اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان
in اداریہ / کالمز
22/01/2016
5,216 Views
صفدر علی صفدر
گزشتہ دنوں ڈنر پر مدعو مہمان نے ٹی وی چینلز پرچین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کے حوالے سے جاری پروگرام دیکھ کر پوچھا کہ یار یہ اکنامک کوریڈور کیا بلا چیز ہے جس پر آئے روزگرما گرم بحث ومباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے کافی دیر خاموشی اختیار کرنے کے بعد بول دیا کہ یہ پاکستان اور چین کے مابین قائم ہونے والی نئی دوستی کانام ہے۔ مہمان نے استفسار کیا کہ کیا اس سے گلگت بلتستان کو بھی کوئی فائدہ حاصل ہوگا۔ میں نے مختصر الفاظ میں جواب دیا‘نہیں جی ابھی تک تواس میں گلگت بلتستان کا کوئی ذکرموجود نہیں ‘البتہ وفاقی وصوبائی حکمران اس حوالے سے زبانی طورپر گلگت بلتستان والوں کو سبزباغ دیکھانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جارہے ہیں۔ میں نے کہا جو صوبے ریاست پاکستان کا آئینی حصہ ہیں اور قومی سطح کے تمام فورمز میں انہیں برابر کی نمائندگی حاصل ہے‘ ساتھ ہی ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے میں کم وبیش شراکت داری کے باوجود وہ حقوق سے محرومی اور اکنامک کوریڈور میں اپنے ساتھ ناانصافی کا رونا روتے ہیں تو ایسے میں ایک بے آئین سرزمین یا ایک متنازعہ خطے کے عوام کا کون سنتا ہے۔ اسی روز غالباً بی این پی مینگل کے زیراہتمام اقتصادی راہداری کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی گئی تھی۔ جس میں اس منصوبے میں بلوچستان کوبرابر کے حقوق دینے سے متعلق بارہ کے قریب قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔اسی طرح خیبرپختونخوا اور سندھ والوں کے بھی اپنے اپنے تحفظات ہیں اور ماسوائے پنجاب اور حکمران جماعت کے علاوہ کوئی بھی صوبہ یا سیاسی جماعت اکنامک کوریڈور کے تحت ہونے والے معاہدوں سے مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں۔چنانچہ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے تمام صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان فرمایا۔ حالانکہ اکنامک کوریڈور کے تحت پاکستان اور چین کے مابین 46ارب ڈالر کے 51مختلف نوعیت کے منصوبوں پر گزشتہ برس دستخط بھی ہوئے اور ان میں سے بعض منصوبوں پر تو ابھی باضابطہ کام بھی شروع ہونے کو ہے ۔اس کے باوجودہرطرف سے شورشرابے ہورہے ہیں کہ جی ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے۔اوئے خدا کے بندو! چین میں کوئی پاکستان والا نظام تو نہیں چلتا کہ جس کا جو من چاہے اسی کو قانون اور نظام کا حصہ بنائے ۔وہ لوگ تو اپنے اصولوں پر کاربند ہیں چاہے دنیا ادھر سے ادھر کیوں نہ ہوجائے ۔انہوں نے تو جن معاہدوں پر حکومت پاکستان کے ساتھ دستخط کردئیے ہیں انہی پر ہی کام کرنا ہے چاہے اس سے کسی صوبے کو فائدہ ہو یا نقصان ۔اسی لئے تو گزشتہ دنوں چینی سفارت خانے کو باضابطہ یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ اقتصادی راہداری پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق کی فضاء قائم کرنی چاہیے۔ اقتصادی راہداری کے تحت چین نے پاکستان میں جن منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنی ہے ان کی تفصیلات تو بہت پہلے منظر عام پر آئی تھیں‘ اب گزشتہ دنوں وزارت پلاننگ نے بھی ان منصوبوں کو بمعہ لاگت اور علاقوں کے اپنی ویب سائٹ پر چڑھادی ہے‘ جن میں آزاد جموں وکشمیر کے لئے بھی چندایک منصوبے رکھے گئے ہیں مگر گلگت بلتستان کا کوئی ذکر تک موجود نہیں۔ اس باوجود اگر کوئی اس امید میں ہے یا گلگت بلتستان کے عوام کومذید سبزباغ دیکھانے کے چکروں میں ہے تووہ جانے اور اس کا ایمان۔مجھے تو نہیں لگتا کہ اقتصادی راہداری سے جس قدر گلگت بلتستان متاثر ہوگا اس قدر یہاں کے عوام اور علاقے کو فوائد بھی حاصل ہونگے۔ لیکن دکھ اس بات پر ہورہا ہے کہ ایک طرف اکنامک کوریڈور سے گلگت بلتستان کو مکمل طور پر بے دخل کردیا گیا تو دوسری طرف خطے کو جغرافیائی اعتبار سے تقسیم کرکے یعنی بلتستان اور استور کوگلگت اور دیگر اضلاع سے الگ کرنے کی باتیں پھیلاکرایک نئی سازش تیار کی جارہی ہے‘ جس کے تحت خطے کے باسیوں کوآپس میں لڑاکرعوامی حقوق غصب کئے جائیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق یہ ماضی کی طرح اس خطے کے عوام کی طرف سے حقوق کی فراہمی سے متعلق اڑنے
والی آواز کو دبانے کی ایک بہت بڑی سازش ہے اور اسی سازش کے پیچھے کشمیری لابی کا ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ وفاقی سطح پر جب بھی گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی بات چھیڑجاتی ہے تو یہی کشمیری سینہ تان کر آگے آجاتے ہیں کہ یہ خطہ ہمارا حصہ ہے ۔پھر جب کچھ عرصہ بعد حقوق دینے کی وہ افواہیں دم توڑ دیتی ہیں تو یہ لابی بھیگی بلی بن کر غائب ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ توسرحدپار کشمیری لابی سے بھی یہ بات ہضم نہیں ہوپائی کہ حکومت پاکستان آخرکار گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی باتیں کیوں کررہی ہے ۔ انہوں نے بھی اس خطے کو کشمیر کا حصہ قراردیکر عالمی میڈیا پر آسمان سرپر اٹھانے کی بھرپورکوشش کی ۔انہوں نے یہ کھبی نہیں سوچا کہ سرحد پار مقبوضہ کشمیر کے عوام کو تو ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں تو گلگت بلتستان والوں کو بھی پاکستان کے دیگر شہریوں کے برابر حقوق ملے تو کونسی قیامت برپا ہوگی۔دوسری جانب مصیبت پہ مصیبت کے مصداق وفاقی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان میں نت نئے قسم کے ٹیکسز بھی نافذکرکے پہلے سے مفلوک الحال عوام پر ظلم کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں۔ حالانکہ اس بات سے تو اب گلگت بلتستان کا بچہ بچہ بھی واقف ہوچکا ہے کہ جس ریاست میں ایک متنازعہ خطے کے عوام کو قومی دھارے میں نمائندگی حاصل نہیں تواس کی حکومت کو قانوناً یہ ہرگز اجازت نہیں کہ وہ اس متنازعہ خطے کے عوام پر زوربازو ٹیکسز کا نفاز کرے۔مان لیتے ہیں پہلے گلگت بلتستان کوقومی سطح کے تمام اداروں میں برابر کی نمائندگی دیکر اسے آئینی تحفظ دیا جائے پھر جس قسم کا بھی ٹیکس لینا چاہے تو عوام کو کوئی اعتراض نہیں۔گزشتہ سال سے یہ افواہ بھی زبان زدعام ہوچکی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت گلگت بلتستان کوقومی دھارے میں شامل کرنے اور خطے کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے کام کررہی ہے اور اس مقصد کے لئے وزیراعظم کے مشیرسرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک آئینی کمیٹی بنانے کا بھی شوشا چھوڑاگیا مگر کہاں وہ کمیٹی تو کہاں اس کے فیصلے‘وہ معاملہ پیچھلے ایک برس سے کٹائی میں پڑگیا ہے اور کسی کو یہ فرصت نہیں کہ مسئلے کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے۔یہ بھی وزیراعظم نوازشریف کا گزشتہ سال گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات کی مہم کے دوران اپنے دورہ گلگت کے موقع پر کئے گئے ان اعلانات میں سے ایک تھا جن میں سے ننانوے فیصد اعلانات پر تاحال کوئی عملدرآمد نہ ہوسکا ہے۔ اگر وفاقی حکمران گلگت بلتستان کو کچھ دینے میں سنجیدہ ہوتے تو بلیک اینڈ وائٹ میں کوئی چیز تو دیکھا دیتے کہ جی دیکھو یہ دستاویز ہے‘ جس کے اندر گلگت بلتستان کو اکنامک کوریڈور میں شراکت داری دی گئی یا عوام کو آئینی حقوق دیئے جارہے ہیں وغیرہ۔وغیرہ۔ ورنہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں زبانی جمع خرچ کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ وہ تو وہی بات ہوگی کہ ایک بندے نے کشمیر میں دس فٹ اونچی چھلانگ لگانے کا دعویٰ کیا تو پاس موجود شخص نے سامنے آکر میدان دیکھایا کہ جناب زبانی باتوں سے نہیں اس میدان میں بھی دس فٹ اونچی چھلانگ لگاؤ تو ہم مان جائیں گے۔بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کے بے شمارحکمرانوں نے خطے کی تعمیر وترقی اور عوام
کی فلاح وبہبود کے لئے اقدامات اٹھانے کے حوالے سے بہت دعوے کئے مگر بدقسمتی سے وہ صرف دعوؤں کی حد تک ہی رہ گئے۔ان دعوؤں اور اعلانات پرعملدرآمد کے لئے کسی ایک نے بھی تحریری احکامات جاری نہیں کئے۔اب اکنامک کوریڈورکا معاملہ بھی یہی ہے کہ جب تک وفاقی حکومت کی طرف سے تحریری طورپر یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان میں فلاں فلاں منصوبے شروع ہونگے اور ان پر اتنی رقم لاگت آئیگی‘ تب تک نواز شریف یا اکنامک کوریڈور کے وکیل احسن اقبال کے زبانی دلاسے کسی کام کے نہیں ۔
Sharing is caring!
2016-01-22