ضمیر فروش ارکان اسمبلی ۔ ۔

ضمیر فروش ارکان اسمبلی ۔
تحریر امان بونجوی ۔

قارئین اسلام علیکم ۔ امید اللہ پاک خدا وند کریم سے ہے کہ آپ تمام قارئین کرام خیرو عافیت سے ہوں گے اور میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہر کسی کو خوشی سے زندگی گزرانے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ۔ قارئین کرام آج میں اپنے کالم میں آپ لوگوں کو ضمیر فروش ممبران اسمبلی کے بارے میں بتاؤں گا کہ ضمیر فروش ارکان اسمبلی کون ہیں ۔ جیسے کہ آپ نے سنا ہو گا  ٹی وی چینل میں دیکھا ہو گا یا پھر اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ پاکستان میں اب سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور اس انتخابی عمل میں ملک کے تمام سیاسی جماعتیں حصہ لئے رہے ہیں اور بہت سارے آزاد امیدوار بھی سینٹ الیکشن میں اپنی قسمت آزمائی کر رہے اور اپنی کامیابی کے دن رات ایک کر رہے ہیں ۔ قارئین کرام آپ نے خبروں میں یہ بھی سنا ہو گا کہ سینٹ انتخابات کے لیے ووٹ کی خرید وفروخت جاری ہے ۔ یہ ووٹ عام بندے فروخت نہیں کر رہے بلکہ سندھ ۔ پنجاب ۔ بلوچستان ۔ خیبرپختنواں قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ارکان کر رہے ۔ ان لوگوں سے کیا امیدیں لگانا آخر جو لوگوں اپنا ضمیر کا سودا کرتے ہیں وہ قوم کی پیسوں کی تحفظ کرینگے ۔  قارئین کرام سینٹرز کو منتخب کرنے کے لیے قومی اسمبلی کےممبران اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اسمبلی اپنا ووٹ دیتے ہیں اور چھ سال کے لیے سینٹرز کو منتخب کرتے ہیں قومی اسمبلی کے بعد ملک میں قانون سازی کرنے کا سب سے بڑا فورم سینٹ ہے جس نے ملک کے اور عوام کے اہم ایشوز پر قانون سازی کرنا ہوتا ہے ۔ اب سوال یہی بنتا ہے کہ اس اہم اور قانون سازی کرنے والے ایوان میں اگر کوئی ممبر اسمبلی خود کسی کا ووٹ خرید کے منتخب ہو کر آتا ہے تو کیا وہ ملکی مفاد میں اور عوامی مفاد میں کوئی قانون سازی کرے گا ؟ قارئین کرام پاکستان کے سیاسی نظام میں پیسے چلنے یا ووٹ کی  خرید و فروخت کرنے کا رواج بہت پرانا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ووٹ کو فروخت کیا جاتا ہے اور ووٹ کو خرید لیا جاتا ہے امریکہ کے حالیہ  الیکشن پوری دنیا نے دیکھا لیا یہاں پر دھاندلی اور ووٹ کو خریدنے کے الزمات لگ گئے اور امریکہ پارلیمنٹ پر trum کے حامیوں نے حملہ کر دیا اور صدر Biden کے جیت کو منانے سے انکار کر دیا ۔ اب پاکستانی ضمیر فروش ممبران اسمبلی کی بات کرتے  جو چاروں صوبائی اسمبلی سمیت قومی اسمبلی میں موجود ہیں اور قارئین کرام کہا جاتا ہے ووٹ قوم  کا امانت ہوتا ہے اور امانت میں  خیانت کرنا گناہ ہے   ۔ جنرل الیکشن میں قوم سے تقریر میں خود کو  بڑا ایمان والا اور اپنے مخالف کو دنیا کا سب سے بڑا چور ۔ حرام خور ، ڈاکو ، نالائق نااہل کے القابات دینے والے ممبران اسمبلی اگر اپنا ووٹ ہی فروخت کر دیتے ہیں اپنی ضمیر کا سودا کرتے ہیں اس سے اس بات کو تقویت مل جاتی ہے اپنے مخالف امیدوار کو گالیاں دینے والا خود چور بھی ہے نااہل بھی ہے ڈاکو بھی ہے جو قوم کے امانت پر ڈاکہ مار رہا ہے اور قوم کی امانت پر خیانت کرتا ہے ۔ اب سینٹ کے الیکشن میں کسی غریب بندے کے ووٹ کا سودا نہیں ہو رہا ہے کسی غریب کی مجبوری جو یہ سمجھ لیتا ہوگا کہ چلو وقتی طور پر دو دن کی روٹی ہو گی اور ممبر صاحب اپنی خودگرزی کے لیے ہی تو کچھ پیسے دے رہا ہے اور ووٹ لینے کے بعد تو ویسے بھی کہا ممبر صاحب ہمارے طرف آئے گا کہ کے اپنی مجبوری سے پانچ دس ہزار روپے لینے والے غریب کو جب کوئی سیاسی رہنما الیکشن جیت جاتا ہے تو اس دن کے دیکھتا بھی نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھ لیتا ہے اس نے ووٹ کو خرید کر لایا تھا اب کام کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ غریب کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی اب اپنے ووٹوں کی قمیت لگا رہے ہیں اور اپنے حلقے کے عوام کی قمیت لگا رہے ہیں کہ ان کا  ممبر اسمبلی ان کا نمائندہ کروڑوں میں اپنا ووٹ کا سودا کرنے جا رہا ہے کیونکہ ممبران صاحب کو پتا ہے اس نے اگلی الیکشن میں بھی ووٹ کو خرید لینا ہے اور  چار پانچ کروڑ سے ممبر صاحب آسانی کے ساتھ ہزاروں غریبوں کے ضمیر کا سودا کر سکتا ہے اور پھر وہ غریبوں کو پانچ دس ہزار میں بیان حلفی کے ساتھ خرید سکتا ہے م قارئین کرام نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کو کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سیاست تجارت بن چکا ہے سیاسی لوگوں نے ہی سیاست کو کاوربار بنایا ہوا ہے ۔ غریب کے مرضی کے نہیں ایوان میں سیاسی خانہ بدوشوں کے مرضی کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ قانون سازی میں امیروں کو فائدہ دیا جاتا ہے کیونکہ ممبران اسمبلی اپنے ضمیر کے سودا گر ہیں تو وہ بڑے امیروں کے ساتھ مل کر ایسے فیصلے اور قانون سازی کرتے ہیں جس سے غریب کی دن بھر کی مزدوری امیروں کے pocket میں واپس آ جاتی ہے ۔ اور یہ ضمیر کے سودا گر ممبران اسمبلی اپنی الیکشن کمپئین کے خرچہ کے لیے امیروں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اپنا ضمیر کا سودا کر کے مہنگائی ملک میں پیدا کرتے ہیں ۔ قارئین کرام ایوان بالا یعنی سینٹ میں ممبر منتخب ہونے کے لیے چاروں صوبائی سمیت اسلام آباد اور فاٹا سے سینٹرز الیکشن میں حصہ لئے رہے ہیں مگر بد قسمتی سے میرا تعلق گلگت بلتستان سے جس کی وجہ سے ہمارے گلگت بلتستان سے کوئی سینٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لئے ہیں کیونکہ ہمیں پاکستان نے متنازع بنایا ہوا ہے اور آئینی حقوق سمیت سینٹ اور قومی اسمبلی سے اب تک محروم رکھا ہوا ہے گلگت بلتستان کے ہر گھر ہر گاؤں ہر پہاڑ پر پاکستان کا پرچم نظر آنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے عوام نیشنل اسمب اور قومی اسمبلی میں ووٹ نہیں ڈال سکتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے نیشنل پارک بنانے کے لیے حکومت نے بہت جلدی میں کام کر لیا ۔ یہاں کے زمین تو پاکستان کی مگر عوام متنازع اس بات کا جواب اب تک گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو نہیں ملا  نہ ملنے کی امید ہے ۔ خیر یہ بات الگ موزوں اگر گلگت بلتستان کے لوگوں کی سینٹ اور نیشنل اسمبلی میں نمائندگی ہوتی تو ضمیر کے سودا یہاں پر بھی موجوف ہوتے اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے ۔ گلگت بلستان اسمبلی سے کونسل کے لیے ممبران اسمبلی اپنا ووٹ دیتے ہیں اور گلگت بلتستان کونسل کے لیے چار ممبران اسمبلی کو منتخب کرتے ہیں اور یہاں کے ممبران اسمبلی بھی اپنا ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کروڑوں میں فروخت کر دیتے ہیں جس کی واضعے ثبوت بھی موجود ہیں ۔ اور گلگت بلتستان اسمبلی کے ایسے ممبران اسمبلی نے اپنا ووٹ کو فروخت کیا اور اپنا ضمیر کا سودا کیا ہے جو خود عوامی لیڈر اور خود کو قومی لیڈر سمجھ لیتے ہیں ۔ اللہ پاک سابق رکن کونسل سید افضل کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں جس نے ایک بندے کا بارے میں کہا تھا یہ بندا ضمیر کا بڑا سودا گر ہے بہت جلد خریدا جا سکتا ہے اور وہی بندا اس بار بھی گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود ہے پھر کونسل کے الیکشن میں اسی کا ضمیر کا سودا لگانے والا ہے ۔ قارئین کرام پاکستان کے سینٹ کے الیکشن پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017   کی سینٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوق 81,122 اور 185 میں ترمیم کر کے الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری  کر دیا گیا ہے جس پر اپوزیشن کو سخت تحفظات بھی ہیں  اس ترمیمی میں کہا گیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں خفیہ کے بجائے اوہن بیلٹ پر ووٹ دیا جائے اگرچہ یہ ایک بہترین فیصلہ حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے کہ ضمیر فروش لوگوں کی دوکان ہمیشہ کے لیے بند رہے گی اور ملکی سیاست سے ان کرداروں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگا جو اپنے ووٹ کو فروخت کرتے ہیں اور دوبارہ الیکشن میں غریبوں کے ووٹ کو خرید لیتے ہیں ۔قارئین جمہوری روایت یہی ہوتیں ہیں ایک دوسروں کی اکثریت کو مان لینا اور ایک دوسروں کی رائے کو تسلیم کرنا ۔ جمہوریت میں کئی پر یہی نہیں لکھا ہوا ہے کہ جب آپ پاور میں آ جاتے ہو تو اپنے مخالفین کے انتقامی کاروائیوں کرے اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائی ہو جائے ۔ یا پھر یہ کئی پر نظر نہیں آ رہا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے ہر کام میں روکاوٹیں کھڑی کرے اور حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا ہوتا ہے کہ ہر حکومت میں آنے والی اپنی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتیں ہیں اور اپوزیشن حکومت کو کام کرنے نہیں دیتی ہے جس کا نقصان عوام کو اٹھنا پڑتا ہے ۔ یاد رکھے سینٹ کا الیکشن خفیہ ووٹنگ کے زریعے کی جاتی ہے اور خفیہ ہونے کی وجہ سے ممبران اسمبلی اپنے ضمیر کا سودا کر دیتے ہیں اور پتا ہی چلاتا ہے کہ کون سے پارٹی کے لوگ فروخت ہو گئیں ہیں ۔ لہذا پاکستان میں سینٹ الیکشن لازمی طور پر اوپن بیلٹ سے ہونے چاہیے اس لیے آرڈیننس نہیں بلکہ قانون سازی کرنی چاہیے کیونکہ آرڈیننس کی مدت صرف ایک سو بیس دن کے لیے ہوتی ہے اور اس کے بعد خود بخود یہ ختم ہو جاتا ہے ۔ قارئین کرام میڈیا رپورٹس دیکھ یوں لگتا ہے سینٹ الیکشن میں ایسی خرید و فروخت جاری ہے جیسے قربانی کے وقت جانوروں کی خرید وفروخت جاری رہتی  ہے اور اب بات کا اندازہ تو سینٹ الیکشن کے بعد لگائے جائے گا کہ کس بےضمیر نے اپنا ضمیر کا سودا کیا ہے اور اپنے حلقے کے لاکھوں عوام کو ایک دو کروڑ میں فروخت کیا ایسے لوگوں کو ایسے کرداروں کو عوام کو یاد رکھنا چاہیے اور اگلی بھاری ان لوگوں کو جوتے مارتے ہوئے مسترد کرنا چاہیے ۔ تاکہ اس کو سبق مل سکے ۔ اور ان بے ضمیروں کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے نااہل کرنا چاہیے جو اپنی ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور ایسے بے ضمیر ممبران اسمبلی ملک کے لیے بھی مستقبل میں خطرہ ہو سکتے ہیں جو چند کروڑوں کے لیے ملکی مفاد کا بھی سودا کر سکتے ہیں ۔ ۔ اللہ پاک ان بے ضمیر لوگوں کو ہدایت دے اور ان کو قوم کی امانت کو سمجنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan