کا کردار ضرور ی ہے۔ مثال کے طور پر فیکلٹی تحقیق کے میدان میں بین الاقوامی جامعات کے ساتھ مل کر اشتراک کر سکتی ہے۔ اس طرح کیرئیر ڈویلپمنٹ آفس کے ذریعے طلبہ کو بیرون ملک داخلوں، روزگار، انٹرنشپ کی مدد میں رہنمائی فراہم کی جاسکتی ہے۔
سٹوڈنٹس کی سوسائٹیز اور کلب بھی بیرون ملک سیاحتی دورے پلان کر سکتی ہیں۔ جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ جو بیرون ملک روزگار کرتے ہیں انہیں بین الاقوامی گروپس بناکر یونیورسٹی کو بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں تحقیق کرنے والے گروپس بھی بیرون ملک سرکاری اور نجی تحقیقی اداروں کی اشتراک سے جامعات کی بین الاقوامیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل آفس کی افادیت سمجھنے کے بعد ہم ان کی مختلف صورتوں کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کر تے ہیں۔
۱۔ بین الاقوامی اشتراک برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق:
کنسر اور گرین 2009ء (Kinser & Green)مطابق بین الاقوامی اشتراک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مابین تعاون کے معاہدوں سے عمل میں آتی ہے۔ جدید تعریف کے مطابق دو یا اس سے زیادہ ممالک کی تعلیمی کمیونٹیز کے درمیان اشتراک کے نتیجے میں افراد، خیالات اور پراجیکٹس دونوں اطراف کے درمیان بہاؤ کی شکل میں ظاہر ہوں اور جس کے نتیجے میں نئے منصوبے ظہور پذیر ہوں۔
اس بین الاقوامی اشتراک کے ثمرات شریک اداروں کو ملنا چاہییں۔ اس بین الاقوامی اشتراک کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جس میں چند درج ذیل ہیں۔
(۱) مشترکہ ٹیچنگ (۲) یونیورسٹیز کنسورشیم (۳) فیکلٹی کا تبادلہ (۴) بیرون ملک سٹڈی پروگرامز (۵) مشترکہ ڈگری پروگرامز (۶)انٹرنشپ پروگرام (۷) باہمی فیکلٹی ریسرچ (۸) بین الاقوامی انٹرنشپ پروگرام (۹) مشترکہ تحقیقی پروگرام (۰۱) سینڈوچ پروگرام (۱۱) وسائل کا اشتراک (۲۱) طلبہ کا تبادلہ۔ ان کی مزید تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ اشتراکی ٹیچنگ: جب پارٹنر یونیورسٹی کے ایک یا ایک سے زیادہ اساتذہ کسی مضمون کو باہم پڑھانے کا انتظام کریں اور عمومی طور پر ٹیکنالوجی اور ورچول کلاس روم کے ذریعے پڑھانے کے عمل کو ممکن بنانے کو مشترک ٹیچنگ کی صورت بن سکتی ہے۔ طلبہ ورچول کلاس رومز، ای میل اور ویب پلیٹ فارم کے ذریعے پڑھاتے ہیں اور طلبہ ان سے استفادہ کر تے ہیں۔
۲۔ یونیورسٹیز کنسورشیہ: جب دو یا دو سے زیادہ مقامی (ملکی) یا بین الاقوامی یونیورسٹیز اپنے وسائل کے اشتراک سے کوئی تعلیمی پروگرام پیش کریں تو اس کو کنسورشیہ کہتے ہیں۔ امریکہ کی کئی جامعات کنسورشیم PhDپروگرام آفر کر رہی ہیں۔
۳۔ فیکلٹی کا تبادلہ: فیکلٹی ایکسچینج پروگرام کے ذریعے اساتذہ کرام ایک جامعہ سے دوسرے جامعہ جاکر کوئی کورس پڑھاتے ہیں۔
۴۔ فیکلٹی کی مدد سے سٹڈی پروگرام: بسا اوقات ایک یا ایک سے زیادہ اساتذہ کسی ایک ادارے کے طلبہ کے لیے بیرون ملک مطالعے کے لیے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ کا گروپ پارٹنر اداروں میں جاکر تعلیم حاصل کرتا ہے اور وہاں اس کو ہاسٹل اور ٹیچنگ کی سہولیات فراہم ہوتی ہیں۔
۵۔ بین الاقوامی باہمی ڈگری (Dual Degree)پروگرام: یہاں دو یا دو سے زیادہ تعلیمی ادارے باہمی اشتراک سے ایک ڈگری جاری کرتے ہیں۔ ہر ادارہ اپنے حصے کے متعلق ڈگری یا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے جو طالب علم وہاں سے پورا کرتا ہے۔
۶۔ جائنٹ ڈگری پروگرام: یہاں دونوں تعلیمی ادارے پروگرام کی تکمیل پر ایک ہی ڈگری جاری کرتے ہیں جس پر دونوں اداروں کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔
۷۔ انٹرنشپ پروگرام: تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھنے کے لیے طلبہ کو بیرون ملک اداروں کے ساتھ انٹرنشپ پروگرام میں منسلک کیا جاسکتا ہے۔
۸۔ باہمی فیکلٹی ریسرچ: ہر ادارے کا ایک یا ایک سے زیادہ فیکلٹی ممبرز ایک ریسرچ پراجیکٹ کے لیے باہمی اشتراک کرتے ہیں۔
۹۔ وسائل کا باہمی اشتراک: بسا اوقات دو یا دو سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنے وسائل مشترکہ طور پر تعلیم و تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں خصوصی طور پر لیبارٹری، لائبریری،نصاب وغیرہ استعمال ہوسکتا ہے۔
۰۱۔ سینڈوچ پروگرام: اس پروگرام کے تحت طلبہ اپنا مطالعہ اور ڈگری اپنے ملک میں شروع کرتے ہیں اور دوران ڈگری، کچھ مدت کیلئے بیرون ملک جاکر ایک یا ایک سے زیادہ کورسز پڑھتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ملک واپس آکر بقیہ تعلیم مکمل کرکے ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔
۱۱۔ باہمی اشتراک عمل سے مختلف تقریبات کا انعقاد: ان میں کانفرنسز، ورکشاپس، سیمینارز، لیکچرز اور ویڈیو کانفرنسز کا منعقد کرانا شامل ہے۔ ان میں سائٹس وزٹ، فلم میکنگ وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
۲۱۔ طلبہ کا تبادلہ: ایک جامعہ سے مخصوص عرصے کے لیے طلبہ کو دوسرے جامعہ نصابی یا تحقیقی سرگرمیوں کے لیے بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
انٹرنیشنل آفس کسی بھی جامعہ میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاہدوں کی تکمیل میں ایک اہم کردارادا کرتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے مابین ان معاہدوں کی مختلف صورتیں ہیں۔ جن میں مفاہمت کی یادداشت (میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ) اور تبادلے کے معاہدے (Exchange Agreements) قابل ذکر ہیں۔ (جاری ہے۔)

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.