وزیر نعمان بمقابلہ رشید ارشد ملک حق نواز

وزیر نعمان بمقابلہ رشید ارشد
وزیر نعمان سوشل میڈیا میں متحرک نوجوان ہیں اور عوامی ایشوز کو جابجا ہائ لائٹ کرتے رہتے ہیں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن ہیں اور اسی پیرائے میں مسلم لیگ ن کی حفیظ حکومت پہ تنقید تیر برساتے ہیں۔
جبکہ رشید ارشد میدان صحافت کا منجھا ہوا کھلاڑی اور میرے لئے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں میں اکثر ان سے رہنمائ لیتا ہوں اور وہ اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر بہتر انداز میں رہنمائ کرتے ہیں۔

وزیر نعمان نے ن لیگ اور وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمان صاب کے مختلف اقدامات پر تنقید اور بصری دھرنے میں شرکت کو اداکاری قرار دیا تو رشید ارشد صاب نے پی پی پی کی سابق حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کردیا۔
حقیقت یہ ھے کہ جی بی میں پی پی پی کی حکومت سے کارکردگی اور عوامی منصوبوں کے لحاظ سے حفیظ حکومت قدرے بہتر ھے مہدی شاہ صاحب کی بہ نسبت حفیظ الرحمان زیادہ متحرک اور فعال ھے۔

لیکن مہدی شاہ صاب کے دور میں نوکریاں تین لاکھ کے عوض فروخت ہوتی تھیں تو حفیظ حکومت میں اپنے چہیتوں اور مخصوص حلقوں میں بانٹی گئی ہیں۔
مہدی شاہ دور میں ترقیاتی کام ٹھپ تھا لیکن حفیظ دور میں بغیر ٹینڈر کے اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دئے گئے ہیں جس کی واضح مثال ڈگری کالج مناور کا ٹھیکہ تھا۔
آج بھی وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمان کے اپنے حلقے سکوار علی آباد کے مکین ہزار روپے پر پانی کا ٹینکر خریدتے ہیں۔

حفیظ حکومت کو چار سال ہوگئے لیکن گلگت سٹی کو ماڈل نہیں بنایا جاسکا۔آئے روزٹریفک جام نے شہریوں کو بے بس کردیا ھے۔ہونا تو یی چاہئے تھا کہ گرین بیلٹ اور سٹریٹ لائٹس لگا کر شلوار سے بسین تک روڈ کو چوڑا کر کے ٹریفک کا مسلہ ہمیشہ کے لئے حل کیا جاتا اور گلگت سٹی کو ایک ماڈل کے طور پر سامنے لایا جاتا لیکن کوئ توجہ نہیں دی گئ۔

لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی جی بی کے لوگوں نے بائیس بائیس گھنٹے لوڈشیڈنگ برداشت کی بلکہ بہت دفعہ تو بجلی ہفتے ہفتے غائب رہی ھے اس کو قابو پانے کے لئے کوئ سیریس کوشش نہیں کی گئ بلکہ سیکریٹریز کے تبادلوں پر ہی اکتفا کیا گیا۔
پاکستان میں ہر جگہ تھری جی اور فور جی سروس چل رہی ھے لیکن گلگت کے عوام اس سہولت سے بھی محروم ھے۔ایس سی او کا نیٹ کچھوے کی چال چلتا ھے جس سے طلباء و طالبات اور صحافی برادری کے لئے مشکلات کا سامنا ھے اس کے حل کیلئے بھی کوئ توجہ نہیں دی گئ۔

مان لیا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری نوکریاں فروخت ہوئ کیا حفیظ حکومت نے آج تک میرٹ کی اس پامالی اور کرپشن پرسابقہ حکومت کے کسی وزیر کے خلاف کوئ کیس بنایا۔تین لاکھ پر نوکریاں لینے والے نااہلوں کو فارغ کرکے ان کی جگہ اہل اور میرٹ پر اترنے والوں کو لگایا؟

جی بی سی پیک کا مرکزی دروازہ ھے لیکن ہماری حکومت نے کبھی اس پر اپنا حق بھی نہیں مانگا بلکہ دوہزار سولہ میں میاں نواز شریف باقی صوبوں کے وزرائے اعلی کو ساتھ چین لے گئے لیکن حفیظ الرحمان کو بلایا تک نہیں۔

حفیظ حکومت نے ضلع استور کو مکمل نظرانداز کیا ھے کوئ ترقیاتی کام نہیں ہورہا ھے۔جی بی میں کئ نئے ضلعے بنالیے لیکن استور میں عوام کا مطالبہ ھے کہ ایک حلقے کا اضافہ کیا جائے لیکن کوئ شنوائی نہیں ہورہی ۔کیا رشید ارشد صاحب وزیراعلی کو اس بات پر قائل کرینگے؟

کاش گلگت کی سرزمین میں کوئ تحقیقاتی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو آج حکومتی سکینڈلز کی بھرمار ہوتی لیکن حکومتوں کی خوش قسمتی ھے ان سے سوال جواب کرنے کیلئے کوئ فورم نہیں ھے بلکہ ان کو رشید ارشد صاحب جیسے شہسوار ملے ہیں جو حکومت کی کارکردگی پر واہ واہ ہی لکھتے ہیں لیکن کچھ جینوئن ایشوز کو نظرانداز کردیتے ہیں۔

امید ھے کہ حفیظ حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے قبل عوام کے اصل ایشوز پر توجہ دے کر ایک اچھا اور تعمیری گلگت بلتستان چھوڑکر جائے گی اور اسی بنیاد پر اگلے الیکشن میں پنجہ آزمائ کرے گی ورنہ عین ممکن ھے کہ مہدی شاہ صاحب کی طرح حفیظ الرحمان کو ابھی اپنے ہی حلقے میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فرنٹ فٹ
ملک حق نواز

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.