پاکستان کا بابر 3 کروزمیزائل کا تجربہ اور دوسرے حملے کی صلاحیت (سیکنڈ سٹرائیک صلاحیت)

ریسرچ وتحریرآحمد اعوان

کسی بھی ملک کو اپنے ایٹمی ہتیھارہدف تک پنچانے کے لیےڈلیوری سسٹم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جن میں بمبار طیارے، بلیسٹک میزائل، کروز میزائل، آرٹلری شیلز (توپ کے گولے) اور نیوکلیر بیسڈ سیٹلائٹ ( جو خلاہ سے زمین پر موجود اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہے) پیش پیش ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان نے جب 28 مئی 1998 کو پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے تو سب سے بڑا مسلہ یہ تھا کہ ان کواہداف تک پنچانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔۔ جب حکام اور پاکستانی ایٹمی ماہرین نے اپنے ترکش کوٹٹولا تو ان میں مشہور معروف امریکی ایف-16، چاینیزاے-5 اورفرانسیسی ساختہ میراج ہی ایسے طیارے تھے جن میں تھوڑا بہت ردوبدل کرکے ان کو ایٹمی حملے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ بات خطرے سے خالی نہیں تھی کیوں کہ لڑاکا طیاروں کو انڑسیپٹ کرنا ریڈار اور اینٹی ایر کرافٹ سسٹم سے ان کا پتا لگانا اور گرانا نسبتا آسان تھا۔ دوسرا یہ کے ایٹمی حملہ کرنے والے جہاز کو تقریبا پورے ایر سکوڈران (12 سے زیادہ طیاروں) کے حصار میں اڑنا پڑتا ہے جو ایک بہت ہی مہنگا سوداہے۔۔ دوسری طرف امریکا بہادر هرگز هرگز یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی دی ٹیکنولوجی کو پاکستان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا اور اندرونی طور پر متعلقہ لوگوں کو یہ باورکروا دیا گیا کہ اگر کچھ ایسی کوشیش کی گئی تو مزید پابندیاں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے جو اس وقت پہلے ہی چاغی دھماکوں کی وجہ سے لگ چکیں تھیں۔۔ اس لئے طے یہ پایا کہ پاکستان میزائل ٹیکنالوجی بنائے یا حاصل کرے گا۔۔ جس کے بعد شاھین، غوری اور ابدالی میزائل تیار کیے گئے جو میزائلوں کی ایک قسم (بلیسٹک میزائل) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمسایہ ملک نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اینٹی میزائل سسٹم اور میزائل ڈیفنس شیلڈ تیار کر لیں جس سے ان کی افادیت کچھ کم ہو گئی۔۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ کچھ ایسا سسٹم ڈیزاہن کیا جائے جو دشمن کی اس چال اور کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن (پاکستان پر 24 گھنٹے میں اچانک اور خوفناک حملے پر مشتمل ملڑی منصوبہ جس کے تحت زمینی اور فضائی حملہ کرکے بھارتی فوج پاکستانی فوج کے سنبھلنے، جوہری ہتھیارباہرنکالنے اور عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے رابطے سے پہلے آپریشن کر کے واپسی کی راہ لے تاکہ جب پاکستان ’’ری ایکٹ‘‘ کرے تو دنیا کو بھارت کے بجائے پاکستان جارح نظرآئے) کا مقابلہ کر پائے اس لیے بابر اور حتف کروز میزائل (امریکی ٹوماہاک میزائل کی طرز پر) بل ترتیب 2005 اور 2007 کو بناے گئے۔ جس کے سامنے دشمن کا اینٹی میزائل سسٹم اور کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بھی بیکار ثابت ہوگئے، کیونکہ اگر دشمن نے افواج کو سرحد کے قریب اکھٹا کیا تو یہ پل بھر میں ان کو دھواں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کروز میزائل، میزائل فیملی میں ایک خاص حثیت اور مقام رکھتا ہے۔ پاکستانی کروز میزائل سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اس لیے انکا ریڈار سے پتا لگانا تقریبا ناممکن ہے دوسرا یہ نیچی پرواز کرتے ہوئے اپنا راستہ خودکار طریقے سے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو مار گرانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک تو پاکستان نےدشمن کو میزائل ٹیکنالوجی میں زچ کیے رکھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر مخالف ملک ایٹمی حملے میں پہل کرکے ہماری ایٹمی صلاحیت کوخدانخواستہ نیست ونابود یا محدود کر دے تو پاکستان کے پاس کیا آپشن بچتاہے اس کے لیے دوسرے ترقی یافتہ ایٹمی ممالک (امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ) کی طرح سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے تگ ودو کی گئی اور بلآخرآبدوز سے فائر کیے جانے والے کروز میزائل بابر تھری کا کامیاب تجربہ کرلیا گیا ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق بابر تھری کروز میزائل کا تجربہ بحیرہ ہند سے کیا گیا جس نے خشکی میں اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس کروز میزائل بابر تھری 450 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل زیر سمندر موبائل پلیٹ فارم سے لانچ کیا گیا تھا۔ بابر 3 میزائل کا تجربہ کرکے پاکستان نے سیکنڈ سٹراہک کامیابی حاصل کر لی۔ جو دشمن کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ اب اگر کوئی ملک پا کستان پر حملہ کرکے اس کی زمینی ایٹمی حملے کی صلاحیت کو مفلوج بھئ کردے توہمارے پاس ایک اورآپشن بچتی ہے کہ سمندر سے اگ برسا کر دشمن کی زمین کو بنجر کردیں۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.