شیرعلی انجم
لینن کہتے ہیں ثقافت ایک معاشرتی ورثہ ہے جو ایک نسل کو دوسری نسل سے انفرادی اور اجتماعی تجربات سے منتقل ہوتا رہتا ہے۔لہذا یہ کہنا پڑے گا کہ ثقافت کی اہمیت سے انکار اور ثقافتی ایام منانے سے انکار ممکن نہیں کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کا وجود اور اس کی ترقی ثقافت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ثقافت ہی وہ بنیادی شے ہے جس سے ہم انسان اور حیوان میں تمیز کر سکتے ہیں۔ ثقافت زندگی میں پیش آمدہ مختلف سرگرمیوں کا ایک خاکہ، نمونہ اور طریقہ ہے جس پر معاشرہ عمل پیرا ہوتا ہے اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے۔ثقافت انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی عمل ہے۔ اجتماعی انسانی برتاؤ اور اس کی روز مرہ زندگی کو مجموعے کی شکل میں ہم ثقافت کہ سکتے ہیں۔ اس لیے دنیا کے مختلف خطوں میں وہاں کے باسی ایک جیسے رویوں، اخلاق اور عمومی معاملات کے مالک ہوتے ہیں۔معاشرے کی ذیادہ تر ثقافتی اقدار، افراد اپنے آباواجداد سے وراثت میں پاتے ہیں، کچھ جدید ضروریات کے مطابق خود وضع کر لیتے ہیں اور کچھ دوسرے معاشروں سے مستعار لیتے ہیں۔ ثقافت ارتقاء پذیر ہے۔ یہ یکسانیت کا شکار نہیں ہوتی۔ تبدیلی اسکا لازمی جزو ہے۔ مگر تبدیلی کے مزاج کا ثقافت کے مزاج سے لگاو ضروری ہے۔ اجنبی اور غیر مانوس رویو ں اور اقدار کو ثقافت قبول نہیں کرتی۔ بلکہ ان میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر لیتی ہے کہ وہ رویے اور اقدار اجنبی نہیں رہتے بلکہ ثقافت کے عمومی مزاج سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ثقافت ایک مہینے یا ایک سال میں نہیں بنتی بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اور ضرورت پڑنے پر نئے ثقافتی عناصر کا اضافہ کر تی رہتی ہے۔ ثقافت کا رشتہ ماضی کیساتھ استوار ہوتا ہے۔ ماضی کے بغیر ثقافت کو زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ثقافت بدلتے ہوئے حالات میں انسان کو ذہنی طور پر مستعدکردیتی ہے۔انسان جدید ضروریات کے مطابق تبدیلیوں کو برداشت کرتا ہے اور خود کو نئے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ درحقیقت ثقافت اپنی تبدیلیوں کے ارتقاء کا نام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے خطے میں جہاں قومی ثقافت کو یکساں انداز میں منانا اور اس جڑے مسائل کا ادراک کرنا ایک سنگین مسلہ ہے تو دوسری طرف یہ خطہ تمام تر ثقافتی جعرافیائی اور دفاعی اہمیت کے باجود گزشتہ اناسٹھ سالوں سے بنیادی انسانی سیاسی اور معاشرتی حقوق سے محروم ہیں لیکن حکمران طبقہ ان تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر پوار سال بیس لاکھ عوام کو ثقافت کے نام پر غیر ضروری مصروفیات میں مصروف کیا ہوا ہوتا ہے جسے حکمران اپنی مرضی سے نام دے دیتے ہیں۔اگر حالیہ ٹوپی ڈے کی بات کریں تو نہایت ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اس دن کے منانے کا اول تو آج کی صورت حال میں کوئی ضرورت درپیش نہیں تھی کیونکہ پاکستان جہاں سے پیک کے ذریعے دنیا کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے جارہی ہے ہے وہیں اس منصوبے سے متاثر متازعہ گلگت بلتستان جو آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بھی نہیں لیکن سی پیک کیلئے گیٹ وے کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ اور انداز سیاست دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انکے نزدیک اقتدار ہی دراصل ہمارے خطے کا اہم مسلہ ہے یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں نے ہر اس شخص کو ہراساں کرنا شروع کیا ہوا ہے جو سی پیک میں پاکستان کے دوسرے صوبوں کے بابر حقوق مانگتے ہیں۔اسی طرح جہاں ٹوپی ڈے کے نام پر ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہیں کئی اہم علاقوں کے صدیوں پرانی تاریخی ثقافت کو حکمران نے مکمل طور پر نظرانداز کرکے ایک یکطرفہ ثقافت گلگت بلتستان میں بسنے والے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ قابل مذمت اور حکومتی روئے میں شامل تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔ لہذا ہمیں کوئی مسلہ نہیں کہ حکومت ثقافتی ڈیز منائیں لیکن دیگر مسائل کی حل کیلئے بھی اسی انداز میں متحرک ہوجائیں جس انداز میں ہم نے ٹوپی ڈے مناتے دیکھا۔ ورنہ ہم یہی کہیں گے کہ یہاں حکومت نہیں بلکہ تینتیس افراد کی نوکری اور انکے پروٹوکول اور شاہ خرچیاں ہیں جسے سیاسی نظام کا نام دیکر عوام کو ٹوپی پہنایا ہوا ہے۔لہذا ٹوپی پہنے اور پہنانے سے بھی ہٹ کر کچھ فیصلے کرنے ہونگے تاکہ معاشرے کو اس ٹوپی نجات مل سکے۔ ورنہ آپ ٹوپی ڈے مناتے رہیں اور ہم جیسے لوگ آپ کو ٹوپی ڈے مبارک کہتے رہیں گے۔