ناصر عباس نیر
اسسٹنٹ پروفیسر، اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور
پہلی قسط
برطانوی ہندوستان میں جتنی تعلیمی پالیسیاں نافذ ہوئیں،ان کی جہت اور مقصد میں کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی، تاہم اس مقصد کے حصول کے طریقِ کار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف تک ہندوستان میں پاﺅں جمالیے تھے۔
اہم سیاسی اور تجارتی کام یابیوں کے بعد کمپنی اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوئی،جسے ثقافتی غلبے کی خواہش کہنا چاہیے۔
اگرچہ کمپنی اپنے تجارتی قلعوں،فوجی چھاﺅنیوں،اپنے سول انتظامی دفتروں، گرجاﺅں، سول لائنوں کے ذریعے بھی اپنے ثقافتی شکوہ کا اظہار کرتی تھی۔
مگر یہ سب اس کی امپیریل ثقافت کا ایک پہلو تھا اور فقط مرعوب کن اظہار تھا؛وہ ثقافتی غلبہ چاہتی تھی اور اس غلبے کی راہ سے اپنے سیاسی اقتدار میں وسعت اور استحکام کی خواہش مند تھی۔
تعلیم اس غلبے کا سب سے اہم اور موثر ذریعہ تھی ۔ہندوستان کے برطانوی حکمران تعلیم کاوہی تصوررکھتے تھے۔
جو نشاة ثانیہ کے دوران میں تھا جس میں ”انسانی آدمی“ یعنی اور ”حیوانی آدمی“ یعنی کی تفریق موجود تھی ۔
تعلیم حیوانی آدمی کو اس انسانی آدمی میں منقلب کرتی تھی ،جس کا تصور ریاست تشکیل دیتی تھی یا جسے ریاست درجہءاعتبار دیتی تھی۔
اسی غرض سے ریاست نے تعلیم کواپنے ہاتھوں میں لیا۔اٹھارویں صدی کے اواخر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانیوں کی تعلیم کو اپنا ”فریضہ“ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
کمپنی کی حکومت سے لے کر تاجِ برطانیہ کی براہِ راست حکومت تک ہندوستان میں ہمیں تین قسم کی تعلیمی پالیساں ملتی ہیں:مشرقی علوم کی تدریس کی پالیسی؛انگریزی علوم کی تدریس کی پالیسی اور دیسی زبانوں کے ذریعے تعلیم کی پالیسی۔
کلکتہ مدرسہ(1781ء) اور بنارس کا سنسکرت کالج(1791ء)بالترتیب مسلمانوں اور ہندوﺅ ں کی کلاسیکی زبانوں یعنی عربی اور سنسکرت کی تدریس کے لیے کھولے گئے۔1725ءاور1813ء کے درمیانی عرصہ میں کمپنی کی تعلیمی پالیسی کا خاص مقصدسنسکرت اور عربی زبان میں روایتی علومِ شرقیہ کی ہمت افزائی ہو گیا۔
کمپنی کے اربابِ اختیار یہ بات جان گئے تھے کہ مسلمان اور ہندو اشرافیہ طبقات اپنی قومی شناختیں کلاسیکی زبانوں کے ذریعے کرتے تھے اوریہی ان کی علمی زبانیں تھیں۔
چناں چہ ان زبانوں کی سرپرستی سے دونوں طبقات کے با اثر طبقات کی ہمدردیاں حاصل کرنا ممکن تھا ۔ ہندوستان کے محدود علاقوں پر قابض ایسٹ انڈیا کمپنی نے تعلیمی نظام کا واضح خاکہ تشکیل نہیں دیا تھا۔
مسلمانوں اور ہندوﺅں کی کلاسیکی زبانوں کی تعلیم کا انتظام کرنا،بڑی حدتک اس سیاسی حکمت عملی کا مظہر تھا کہ کمپنی ہندوستان کے اشرافیہ طبقات کے شناخت کے حساس معاملات میں دخل اندازی نہیں کر رہی۔
بلکہ ان کے تحفظ کا ذمہ اپنے سر لے رہی ہے۔1813ء میں جب کمپنی کے چارٹر کی تجدید ہوئی تو اس میں ایک نئی شق کا اضافہ ہوا جس کی رو سے کمپنی کے لیے لازم ہوا کہ وہ ایک لاکھ روپیہ سالانہ ہندوستانیوں کی تعلیم پہ خرچ کیا کرے۔
جس کا واضح مطلب تھا کہ اس نے ”شناخت کے حساس معاملات میں عدم مداخلت“ کی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے؛
اوردرپردہ مطلب یہ تھا کہ اپنے مقبوضات کے تعلیمی نظام کو کمپنی اپنے ہاتھ میں لے لے۔
اس شق سے جڑایہ لازمی سوال کہ ہندوستان کا تعلیمی نظام کیاہو،چارلس گرانٹ پہلے ہی اٹھا چکا تھا۔چارلس گرانٹ نے 1790ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے ہندوستان کی تعلیمی اور اخلاقی حالت کا نقشہ کچھ ایسا کھینچ کر دکھایا کہ جیسے ہندوستانی جاہل اور وحشی لوگ ہوں۔
اس نے اس کا یہ علاج تجویز کیا کہ برطانوی حکومت ہندوستانیوں کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کرے۔
نیز انھیں مغربی علوم ،سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ عیسائیت کی تعلیم دے اور اس مقصد کے لیے انگریزی کو
ذریعہ تعلیم بنانے کے ساتھ انگریزی زبان و ادب کو بھی نصاب میں شامل کرے۔
چارلس گرانٹ کے خیالات ،نشاةِ ثانیہ کے یورپی تصوراتِ تعلیم کی سادہ اور کسی قدر خام تفسیر تھے۔
آگے چل کر ہندوستانیوں کی تعلیم کا مسئلہ جب بھی نوآبادیاتی آقاﺅں کے زیرِ غور آیا،اس کی بنیاد میں یہ قضیہ لازماً شامل رہا کہ ”ہندوستانی جاہل اور وحشی ہیں اور ان کو مہذب بنانے کا واحد طریقہ انگریزی تعلیم اور یورپی ثقافت کی ترویج ہے۔
دس برس تک کمپنی نے ہندوستانیوں کی تعلیم کے لیے مختص رقم خرچ نہیں کی۔
چارلس گرانٹ کے موقف میں جوبات ایک خیال کی سطح پر تھی تھا،وہ لارڈ میکالے کی تعلیمی رپورٹ میں ایک زور دار نظریے میں بدل گئی۔
میکالے 1834ء میں حکومت ہند کے نئے رکن قانون کی حیثیت سے مدراس میں وارد ہوا اور اسے مجلس تعلیمات عامہ کا صدر بنایا گیا۔
اس نے 1835ءکی تعلیمی رپورٹ میں یہ قطعیت سے لکھا کہ کمپنی کو اپنا تعلیمی بجٹ صرف اور صرف انگریزی تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے اور کمپنی کو روایتی و مقامی مدارس کی مالی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔
میکالے نے دھمکی دی تھی کہ اگر اُس کی تجاویز پر عمل نہ کیا گیا تو وہ مجلس تعلیمات عامہ سے استعفا دے دے گا۔
یہ دھمکی کارگر رہی اور 1835ءسے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا۔اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ انگریزی نظام تعلیم ایک نئی ہندستانی اشرافیہ پیدا کرنے کی غرض سے رائج کیا گیا۔
جو باہر سے ہندستانی، مگر اندر سے انگریز ہو۔ نئی ہندستانی اشرافیہ کی دو غلی شخصیت نوآبادیاتی ضرورت تھی۔
باہر سے ہندستانی ہونے کی وجہ سے، وہ انگریز حکم رانوں کے یہاں برابری کا رتبہ نہ پا سکے اور اندر سے اینگلو ہونے کے سبب وہ ہندستانیوں میں خود کو اجنبی محسوس کرے۔
نیز اس کی منقسم شخصیت کا داخلی رُخ خود اپنے ہم نسلوں، اپنی روایت اور اپنے ماضی سے منقطع ہی محسوس نہ کرے اُس سے حقارت کا رویہ بھی اختیار کرے۔
اپنے ماضی سے انقطاع کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بدیسی علوم، اقدار اور طرزِ فکر سے پُر کرے۔
میکالے کے بہنوئی چارلس ٹریویلین نے 1838 ءمیں ہندوستانیوں کی تعلیم سے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ۔سیاسی طور پرانگریزوں کے غلام ہندوستان پر یورپی ثقافتی غلبے کی کوششوں کو سمجھنے کے لیے ٹریولین کی کتاب بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
ٹریولین کا خیال ہے کہ غلام ہندوستان کے پاس آزادی حاصل کرنے کے دو راستے ہیں: انقلاب اور اصلاح۔ انقلاب کے ذریعے فقط ایک ماہ میں ”مرہٹہ یا اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔
(یاد رہے ابھی 1857ءکی جنگ ِآزادی میں انیس برس باقی تھے)
اور اصلاح کے ذریعے ہند وستان کو آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک صدی درکار ہوگی۔(یہ پیش گوئی حیرت انگیز طور پر
پوری ہوئی)ٹریولین یہ رائے طاہر کرتا ہے کہ اگر ہندوستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ اپنے ماضی کی طرف پلٹ جائیں گے،یعنی اپنے کلاسیکی علوم کی طرف متوجہ رہیں گے۔
اور اپنے احیا کی متشددانہ کوششیں کریں گے اور اس راہ میں حائل ہونے والے یورپی ثقافتی اثرات کو ملیا میٹ کر دیں گے۔
لہٰذا ٹریولین نے انگریزی زبان و ادب کی تدریس کی پر زور حمایت کی۔ ” ہندوستانی نوجوان ہم سے ہمارے ادب کے ذریعے مانوس ہونے کے بعد ہمیں غیر ملکی سمجھنا ترک کر دیتے ہیں۔
وہ ہماری ہی طرح ہمارے عظیم لوگوں کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ یکساں طریقے سے تعلیم حاصل کرنے ،یکساں باتوں میں دل چسپی لینے ،یکساں مشاغل میں ہمارے ساتھ مصروف ہونے کے بعد ہندوﺅں[ہندوستانیوں] سے زیادہ انگریز بن جاتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔