ڈپٹی سپیکراسمبلی میں پھٹ پڑے

ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان نے کہا ہے کہ گلگت شہر کھنڈرات اور تالاب کا منظر پیش کررہا ہے عوام کو پانی مل رہا ہے نہ بجلی ملتی ہے سرکاری اداروں میں ہونے والی بھرتیوں میں میرٹ کے نام پر ڈرامے ہورہے ہیں سرکاری اداروں کے سربراہ ٹیسٹ انٹرویو کے نام پر اپنے اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کررہے ہیں جبکہ میرٹ پر آنے والے غریبوں کے بچے دیکھتے رہ جاتے ہیں اگر یہ سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو میں نہ صرف اسمبلی کو تالا لگادوں گا بلکہ تمام سرکاری اداروں کو بھی تالے لگادونگا ۔انہوںنے پیر کے روز قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان میں کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر کام نہیں ہورہا ہے اور جو کچھ ترقیاتی بجٹ کی مد میں ہمیں ملتا ہے وہ ہر سال ترقیاتی منصوبوںپر کام نہ ہونے کی وجہ سے واپس ہورہا ہے انہوںنے کہا کہ گزشتہ دنوں وفاقی بجٹ میں گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کےلئے گیارہ ارب تین کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 10ارب بیس کروڑ روپے جاری ترقیاتی منصوبوں کےلئے جبکہ 85کروڑ روپے پانچ نئے منصوبوں کے رکھاگیا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ گلگت بلتستان بالخصوص گلگت شہر میں گزشتہ ایک سال کے عرصے میں ایک روپے کا بھی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے تو پھر یہ کون سے جاری ترقیاتی منصوبے ہیں اور کہاں پر بن رہے ہیں جن کےلئے دس ارب بیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ہمیں بھی آگاہ کیا جائے اس طرح وہ کون سے نئے پانچ منصوبے بن رہے ہیں جن کےلئے 85کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ہمیں بھی آگاہ کیا جائے۔انہوںنے کہا کہ ہماری گزشتہ ایک سال کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے انہوںنے کہا کہ گلگت شہر کے واٹر ایری گیشن کے دونوں واٹر چینل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی اراضی بنجر ہورہی ہے ۔شہر میں سیوریج اور ڈرینج کا سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے گلگت شہر تالاب کا منظر پیش کررہے ہیں جبکہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ترقیاتی فنڈز انہیں درست کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے ہر سال واپس ہورہے ہیں انہوںنے کہا کہ ہم شہر میں جہاں کہیں پر بھی جاتے ہیں تو لوگ ہم سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ایک سال میں کیا کام کیا ہے اور ہم عوام سے جھوٹ بول بول کر تھک گئے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ میں شرمندگی کی وجہ سے شہر میں کسی کے غم و خوشی میں بھی شریک نہیں ہوسکتا ہوں ۔ انہوںنے کہا کہ سرکاری اداروں کا کام ٹی اے ڈی اے بنانا نہیں ہے بلکہ عوام کی خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے کےلئے یہ ادارے بنائے گئے ہیں مگر ان اداروں کے ذمہ دار افراد کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ لوگ مہینے میں 15دن چھٹیاں کرتے ہیں اور پندرہ دن دفاتر میں ہوتے ہیں جس کی سزا عوام کو مل رہی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ میرٹ کے نام پر بڑا جھوٹ بھولا جارہا ہے کہیں پر بھی میرٹ پر عمل نہیں ہورہا ہے خالی اسامیوں پر ادارے کے سربراہ اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کرتے ہیں جبکہ میرٹ پرآنے والے اہل اور غریب بچوں کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور اس صورتحال میں شرمندگی کی وجہ سے ہم عوام کا سامنا نہیں کرسکتے ہیں انہوںنے کہا کہ اگر اس سسٹم کو ٹھیک نہیں کیاگیا تو میں اسمبلی اور تمام سرکاری اداروں کی تالہ بندی کروں گا اور آج میں احتجاجاً اسمبلی اجلاس سے واک آﺅٹ کرتا ہوں جس کے بعد جعفر اللہ خان ایوان سے واک آﺅٹ کر کے چلے گئے اوربعض اپوزیشن اراکین بھی ان کے ساتھ واک آﺅٹ کر گئے جس پر سپیکر فدا محمد ناشاد نے پارلیمانی سیکرٹری اورنگ زیب ایڈووکیٹ اورپبلک اکاﺅنٹس کے چیئرمین کیپٹن (ر) سکندر علی سے کہا کہ وہ انہیں منا کر واپس لے آئیں جس پر یہ لوگ باہر گئے اور جعفر اللہ خان کو منا کر دو بارہ ایوان میں لے آئے اس موقع پر ایوان سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی باتیں تلخ ضرور ہیں مگر حقائق ہیں ۔انہوںنے کہا کہ ممبران اسمبلی ترقیاتی منصوبوں کا پی سی ون منظور کرانے کےلئے میں نے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم پانچ سال بعد عوام کو منہ دکھا نے کے قابل بھی نہیں رہیں گے انہوںنے کہا کہ بیورو کریسی نے جس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت کوناکام بنایا تھا اس طرح وہ ہمیں بھی ناکام بنائے گی یہ لوگ ہمیں کاغذوںمیں الجھا کر پانچ سال پورا کرانا چاہتے ہیں اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کو بھی بٹھا کر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوازخان ناجی نے کہا کہ ہماری اپوزیشن کمزور ہے اس لئے ڈاکٹر اقبال اورڈپٹی سپیکر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوںنے حقائق بیان کئے ۔وزیرتعلیم حاجی ابراہیم ثنائی نے کہا کہ سب کو ایک ڈنڈے سے نہ ہانکا جائے جس نے اچھا کام کیا ہے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہےے اور جس نے کام چوری کی ہے اس کی بھی نشاندہی ہونی چاہےے ہم کسی سیکرٹری ، ڈپٹی سیکرٹری حتیٰ کہ سیکشن آفیسر اورایک ایکسین کو بھی تبدیل کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے تو ہم انہیں کیسے مجبور کرسکتے ہیں اس موقع پر سپیکر فدا محمد ناشاد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ کی باتیں تلخ ضرور ہیں مگر حقائق پر مبنی ہیں انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ نے کئی مرتبہ اس ایوان میں اعلان کرچکے ہیں کہ جون میں ممبران اسمبلی کے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہوگا مگر اب تک ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہونا اورٹینڈر ہونا تو دورکی بات ابھی تک ان ترقیاتی منصوبوں کا پی سی ون بھی منظور نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے ممبران اسمبلی سمیت ہم سب کو تشویش ہے اگر وزیر اعلیٰ کے باربار کے اعلان کے باوجود ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہونا تو بڑی بات ہے پی سی ون تک منظور نہ ہوسکا تو عوام ممبران اسمبلی سے کیا توقع رکھیں گے اس موقع پر انہوںنے کہا کہ منگل کے روزصبح گیارہ بجے اسمبلی کے کانفرنس روم سے وزیر اعلیٰ سے تفصیلی میٹنگ کریں گے وزیر اعلیٰ خود ممبران اسمبلی کے سوالوں کا جواب دیں گے اس لئے تمام ممبران اپنے اپنے سوالات نوٹ کر کے اجلاس میں شرکت یقینی بنائیں ۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.