گلگت (ارسلان علی)وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں اکنامک زون نہیں بلکہ ECOاکنامک انڈسٹری زون بنایا جارہاہے جس سے گلگت بلتستان کی زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان میں انڈرسٹریز لگائی جائینگی۔ آئندہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کی اجلاس میں 10بل منظور کئے جارہے ہیں اور ان بلات کی منظوری سے عوام کے بہت سے مسائل حل ہوجائینگے،قانون بنانا مشکل نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کروانا مشکل کام ہے جس کے لئے ہم ہر طرح سے کوشش کررہے ہیں۔گلگت بلتستان میں تباہ کن انداز میں بے روز گاری بڑھ رہی ہے کیوں کہ گلگت بلتستان میں انڈسٹریز نہیں اور سرکاری ملازمت کے علاوہ کوئی اور ذریعے نہیں ہے جس کے لئے ہمیں اکنامک ایکٹیوٹی کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں سی پیک سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اتوار کے روزمحکمہ ماحولیات WWF،AKRSP،سی موڈاور سرینہ ہوٹل کی مشترکہ تعاون سے پہاڑوں کے عالمی دن کے مناسب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام کیلئے توانائی کے متبادل زرائع متعارف کرانا ہونگی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے انرجی مکس منصوبے کے تحت ایل پی جی ائیرمکس پراجیکٹ گلگت بلتستان میں متعارف کرایا جائیگا ابتدائی مرحلے میں گلگت سے اس منصوبے کا آغاز کیا جائیگا جس کیلئے فنڈز کی بھی منظوری دی جاچکی ہے سستے توانائی کے ذرائع متعارف کرانے کیلئے حکومت مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے تاکہ بتدریج ماحول دوست توانائی کے ذرائع متعارف کرائے جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ انرجی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے سولر انرجی کے منصوبے متعارف کروائے جارہے ہیں جس کے تحت پہلا منصوبہ قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی میں لگایا جارہاہے اور اس کے بعد سرکاری عمارات کے چھتوں پر سولر انرجی سسٹم کے پلیٹس نصب کیے جائینگے تاکہ سرکاری دفاتر کو سولر انرجی سے بجلی دی جاسکے۔
وزیراعلیٰ نے کہا ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے گرین پاکستان منصوبے کے تحت وزیراعظم نے ساڈھے تین ارب کے منصوبے کی منظوری دی ہے اور گلاف پراجیکٹ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اس منصوبے سے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ قدرتی ماحول کی تحفظ کے لئے صرف ہوٹلوں میں سیمیناز منعقدہ کروانے سے نہیں ہوتا بلکہ ان پرگرامز کو ہوٹلوں میں کروانے سے گاوں اور پہاڑوں پر بسنے والے لوگوں کے پاس چلا جائے اور اس سے کم قیمت پر لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکتی ہے اور سوسائٹی کی شراکت کے بغیر کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے کمیونٹی کی شراکت سے ٹرافی ہنٹنگ متعارف کرایا جس کی افادیت اورکمیونٹی کو حاصل ہونے والے فوائد کی وجہ سے آج مختلف جگہوں سے کنزویشن کمیٹیوں کیلئے درخواستیں ادارے کو موصول ہورہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کیلئے دور دراز علاقوں کے عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور انکے مسائل حل کرنا لازمی ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال نے نمٹنے کیلئے ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو فعال کیا گیا ہے لیکن قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول کے تحفظ کیلئے صرف ایک درخت لگانا کافی نہیں بلکہ یہ ایک تسلسل کا عمل ہے شجر کاری کے بعد درختوں کا تحفظ اور فالو آپ کیلئے صوبائی حکومت نے کمیٹی بنائی ہے جو شجر کاری مہم کے تحت لگائے جانے والے درختوں کے تحفظ اور کامیابی کے حوالے سے کام کریگی جس میں سوسائٹی کا بھی اہم کردار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوجائے گی اور اس علاقے کے قدرتی ماحول پر بہت اثر انداز ہوجائے گا جس کو روکنے کے لئے ہمیں پلاننگ اور اس کو کم سے کم کرنے کے لئے این جی اوز اور حکومتی ادارے ریسرچ پیپز بنانے اور ہم اس پر قانون ساز کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے تباہی کے سوا اس خطہ کو کچھ نہیں دیا اور ماحول کی تحفظ کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جبکہ ہم قدرتی ماحول سمیت گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے دن رات کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سیاحوں کی بڑی تعدادکا گلگت بلتستان آنے سے بھی قدرتی ماحوم پر اثرانداز ہوا تھا اس لئے ہم نے مستقبل کے لئے اس حوالے سے منصوبہ بندی تیارکی ہے اور سیاحوں سے گلگت بلتستان انٹری ہونے پر ایک ماقول ٹیکس لگایا جائے گا اوراس مد میں سالانہ ایک ارب روپے گلگت بلتستان کے خزانہ میں جمع ہوجائینگے اور اس ایک ارب روہے سے قدرتی ماحول کی تحفظ کے لئے لگایا جائے گا۔