گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کے تعین کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم 5رکنی آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے تفصیلی غور و خوص اور متعدد فارمولوں کے جائزے کے بعد 4نکات کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ذرائع کے مطابق ان چار نکات میں موجودہ نظام میں بہتری اور آئینی تحفظ کے ساتھ اصلاحات کرنا ، آئینی عبوری صوبہ بنانا ،آزاد کشمیر طرز کانظام اور پانچواں آئینی صوبہ شامل ہیں ۔
(1) گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانانے پر تفصیلی غور کیا گیا تاہم اس کی راہ میں اقوام متحدہ کی قراردادیں ، خطے کی متنازعہ حیثیت ،کشمیریوں کی تحریک آزادی، خطے کاریاست جموں و کشمیر سے تاریخی تعلق، کشمیری قیادت کا سخت مدلل مئوقف ، گلگت بلتستان میں اس حوالے سے اختلافات ، پاکستان کی کشمیر پالیسی اور پاکستانی آئین کے آرٹیکل نمبر1کی شق نمبر 2میں ترمیم ہے ۔ ماہرین کے مطابق حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل نمبر1کی شق نمبر 2میں ایک مرتبہ ترمیم کی کوشش کی گئی تو پھر ملک میں ایک نیا فساد کھڑا ہوگا اور ہزارہ صوبے ، سرائیکی صوبے ، مہاجر صوبے ، شمالی پختونخوا صوبے اور دیگر صوبوں کی تحاریک یا آوازوں کو دبانا مشکل ہوگا ۔اس لئے بیشترماہرین نے گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبے کے فارمولے کو ناقابل عمل قرار دیا ہے ، عملاً یہ فارمولا مسترد ہوگیا ہے ۔
(2)دوسرا فارمولا آزاد کشمیر طرز کا نظام ہے، تاہم اس فارمولے میں اصل رکاوٹ یہ ہے کہ آزاد کشمیر عملاً اور قانوناً الگ خود مختار ریاست ہے جس کا اپنا جھنڈا ،اپنا ترانہ ، اپنی سپریم کورٹ، اپنا عبوری آئین، اپنا صدر اور وزیر اعظم سمیت تمام ریاستی نظام ہے(سوائے کرنسی، دفاع اور خارجہ کے امور)کے ، جب یہ بات مسلمہ حقیقت ہے گلگت بلتستان ریاست و جموں کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے تنازع کشمیر کا بنیادی فریق ہے ، ایسے میں اس کو بھی ایک نیم خود مختار ریاست کا درجہ دیناریاستی تشخص کو مٹانے کے مترادف ہے ۔ اس لیے گلگت بلتستان کے لیے ایسا نظام تشکیل دینا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے نظام سے خطہ میں مستقبل قریب یا بعید میں علیحدگی کی کوئی بھی تحریک اس نظام سے فائدہ بھی اٹھاسکتی ہے اور اس وقت بھی بعض قوتیں علیحدگی کی باتیں کرتے ہیں تاہم اس وقت یہ قوتیں انتہائی منتشر اور بہت ہی کمزور ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ کمزور ہی رہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فارمولے پر بعض ترامیم کے ساتھ عمل کے لئے بعض قوتیں راضی تھیں مگر گلگت بلتستان سے ملنے والے سخت ردعمل نے ان قوتوں کو نظر ثانی پر مجبور کیا ہے ، حالانکہ کشمیری قیادت پہلی بار گلگت بلتستان کے حوالے سے کسی تجویز پر متفق ہوئی تھی اورآزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اس فارمولے پرکے حق میں کی قرار داد منظور کی ۔ماہرین اب اس فارمولے کو بھی ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں ۔
(3)تیسرا فارمولا گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی عبوری صوبہ بنانا ہے جس کے مطابق پاکستان کے آئین کے مختلف آرٹیکلز میں ترامیم کرکے خطے کو اسی طرح پاکستان کا انتظامی ،عبوری صوبہ قرار دیا جائے جس طرح بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور پاکستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 257میں آزادکشمیر کو خصوصی حیثیت دی ہے ۔اطلاعات کے مطابق بیشتر ماہرین اس فارمولے پر متفق ہیں تاہم اس حوالے سے گلگت بلتستان اور کشمیرکی بعض قوتوں کے ردعمل کا خوف ہے جس کی وجہ سے بعض قوتیں مصلحت کا شکار ہورہی ہیں ۔ قانونی ، تاریخی اور آئینی ماہرین کے مطابق تیسرے فارمولے پر عمل کیا جاسکتا ہے جس کے تحت خطے کو آئینی تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نشستیں مختص کی جاسکتی ہیں جن کی حیثیت آئینی طور پر مبصر کی ہوگی اور ان کا استحقاق عام ممبر کی طرح ہوگا ۔اس فارمولے پر غور جاری ہے مگر یہ فارمولہ بھی دوسری ترجیح ہے ۔
(4)تیسرا فارمولا گلگت بلتستان کے موجودہ نظام میں اصلاحات کرکے اس نظام کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے اور نیم خود مختار صوبہ بنایا جائے، اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 257، آرٹیکل 258اور دیگر آرٹیکلز میں ترامیم بھی زیر غور ہیں ۔ اس فارمولے کے مطابق گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو بر قرار رکھتے ہوئے آئین کی 18ویں ترمیم کے مطابق دیگر صوبوں کی طرح انتظامی اور مالیاتی خود مختاری دی جائیگی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی جائے ،جو قومی اسمبلی میں3اورسینٹ میں 2ممبران کی شکل میں ہو ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوتھے فارمولے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور امکان ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دو طرفہ کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیکر جلد اس کا اعلان کریں گے ۔بعض حلقوں کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نشستوں کی تعدادبالترتیب 6اور 4 کرنے کی بھی تجویز ہے ، تاہم اس کے لئے عوامی دبائو کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان قانون اسمبلی کے دبائو کی بھی ضرورت ہے ۔اس ضمن میں فاٹا کی اعدادو شمار کو بطور دلیل پیش کی جاسکتی ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق اصلاحاتی کمیٹی کے سامنے خطے کے تاریخی اور آئینی تشخص کے حوالے سے کئی دستاویز اور فارمولے سامنے آئے جن میں سے ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی تھی کہ گلگت بلتستان کے ریاست جموں و کشمیر کے ریاستی غیر ریاستی کے علاقوں کو الگ الگ کی ماضی کی تجاویز بھی بات کی گئی جوسب پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے دور آئی تھیں بعد میں 2009ء ،2011ء اور 2013ء پیپلز پارٹی کے ادوار میں بھی ان تجاویز پرنہ صرف غور کیا گیا بلکہ گلگت بلتستان کے بعض اہم زمہ داروں کو اعتماد میں بھی لیاگیا تاہم ردعمل کے خوف کے باعث ان کو خاموش رہنے کی تلقین کی گئی اور یہ راز آج بھی گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کے بعض اہم رہنمائوں کے پاس ہے۔
کمیٹی کے ایک اہم ممبرکا بعض رہنمائوں کی جانب سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو تقسیم کے اصل تجویز کنندہ قرار دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے جس انداز میں کمیٹی میں خطے کی وحدت پر مدلل موقف پیش کیا اس کے بعد ہی اس تجویزپر مزید بات ہی نہیں ہوئی ۔