تحریر : اسرارالدین اسرار
آجکل نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو( نیب) گلگت بلتستان میں بڑا فعال ہے ۔ کرپشن کے الزام میں ا ب تک کئی افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں اور مستقبل قریب میں مزید گرفتاریا ں بھی متوقع ہیں۔ ایک طرف عوام کابڑا طبقہ اس کو ستائش کی نگا ہ سے دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف پی پی پی اس کو اپنے خلاف موجودہ حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں گلگت بلتستان میں کرپشن کا دور دورہ رہا ہے۔ خاص طور سے پی پی پی کی گذشتہ حکومت پر کرپشن کے بڑے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگر ان الزامات میں(بقول سابق وزیر اعلیٰ) صداقت نہیں ہے تو پی پی پی کے سابق حکومتی عہدیدراوں کو نیب کا سامنا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ کیونکہ ان پر لگے ہوئے الزامات اگر تفتیش کے بعد غلط ثابت ہوتے ہیں تو یہ ان کے مستقبل کے لئے ایک نیک شگون ہوگا۔ اگر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو ملزمان کو سزا ملنی چاہئے تاکہ آئندہ برسر اقتدار کسی شخص کو کرپشن کا مرتکب ہونے سے پہلے اس کے انجام کا خوف ہواور معاشرے سے اس ناسور کوکم کرنے میں مدد مل سکے۔
کرپشن کا مطلب کسی بھی شخص کا بے ایمانی اور غیر اخلاقی پر مبنی وہ رویہ ہے جس کے زریعے وہ اپنا اختیار صرف اپنے فا ئدے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اچھی اور اخلاقی اقدار سے عاری شخص کو کرپٹ کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مطمع نظر اجتماعی کی بجائے ہمیشہ اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ معاشی کرپشن پاکستان کاقومی المیہ ہے ۔ یہ بیماری روز اول سے پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی مگر گذشتہ پندرہ سالوں میں اس میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ گلگت بلتستان میں اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب مشرف دور میں ٹھیکوں کی بندر بانٹ اور ملازمتوں کے فروغ کے لئے لوگوں سے پیسے بٹورنے کا عمل شروع ہوا تھا ،بعد ازاں پی پی پی کے دور حکومت میں اس کو مزید تقویت ملی۔ کسی کو یاد ہو یا نہ ہو ہمیں گلگت بلتستان کے سیاہ سفید کے مالکان وفاقی وزراء فیصل صالح حیات سے لے کر نثار میمن اور ملک مجید تک تمام لوگوں کا دور یاد ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ یہاں ایک ایک سکریٹری فنانس جیسے اداروں پر سالہا سال تک برا جمان رہے۔ ہمیں اس سے پہلے کا زمانہ بھی یاد ہے جب سوست ڈرائی پورٹ پر اربوں کے دھندے ہونے کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔
ان سارے ادوار کا اگر حساب کتاب کھولا گیا تو وفاقی سطح کے سیاست دانوں سے لیکر بڑے بڑے بیوروکریٹس اور مقامی نامی گرامی سیاست دانوں سے لیکر آفسران اور نچلی سطح تک کے سرکار ی ملازمین تک ایک طویل فہرست بنتی ہے ،جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا ہے۔ ان تمام افراد کو کٹہرے میں کھڑے کرنا نیب کی بس کی بات نہیں ہے۔ اس لئے بعض حلقو ں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ نیب مخصوص لوگوں کو نشانہ بنار ہی ہے۔
گذشتہ طویل عرصے سے جاری کرپشن کے مذکورہ کھیل تماشے میں سب سے بڑا قومی نقصان یہ ہوا ہے کہ عام آدمی کو بھی کرپشن کی لت پڑ گئی ہے۔ ہمارا مسلہ اب صرف معاشی کرپشن نہیں رہا ہے ۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ یہاں کرپشن کی تمام اقسام پائی جا تی ہیں۔ جن میں معاشی ، سیاسی، مذہبی ، معاشرتی، تعلیمی وغیرہ جیسی اقسام شامل ہیں ۔ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کو اس بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ کیونکہ صرف پیسہ بٹورنے والا کرپٹ نہیں ہوتا بلکہ اس کو رشوت دینے والا یا کرپشن میں مدد کرنے والا بھی کرپٹ ہوتا ہے۔ آج تک کرپٹ لوگوں کی مدد عام لوگ ہی کرتے رہے ہیں۔ کرپٹ لوگوں نے نوکریاں بیچی ہیں تو عام آدمی نے خرید کر ان کی مدد کی ہے۔گویا کرپشن معاشرے کے مجموعی نفسیات کا حصہ بن گئی ہے ، لوگوں کے رویے کرپٹ ہو چکے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ کرپشن کے بغیر زندگی کی گاڈی چلانا ناممکن ہے ۔ اس سوچ نے معاشرے کے ہر فرد کو اخلاقی ، نفسیاتی،ذہنی، جنسی اور جسمانی طور پر سراپا کرپٹ بنا دیا ہے۔ یہ عمل معاشرے میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ کوئی گھر ، محلہ، آفس ،بازار اور ایوان اقتدار اس کے شر سے نہیں بچا ہے۔ ریڑھی اورتندور والے سے لے کر بڑے بڑے کاروباریوں تک، چپڑاسی سے لیکر بڑے سے بڑے آفیسر وں تک اور عام سیاسی کارکن سے لے کر نام نہاد قومی رہنماؤں تک سب کے سب بنیادی طور پر کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہیں۔ کرپشن صرف مالی ہو تو اس کامداوا ہوگا ۔ یہاں تو اخلاقی اور نفسیاتی کرپشن بھی عروج پر ہے۔ لوگوں کی جیبیں کاٹنے کے جدید اور سائنسی فارمولے ایجاد ہوچکے ہیں۔ چندہ ، فنڈ، کمیشن، رشوت، تحفہ وغیرہ معاشی کرپشن ہے۔ دفتروں سے غائب رہنا، کام چوری ، غیر ضروری چھٹیاں، ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، اشیاء ضروریہ میں ملاوٹ، سفارش، اقرباء پروری وغیرہ اخلاقی کرپشن ہے۔ لوگوں کو میٹھی زبان سے ورغلانا اور اپنی جال میں پھنسانا، ناقابل عمل سیاسی نعروں سے عوام الناس کو بیوقوف بنا نااور ان کا جائز کام کرنے کی بجائے ان کو ٹرخانا، اپنی زمداری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینا، دوسروں کے خلاف سازش کر کے ان کی جگہ خود لینا، میرٹ کی جگہ جُگاڑ کی بنیاد پر آگے بڑھنا، دن رات ذاتی مفا د کے لئے ناجائز حربوں پر غورو فکر کرناوغیرہ، یہ سب نفسیاتی کرپشن ہے۔
نیب تو صرف معاشی کرپشن کم کرنے کی کوشش کرے گی جو کہ خوش آئند ہے ۔ مگراخلاقی اور نفسیاتی کرپشن کو ن کم کرے گا؟ اس کا جواب شاید نیب کے پاس نہیں ہوگا کیونکہ نیب معاشرے کی سوچ تبدیل نہیں کر سکتی ۔ سوچ بدلنے کا کام معاشرے کے ہر با شعور فرد کا ہے۔ یہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کی زمداری ہے کہ وہ پہلے اپنی سوچ کو درست کرے اور اس کے زریعے خود کو ٹھیک کرے پھر اپنے گھر اور خاندان کو ٹھیک کرے تاکہ اس گھر اور خاندان سے نکلنے والے لوگ معاشرے کے ایماندار رکن بن سکیں کیونکہ معاشرے میں بسنے والا ہر کرپٹ اور برُا شخص کسی نہ کسی گھر اور خاندان کا فرد ہوتا ہے۔ گھر سے اس کو مضبوط ا خلاقیات کی تعلیم ملے تو وہ باہر نکل کے غلط راہ پر نہیں چل سکتا ۔ ہمارے معاشرے کی کرپٹ سوچ ہمارے معاشرے میں موجود گھروں کی پیداوار ہے ۔ گھروں میں اخلاقیات کا معیار ٹھیک ہو تو وہاں سے نکلنے والے لوگ اخلاقی اقدار کا پاس رکھنے کو اپنا شعار بنا سکتے ہیں ۔ ہمارا صرف حکومتی نظام ہی فیل نہیں ہوا ہے بلکہ گھر یلو نظام بھی جواب دے گیا ہے۔ہمیں گھر سے لیکر ایوان اقتدار تک سب کی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام نیب نہیں کر سکتی ، لہذا یہ امید نہ رکھی جائے کہ چند افراد کی پکڑ دھکڑ سے کرپشن مکمل طور پر ختم ہوگی۔ کرپشن سائنسی بنیادوں پر نئے انداز اور نئے طریقوں سے اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرے کے ہر فرد کا اخلاقی معیار بلند نہیں ہوتا ہے