کیفے کا تمام انتظام و انصرام تین خواتین کے ہاتھ میں ہے
پاکستان کی دلکش وادی ہنزہ میں ایک ایسا کیفے ہے جسے خواتین نے بنایا ہے اور اسے خواتین ہی چلاتی ہیں۔
یہاں شیف سے لے کر ویٹر تک سب خواتین ہیں مگر گاہکوں کا خاتون ہونا لازمی نہیں۔
لگ بھگ ہزار سال پرانے التِت قلعے کے قدیم باغ میں خوبانیوں کے درختوں میں گھرا یہ ’کھابسی کیفے‘ شاید پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد کیفے ہے۔
مقامی بولی بروشُسکی میں ’کھا‘مقام یا جگہ اور ’بسی‘ باغ کو کہتے ہیں۔
یہ کیفے آغا خان فاؤنڈیشن نے علاقے میں عورتوں کو بااختیار بنانے کے پروگرام کے تحت بنوایا اور اس کا عملہ تین خواتین پر مشتمل ہے۔
36 سالہ فاطمہ شیف ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کیفے کو بنے چھ سات برس ہوچکے ہیں اور وہاں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں جنھیں پاکستانی، چینی اور مقامی پکوان پیش کیے جاتے ہیں۔ ’اپریل سے لے کر اگست ستمبر کے اواخر تک سیل ہوتی ہے۔ سردیوں میں ہم چھٹیاں کرتے ہیں اور چھٹیوں میں ہم گلگت سیرینا میں کھانا پکانے اور سروس کی تربیت کے لیے جاتے ہیں۔‘
فاطمہ کے بقول ’ہم میں دو خواتین شادی شدہ ہیں مگر اس کام سے ہماری گھریلو زندگی متاثر نہیں ہوتی۔ گھر والوں کو پتہ ہے ہم یہاں کام کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ لوگ ان کے کیفے میں آکر حیران بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی۔
’کئی لوگ ہمیں کام کرتا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جب وہ ہمیں یہاں پہ کوکنگ کرتے ہوئے، سرو کرتے ہوئے اور سیٹ اپ وغیرہ لگاتے دیکھتے ہیں تو بہت خوش ہوکر جاتے ہیں۔‘ 36 سالہ صفیہ شام کی چائے کی تیاری کر رہی تھیں اور میز پر چھری، کانٹے اور برتن سجارہی تھیں۔
ان کے خیال میں غیرملکیوں سے زیادہ پاکستانیوں کو کھانے پینے کے لیے کچھ پیش کرنا زیادہ آسان ہے۔اس خیال کی وجہ دریافت کی تو بات ٹال گئیں۔
باورچی خانے میں گیا تو 18 سالہ صالحہ ہماری چائے کا بل بنا رہی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ امتحانات کے بعد فارغ وقت میں یہ نوکری کر رہی ہیں۔
’میں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا ہے اور پاس بھی ہوگئی ہوں۔ امتحان کے بعد فارغ تھی اس لیے یہاں کام کرنے آئی ہوں اس سے چھٹیوں میں کچھ پیسے بھی بن جاتے ہیں۔‘
صالحہ نے بتایا کہ وہ کیفے میں سب کام کرتی ہیں۔ ’کھانا بھی پکاتی ہوں، گاہکوں کو کھانا پیش بھی کرتی ہوں۔کچن میں جو کام ہوتے ہیں وہ سارے کام کرتی ہوں۔‘
ایک سوال پر انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’گھر سے زیادہ یہاں کام کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یہاں تو پیسے ملتے ہیں، گھر میں کیا ملتا ہے۔ بس ڈانٹ ملتی ہے۔‘
صالحہ نے بتایا کہ شروع شروع میں انہیں بیرے کا کام کرنے میں مشکل پیش آتی تھی مگر اب وہ اس کے گُر جان چکی ہیں مگر ایک چیز انھیں اب بھی تنگ کرتی ہے اور وہ بعض گاہکوں کا رویہ ہے۔
’یہاں آنے والے مہمان ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ ان میں سے کچھ اچھے بھی ہوتے ہیں اور کچھ بُرے بھی ہوتے ہیں۔ انہیں جب ہم کھانا دیتے ہیں تو وہ ایک طرف بھی نہیں ہوتے۔‘
اس سوال پر کہ ایسے گاہکوں پر کبھی غصہ آیا صالحہ بولیں ’نہیں نہیں۔ آج تک تو غصہ نہیں آیا۔ کیونکہ میں ابھی یہاں نئی ہوں۔ مجھے اتنا تجربہ بھی نہیں ہے۔ مجھے ابھی صرف دو سے تین مہینے ہوئے ہیں۔ تو فی الحال تو یہ کام بہت اچھا لگتا ہے۔ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا۔‘
کیفے میں ہی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے آئے ہوئے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی۔ ان میں شامل 30 سالہ رحمت اللہ نے بتایا کہ ’کیفے کا ماحول بہت مختلف لگا ہے جس طرح سے یہاں عورتیں کاروبار خود سنبھال رہی ہیں تو مجھے تو بہت اچھا لگا یہ دیکھ کے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔‘
ان کے ساتھی 19 سالہ کاشف بھی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے یہاں کا ماحول دیکھ کے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ وہاں پہ شانگلہ میں تو سارے ہوٹل مرد چلاتے ہیں۔ یہاں پہ تو دیکھ کے لگتا ہے جیسے باہر کے ملک میں بیٹھے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ کیفے ایسا ماڈل ہے جو ثابت کرتا ہے کہ خواتین ہر کام کرسکتی ہیں۔ ’جب خواتین کو موقع ملے، آزادی ملے، تعلیم دی جائے تو وہ ہر کام کرسکتی ہیں۔ کیوں نہیں کر سکتیں؟ اگر خواتین کو تعلیم اور آزادی نہ دی جائے تو ان کا تو قصور نہیں۔‘