درد کمر دور کرنے کے طریق

دردِ کمر ایک عام عارضہ ہے اور بلا لحاظ عمر و پیشہ80فیصد لوگ اس مرض میں مبتلا رہتے ہیں اور اس مرض یا درد میں مبتلا شخص ہی اس کی حقیقی نوعیت، الجھن اور پریشانی کو سمجھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے لباس پہننا، اٹھنا، بیٹھنا اور بہت سے کام آزمائش اور مسئلہ بن جاتے ہیں اور اس معرکہ آرائی کے لیے دوسروں کے محتاج ہونے کے ساتھ ساتھ خودبے کارمحض ہوجاتے ہیں اور اگر نہ کرے یہ مرض درد کمر مستقل رہتا ہے تو وہ دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ لوگ اس سے کترانے لگتے ہیں یا کسی مستقل رکھوالے، ملازم یا نوکرانی کی ضرورت پڑتی ہے جو آپ کی اور آپ کی ضرورت کا خیال رکھ سکے۔ امریکا جیسا ملک بھی اس تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہے اور وہاں کے شہری صرف جانچ پڑتال اور مختلف طبی معائنوں کی مد میں سالانہ پانچ بلین ڈالر کی رقم خرچ کرتے ہیں کمر کا درد کیوں ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب مشی گن یونیورسٹی کے ایک ماہر درد کے مطابق ہمارا طرز زندگی ہے۔ آج کے دور میں ہماری روزمرہ زندگی ساکت ہوتی جارہی ہے اور اس میں بے حرکتی کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے جسم پھیلتا اور وزن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے جسمانی بافت کمزور اور لچک سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے ذرا سا بھی دباو¿، جھکاو یا جھٹکا برداشت نہیں کرپارہے ہیں۔کمر قدرتی انجینئرنگ کا ایک شاہ کار ہے یہ وہ مچانی ڈھانچا ہے جس پر سر( کھوپڑی) کندھے، پسلیاں اور پیڑ ھو استوار ہوتے ہیں اس ڈھانچے کے اندر اعصابی پٹھوں اور بافتوں کی لائنیں اور راستے بنے ہوتے ہیں اس ڈھانچے کے اندر پٹھوں کے علاوہ وریدوں کے وہ تار بھی بچھے ہوتے ہیں جو دماغ کو جسم کے باقی حصوں سے مربوط کرتے ہیں۔کمر اپنے وضع اور بناوٹ کے لحاظ سے بڑی حد تک لچک دار ہوتی ہے اس لیے رقاص اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے رقص کے دوران اپنی کمر کو کسی بھی جانب دو تہائی تک جھکا اور موڑ سکتے ہیں ان میں بعض بالکل دوہرے بھی ہو جاتے ہیں۔ کمر کے تمام حصے نفیس توازن میں ہوتے ہیں اس لیے کسی بھی جگہ معمولی سی خرابی یا عدم توازن کے سبب خرابی واقع ہوجاتی ہے۔ اس طرح ساری مشینری( نظام عضلات) متاثر ہوجاتے ہیں۔ اکثر کمر کے مسائل کی ابتدا بڑھوتری کے دور میں بھی ہوتا ہے اسی لیے اگر ایک ٹانگ دوسری سے ایک ، آدھ انچ بھی بڑی یا چھوٹی رہ جائے تو ریڑھ کے عضلات پر غیر مساوی دباو¿ بڑھ جاتا ہے اگرچہ ظاہری طور پر جسم میں کبھی نظر نہیں آتی لیکن اس غیر مساوی دباو¿ کے نتیجے میں جوڑوں کے گھٹیاوی درد کے نتیجے میں کمر کے مہرے کی درمیانی تہیں(Disc)انحطاط پذیر ہوجاتی ہیں۔دردِ کمر کے بے شماراسباب ہوتے ہیں۔ نامناسب جسمانی توازن ، جسمانی ساخت جسمانی انداز سے لے کر سرطان بھی درد کا ایک سبب ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اکثر عموماً ریڑھ کی ہڈی کا زیریں حصہ ہی درد کا مرکز بنتا ہے۔ درد کمر کے80فیصد مریضوں میں کام کی زیادتی یا بے کار بیٹھنا، ورزش نہ کرنا درد کا سبب ہوتا ہے۔ موچ آجانے کی صورت میں کمر کے عضلات تنگ ہوکر یا کھنچ کر سخت ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم درد کی صورت میں اپنا رد عمل ظاہر کرتا اور ہمیں آگاہ کرتا ہے۔
درد کمر کا دوسرا سبب ریڑھ کی ہڈیوں کے مابین تہوں یا آنکڑوں( Disc) سرک جانا کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ نہیںDiscیا آنکڑے سرکتے یا اپنی جگہ سے ڈھیلے نہیں ہوتے بلکہ شکستہ ہوجاتے ہیں اور بوجھ ، کھنچاو¿، تناو¿ برداشت نہ کرسکنے کے سبب تکلیف دینے لگتے ہیں یا پھر اوپر لگی جھلی کے پھٹ جانے کے سبب دکھنے لگتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ریڑھ کی تہوںDiscکے شکستہ ہونے یا تہوں کی جھلی کے پھٹ جانے کی وجہ سے ریڑھ کے پٹھوں پر دباو¿ بڑھ جاتا ہے اور تکلیف دینے لگتا ہے۔درد کمر کا ایک سبب اپنی چپٹی ہڈیوں کے جوڑوں کا جگہ سے ہٹ جانا یا ریڑھ پر دباو¿ کا بڑھ جانا ہے واضح رہے یہ چپٹی ہڈیاں مہروں کے اوپر واقع ہوتی ہیں غرض یہ کہ چپٹی ہڈیوں کے جگہ چھوڑ دینے کے سبب ریڑھ کے عضلات دب کر متورم ہوجاتے ہیں اور تکلیف دینے لگتے ہیں۔درد کمر کا علاج بھی اسباب درد کی طرح کئی ہیں اور ہر معالج اپنے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد، مختلف انداز سے کرتا ہے۔ عام طور پر ایکسرے سے مہروں کی اصل کیفیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس معائنے کے بعد اصل سبب سامنے آجاتے ہیں پھر مرض کا علاج شروع ہوتا ہے جیسے بستری آرام، دافع درد دوائیں مساج، پٹھوں کی تسکین کے لیے ورزشیں( فزیو تھراپی)، سینکائی اور جراحی وغیرہ۔اس کے باوجود یہ خدشہ اور احتمال رہتا ہے کہ یہ کہ ایک بارآرام ہوجانے کے بعد بھی یہ مسئلہ دوبارہ زیادہ شدت کے ساتھ نہ پیدا ہوجائے سو احتیاطی تدابیر ضروری ہیں جن پر عمل آپ کو دوبارہ بے آرامی سے بچائیں گے جیسے سخت ہموار بستر پر سونا، زیریں کمر کی ورزشیں، زیادہ وزن اور مٹاپے سے بچنا وغیرہ۔درد کمر کا ایک حل جراحی بھی ہے لیکن جراحی کو آخری چارکار سمجھنا چاہیے۔ عام طور پر بلا وجہ جراحی کر دی جاتی ہے۔ یہ بلاجواز مزید نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس قسم کی جراحی میں شق زدہ گدی (پھٹی ہوئی یا کمزور تہہ) کو نکال دیا جاتا ہے اور مریض تقریباً6ماہ کے بعد معمول کی زندگی گزارنے اور عام حرکات کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ آج کل ایک جدید علاج یہ ہے کہ کمر کے مہروں کی درمیانی جگہ کو کھینچ کر پھیلا دیا جاتا ہے جس سے متاثرہ پٹھے تکلیف دہ دباو¿ سے نجات پاجاتے ہیں۔ یہ تکنیک عام طور پر مریضوں میں کامیاب رہتی ہے۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.