’’نیکی اور برائی کاتصوراورنیب کی آمد‘‘

فیض اللہ فراق
کائنات کاوجود مثبت اورمنفی کے مخالف پولز پر قائم ہے اور دنیا کی ہرشے اپنے باطن میں دو مختلف قسم کے مخالف تصورات پنہاں رکھتی ہے فطرت کے نزدیک قیام پذیر افراد مخلوق انہی تضادات سے آگاہ ہیں کائنات کی ہرچیز تضادات سے عبادت ہے ہرطلوع ہونے والی صبح کے بعد رات کاظہور عروج کے بعد زوال کی آمد زندگی کے برعکس موت کی حقیقت آسمان کی الٹ زمین اورنیکی کامخالف پول برائی کاوجود ہے نفرتوں کے متبادل وفاؤں کالامتناہی سفربھی انسانی حیرتوں میں حقائق کے درکھولنے کاسب بنتا ہے غرض دنیا کی ابتداء میں حضرت آدمؑ سے پروان چڑھنے والی نسل آدم کوحقیقت سے پرے لے جانے کیلئے ابلیس کاوجود ہی دنیا کی حرکت وحرارت کاموجب بنا ہوا ہے یہ دنیا نہ توصرف خوشیوں اورمحبتوں کی بدولت اپناوجود قائم رکھ سکتی ہے اور نہ ہی برائیوں اورنفرتوں کے بوجھ کوبرداشت کرسکتی ہے اس لئے کائنات میں توازن لانے کیلئے انسانی فطرت کویکسانیت سے عاری کیا ہے اورانسان کامتنوع خمیر اپنی بے چین روح کوآمادہ کرنے کیلئے اپنی برائیوں واچھائیوں پرمبنی سرشت کاباطنی اظہار کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں کہیں امن توکہیں بدامنی، کہیں خوشی توکہیں غم ، کہیں عروج توکہیں زوال کہیں وفائیں توکہیں بے وفائی اورکبھی نیکی وبرائی کاملاجلارحجان ملتا ہے سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ نیکی اوربدی میں متضاد کے علاوہ مفہوم وفکر کے اعتبار سے کیا فرق ہے ؟یورپ میں جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس سرعام جنسی عمل کے اظہار سے وہاں کی خاتون برائی کا موجب نہیں بنتی جبکہ مشرقی سماج میں یہ عمل برائی کے زمرے میں آتا ہے آخر ایسا کیوں ہے ؟کیا برائی کی کئی شکلیں ہیں جوزمین اور مٹی کی مطابقت سے اپنا اثردکھاتے ہیں ؟ گالی بنیادی طورپربرائی کاتصور ہے مگر بعض معاشروں میں اس کا رواج ہے عورت کو بازاروں میں جاکر کھلے عام خریداری کاعمل بعض معاشروں میں برائی اور بعض معاشروں میں نیکی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے بنیادی طورپربرائی ونیکی میں فرق کوسمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ برائی کی معنی پوری دنیا کیلئے یکساں ہیں برائی کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ عمل جس کے سرزد ہونے سے اجتماعی معاشرے پرمنفی اثرپڑے اورمعاشرتی گروہ کوجس سے حبس اورگٹھن محسوس ہوجبکہ نیکی کامفہوم یہ ہے کہ جس کے عمل سے اجتماعی سماج کوچین وسکون نصیب ہوں اگر یورپی معاشرے میں ایک خاتون کے کھلے عام جنسی خواہشات کے اظہار سے وہاں کی اجتماعی زندگی پرکوئی خاص اثر نہ پڑتا ہو توپھربرائی کامفہوم وہاں پر بدل جاتا ہے بعض دانشوروں کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ وہ عمل برائی کہلا تا ہے جوانسان کی خواہشات کی راہ میں رکاوٹ بنے اور وہ عمل نیکی ہے جوانسانی خواہشات کے راستے میں معاون ومددگار ثابت ہوں بعض کے نزدیک انسانیت کے دکھوں پر مرہم رکھنا نیکی ہے بعض کے خیال میں کسی غریب کا ساتھ دینا نیکی ہے دراصل نیکی اس عمل کانام ہے جس کے انجام سے انسان کو روحانی وباطنی چین ملے جبکہ برائی وہ فعل ہے جس کے ہونے کے بعد انسان خود پرشرمسار ہوتا ہے نیکی کرنے سے انسان کی خوشی وقت کی قید سے آزاد ہوتی ہے جبکہ برائی میں وقتی لذت توہے مگر سرزد ہونے کے بعد انسان کوخود ندامت ہوجاتی ہے ہمارے معاشرے کی رگ وپے میں سرائیت کرنے والی انفرادی واجتماعی برائیوں کے تسلسل نے نیکی کی قوت کو پہنتے نہیں دیا ہے جس کی وجہ سے کوبکو عدم اطمینان کی فضاء ہے نفرتوں کاچلن عام ہے جبکہ قومی وعلاقائی مفادات کو محض ذاتی مفادات پرقربان کیے جارہے ہیں ایسے میں معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے معاشرتی مزاج کے برخلاف تھونپنے والی نیکی کارستہ روکنا ضروری ہے جوبرسراقتدار طبقہ کرپشن ،لوٹ مار،رشوت اور دھوکہ دہی کو نیکی سمجھ کر خوب کمائی کے چکروں میں مصروف ہے ان کا سدباب ناگزیر ہے 2009ء سے لیکر اب تک گلگت بلتستان کی کچھ اشرافیہ اور سیاسی پنڈتوں نے میرٹ کوپامال کیا ہے اور لوٹ مار کے ذریعے اہل افراد کے حق کا گلا گھونٹا ہے تین تین لاکھ کے عوض استاد کے مقدس پیشے کو سرعام نیلام نیکی سمجھ کر کیا ہے اور کرپشن کے یہ بے تاج بادشاہ آج بھی اپنے جائز عمل کویہ کہہ کر دلیل سے ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ ہم نے گلگت بلتستان کوروزگار دیا ہے اس میں کیا برائی ہے ؟؟محکمہ خوراک ،محکمہ جنگلات،محکمہ برقیات ومحکمہ ورکس میں میرٹ کاقتل کرنے والے کردار اپنے عمل کونیکی تصور کرتے ہوئے خود کوبری الزمہ کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں نیکی وبرائی کے حقیقی تصور سے عاری اپنے اپنے محکموں میں ہونے والی کرپشن، غیرقانونی بھرتیاں اور دوسروں کے استحصال کوعلاقائی خدمت سمجھتے ہیں محکمہ جنگلات میں ٹمبرپالیسی کی شکل میں 2013ء میں ہونے والی میگاکرپشن کوبعض اہلکار اب بھی علاقائی بہتری قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں محکمہ تعلیم میں استاد کی نوکری کوفروخت کرنے والے اپنے عمل کو علاقے سے بیروزگاری کاخاتمہ کہتے ہوئے فخرمحسوس کرتے ہیں دیگر محکموں میں ہونے والی کرپشن کوعلاقائی خدمت کہتے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کرپشن کے ان تمام حوالوں سے اجتماعی معاشرے پرمثبت اثر پڑا یا منفی اگر مذکورہ کرپٹ عناصر کی بدترین کرپشن سے اجتماعی معاشرہ متاثرہورہا ہے تویہ نیکی کا عمل نہیں ہے یہ برائی ہے جس کو گھسے پٹے دلائل سے نیکی ثابت کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں برائی کی اس کھلی فضاء میں نیب کی آمد نیکی کاخوبصورت جھونکا ہے اور قومی احتساب بیورواجتماعی معاشرے کے جذبات کی عکاسی ہے نیب کوچاہیے کہ وہ محکمہ جنگلات میں ہونے والی سابق کرپشن پرتفتیش کادائرہ کار بڑھاتے ہوئے نیکی کے باب میں ایک اوراضافہ کریں اوربرائی کے کرداروں کوسبق سکھاکرمعاشرے کوسکون فراہم کریں ۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.