مشرق وسطی …. دو پہلوان

کے.ایچ.ایلیا
 آج سے  تقریبا تین چار  عشرے قبل  پوری  دنیا میں  دو  ہی پہلوانوں کا طوطی بولتا تها .طاقت بهاری بهرکم جسامت ، قد و قامت ،کشتی لڑنے کا بهر پور تجربہ  ،رعب و دبدبہ ،جاه و حشم ،شان و شوکت ،پنچے لڑانے  اور پہلوانی کے لیئے درکار کسی بهی گر میں دونوں کسی سے کسی بهی طور کم نہ  تهے . گویا یہ  دونوں پرندوں کی دنیا کے شاہین اور جنگل کی دنیا کے  چنگاڑتے اور بهنبهوڑتے شیر تهے.  علاقائی  چهوٹے  بڑے پہلوانوں کو ان دونوں  میں سے کسی ایک کے ساتهہ ہونا پڑتا تها .تیسرا آپشن پتهر کے زمانے میں پہنچنا ہی ہوتا تها  .اگر کوئی غلطی  سے بهی بڑا بننے
 کی کوشش کرتا  تو  اسے اپنی غلطی  کی کڑی سزا   بهگتنی پڑتی تهی.
 یہ دونوں پہلوان ہمیشہ ایک دوسرے کو  اپنے پہلوانی  داو پیچ  سے زچ کرنے کرنے پر تلے ہوتے  اور  جونہی دوران  پہلوانی ایک کو دوسرے کا  کوئی کمزور پہلو نظر آنے لگتا  اس موقعے  غنیمت جان کر ایک دوسرے کو  زمین پر پٹخا کر مار دینے کا موقع ہاتهہ سے جانے نہیں دیتے.
 ان میں سے  ایک کا نا م    امریکہ جبکہ دوسرے کا نام  روس  ہوتا تها. دوسرا پہلوان صاحب  اپنے کسی نا فرمان  ہمسایہ طالبان  کی سرکوبی  کے چکر میں   افغانستان نامی کسی سخت دلدل میں دهنس گیا اور مزید دهنستا ہی چلا گیا یہاں تک کہ آدها جسم کیچڑ میں دهنسنے کے سبب اسکی  پہلوانی تو  سب خاک میں مل گئی  البتہ یہ محص خود چلنے پهرنے کے قابل ہی ره سکا. پہلا پہلوان تو اب خوشی سے پهولے نہیں سما رها تها کہ  اسکا رقیب پہلوان جو اسکے رستے کا کهٹکتا کانٹا تها اب رستہ صاف ہو گیا هے اب اسکے سامنے اور کوئی پہلوان آنکهہ میں آنکهہ ملانے کی پوزیشن میں نہیں تها
 اب جب دوسرا پہلوان روس  جو امریکہ کا  سخت ترین رقیب تها  رستے سے ہٹ گیا تو امریکہ خود کو دنیا کا مطلق العنان بادشاه تصور کرنے لگا  اب جو بهی اسکے حکم سے سر مو انحراف کرنے لگتا اسے فورا سخت ترین سبق سکها دیا جاتا  اور پتهر کے زمانے میں پہنچا دیا جاتا اور پتهر کے زمانے میں پہنچا دیئے جانے کا بهوت  ہر ایک کے ذہن میں  سوار ہو گیا رہتا  جسکی وجہ سے کسی  کی مجال تهی جو امریکہ بہادر کے سامنے سر اٹهانے کا تصور بهی کرتا
 خوش قسمتی سے ان دونوں پہلوانوں کی پہلوانی کے عروج کے زمانے میں  ہی یعنی  بیسویں صدی کے اواخر  میں  مشرق وسطی midle east   کے  غلام  قوموں  میں سے  ایک  نیا پہلوان نکل آیا  جس کا  ان دو پہلوانوں  نے کبهی سوچا تها اور نہ  مشرق وسطی جیسے حلقہ بگوش غلام خطے سے ایسے بہادر نئے پہلوان  کے اچانک نمودار ہونے کی کوئی توقع کی جا سکتی تهی . یہ پہلوان  بڑا دلچسپ اور عجیب و غریب ہی تها  نہ ظاہری جاه و حشم و شان و شوکت نہ  ان دو پہلوانوں جیسی جسمانی طاقت  نہ کیل کانٹے سے مسلح نہ جارح مزاج  نہ ان دو پہلوانی داو پیچ کا حامل نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ بهالا  لیکن اس پہلوان نے  اچانک نمودار ہوتے ہی  ان دونوں کو سخت تیور دکهانے شروع کئے اور آنکهہ میں آنکهہ ملا کر بات کرنی شروع کی .اب پہلے دو پہلوانوں میں سے دوسرے میں تو وه پہلی والی دم خم  باقی تو تهی نہیں  سو وه  معذورں کی طرح ایک چار پائی پہ جا کے بیٹهہ گیا تها اب  وه  گویا  ایک قصہ پارینہ بن چکا تها . امریکہ پہلوان  جو اب اپنے رقیب  روس  کی طاقت طالبانی کیچڑ میں دهنسنے کے باعث طاق ہو چکی تهی جسکی وجہ سے  وه کچهہ وقتی طور پر سکهہ کا سانس لینے  لگا تها لیکن  اب  مشرق وسطی میں نئے نمودار ہونے والے اس نئے پہلوان جسے ایران  کا نام دیا گیا  کے  سامنے آنے سے  اسکی نیدیں خراب ہو کر ره گئیں  گوکہ امریکہ ایک کہنہ مشق ،آزموده کار ، پنجہ آزمائی میں  ید طولی رکهنے والا اور اپنے مقابل اور رقیب  کو  اپنے پہلوانی داو پیچ سے زیر کرنے کے  گر جانتا تها لیکن  یہ نیا پہلوان  امریکہ کے کسی داو پیچ سے زیر نہیں ہو سکا اب نہ صرف زیر نہیں ہو سکا بلکہ  امریکہ کیلیئے مرض بڑهتا گیا جوں جوں دوا کی  کے مصداق امریکہ کیلیئے  ایسا  درد   سر بن کر ره گیا  کہ  اب  اس سر درد کی کوئی موثر دوا نہ ملنے پر وه سر پکڑ کر بیٹهہ گیا هے اور اب تو مشرق وسطی middle  east   میں کئی سالوں کی منصوبہ بندی کے بعد کهیلے جانے والی ہر گیم چوپٹ ہو کر ره جاتی هے
 بات چونکہ مشرق وسطی کے حوالے سے ہو رہی  هے تو اس وقت مشرق  وسطی  کے حالات انتائی نامساعد ہیں اور جنگ کی حالت میں هے مشرق وسطی میں عرب ممالک ،خلیجی ممالک ،ایران ،ترکی ،عراق سوریا ،اسرائیل ،لبنان اور بعض افریقیی ممالک بهی شامل ہیں مذکوره ممالک اس وقت  حالت جنگ میں ہیں انکے جنگ کا میدان  ایک عرب ملک سوریا  هے .اکثر نادان مسلمان  اس بات کو سمجهنے  میں غلطی کر جاتے ہیں کہ  مشرق وسطی کی موجوده  جنگ کے پہلوان  کون ہیں  اکثر نادان لوگ  جنگ کو سعودیہ اور ایران کی جنگ قرار دیتے ہیں لیکن  یہ بات بلکل  درست نہیں  مشرق وسطی میں موجوده کئی سالوں سے لڑی جانے والی جنگ دراصل امریکہ اور ایران کے درمیان لڑی جانے والی جنگ هے امریکن بلاگ  کہ جس میں  سر فہرست سعودیہ اور وه ممالک شامل ہیں جو امریکی صدر ٹرمپ کے سعودیہ دورے   میں اسلام پہ دیئے جانے والے لیکچر سننے آئے تهے  جن میں ملک عزیز پاکستان بهی پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر اس جنگ میں باقاعده شامل هے اور   پاکستان  کو  Amecican blog  کی سپاه سالاری کا شرف عظیم  بهی حاصل هے جبکہ  مشرق وسطی میں لڑی جانے والی اس جنگ  کے دوسرے بلاگ  کا سربراه ایران هے اس بلاگ میں شام ،لبنان ،عراق اور  روس شامل هیں البتہ  روس  اس بلاگ  کے ساتهہ مخلص ہونے کی وجہ سے نہیں صرف امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے واسطے اس بلاگ میں خود  شامل ہو گیا  هے صرف امریکہ کے مقابلے میں لهذا  روس کی حیثیت  اس بلاگ میں امریکہ کو نیچا دکهانے اور اسکے مفادات کو نقصان پہنچانے والے  ایک رقیب ملک  کی حیثیت سے هے اور اس Resistance blogکی آڈیالوجی  کوئی تعلق نہیں .سو مشرق وسطی کے اصل دو کهلاڑی یا پہلوان  دو ہی ہیں  امریکہ اور اسکے مقابلے میں ایران باقی ان دونوں کے ساتهہ شامل ممالک محص انکے سپورٹرز کی حیثیت رکهتے ہیں . اب  یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ موجوده مشرق وسطی میں لڑی جانے والی جنگ  کے  دو رقیب پہلوان امریکہ اور ایران ہیں یہ بهی جاننے کی ضرورت هے کہ امریکہ کا مشرق وسطی سے کیا تعلق هے ؟ وه  سات سمندر پار سے آ کر اپنی لڑائی یہاں کیوں لڑ رها هے ؟ آخر امریکہ چاہتا کیا هے ؟
 یہ بات جاننا بہت ضروری  هے کہ بالآخر امریکہ  بهاری جنگ کیوں لڑ رها هے؟؟ دراصل  موجوده دنیا میں  امریکہ اپنے آپکو پوری دنیا کا چوہدری سمجهتا هے اور یہ چاہتا هے جو بهی    بڑے چوہدری صاحب کی جانب سے  احکامات orders جاری ہوتے ہیں انکی بلا کم و کاست اور بے چوں و چرا تعمیل کی جائے  اور آج کی دنیا کے چوہدری صاحب کی جانب سے   جو بهی حکم سے سرتابی کا مرتکب ہو اسے پتهر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے چونکہ چوہدری صاحبان کا کام ہی  اپنی بات نہ ماننے والوں کو  پتهر کے زمانے میں پہنچا کر دم لینا ہوتا هے جیسے کہ پنجاب  کے باسی اس بات کو بخوبی جانتے بهی ہیں  وهاں کے چوہدری صاحبان انکی بات نہ ماننے والوں کے ساتهہ کیا سلوک روا رکهتے ہیں اور پهر  کس طرح سے انہیں زنده درگور کر دیتے ہیں .امریکہ چونکہ عالمی حکومت  قائم کرنا کرنا چاہتا هے اور اس مقصد کے حصول کیلیئے امریکہ مشرق وسطی کو دنیا کا دل (heat land )  گردانتا هے اور اس   heart land  کو مکمل طور پر اپنے  اپنی گرفت میں رکهہ کر اپنے سیاسی،اقتصادی اور عسکری مقاصد حاصل کرنا چاہتا هے
 امریکہ کی جانب سے heart land قرار دیئے جانے  والے اہم خطے میں  اگر کوئی امریکہ کے چوہدراہٹ  کو للکار رہا هے تو وه صرف ایران  ہی هے اور ایران کے علاوه مشرق وسطی کے کسی ملک  میں یہ دم خم نہیں  کہ وه امریکہ  کے مقابلے میں آ  کر کهڑا ہو جائے  کیونکہ ہر ایک کو  امریکہ بہادر نے یہ  بات سمجها  دی هے کہ  اس کے مقابلے میں کهڑا ہونا اسکی بات سے سرتابی  کی کم از کم سزا حکومت و اقتدار سے ہاتهہ دهونا اور پهر ملک کو پتهر کے زمانے میں پہنچا دیئے جانا هے  اس بات کے پیش نظر  مشرق وسطی کے کسی بهی ملک میں  سوائے ایران کے  یہ مجال نہیں کہ  وه امریکہ کو چیلنچ کرے  ایران نے  انقلاب کے  پہلے دن ہی  سے یہ چیلنچ کیا  تو امریکہ نے  فورا آٹهہ سال کی   جنگ مسلط کر دی لیکن  اس  کٹهن  اور صبر آزما مرحلے  نے  ایران   کے حوصلے کم ہونے کے بجائے اور مضبوط ہوئے اور وه اپنے نظریئے اور موقف سے کسی بهی طور دست بردار نہ ہوئے  لیکن  آج کا ایران  تو سیاسی ،اقتصادی ،عسکری ثقافتی اور ہر حوالے ایک مضبوط  و مستحکم ملک بن چکا هے .امریکہ نے اپنے سیاسی سخت ترین حریف ایران کو  کمزور کرنے اسے دبائے رکهنے اور حراساں رکهنے کیلیئے بهی ہر قسم کے حربے آزمائے  کبهی اقتصادی پابندیاں  کبهی سیاسی دباو تو کبهی حملے کی  دهمکیاں  لیکن  یہ حربے بهی  کوئی خاص اثر دکها نہیں سکےاب امریکہ  سر دهڑ کی بازی اس بات پہ لگا رہا هے کہ  مشرق وسطی  کو  مسلکیت عرب عجم تعصب فرقہ واریت اور قومیت کے جہنم میں جهونک کر آپس میں لڑا ڈالے لیکن اس  حربے میں بهی امریکہ بہادر کو کوئی خاطر خواه کامیابی نہیں مل سکی .حالیہ طور پر سعودیہ میں  منعقد ہونے والی  اسلامی ممالک کی  کانفرنس  جسکا مقصد اس کے انعقاد سے پہلے داعش اور علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بتایا جا رها تها لیکن امریکی صدر   ٹرمپ  نے تو  دو ٹوک الفاظ میں اپنے رقیب ایران کو isolate  کرنے  کی ایک کاوش قرار دی لیکن ٹرمپ کے سعودی عرب  دورے  کچهہ ہی  دنوں بعد  اس اتحاد میں سخت قسم کا دراڑ  قطر کی  چونتیس  ممالک کے اتحاد  سے علحیدگی کی صورت میں  نظر آیا .بہر حال مشرق وسطی midle east  میں   امریکہ کی  دال گلتی نہیں آ رہی کیونکہ امریکہ کو اب تک  ہر طرح کے پاپڑ پیلنے کے باوصف نہ تو  شام  کی حکومت گرا سکا  نہ  ہی امریکہ و اسرائیل کی خواہش پوری کرنے والی داعش  کو کوئی کامیابی مل سکی لگتا هے امریکہ کی پہلوانی  اب  کسی کام کی نہیں رہی  اب تو اسکا رقیب پہلوان ایران   مشرق  وسطی میں   اسکیلیئے تر نوالہ نہیں بننے سے رہا. اب تو  تازه ترین واقعے میں  امریکہ پہلوان نے اپنے رقیب کو سبق سکهانے کیلیئے اسکے پارلمنٹ پہ حملہ کروایا  اور پهر  مزار امام خمینی رح پہ حملہ لیکن  اس امریکی داو پیچ کا ایران کی جانب سے شام میں دیرالزور نامی مقام پہ داعش کے ٹهکانے پہ میزائل داغ کر جواب  کیا گیا  تو  امریکہ اور  اسکے مشرق دسطی کے حواری انگشت بدنداں ره گئے.امریکہ کی  آخری اور پوری کوشش یہ ہو گی کہ وه مشرق کے ممالک کو آپس میں لڑا  دے اور ایسا لڑا دے کہ جب یہ آپس میں  لڑ لڑ کر تهک هار جائیں تو  امریکہ بہادر  ان هارے ہوئے  ممالک  کا نجات دہنده بن کر اپنی فوجیں یا  نیٹو فوجیں اتار کر  ان سے جو چاہے اور جیسے چاہے کام لے لیکن امریکہ کی بد قسمتی کہ  اسے مقابلے میں   مشرق وسطی میں ایک ایسا پہلوان  کارزار میں نبرد آزما هے کہ اسے دهول چٹا کر رکهہ دیا هے اب دیکهیئے مستقبل میں ان دونوں پہلوانوں میں سے کس کا پلہ بهاری رهے گا.

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.