احمد اعوان
نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کو اندرونی اوربیرونی دونوں محازوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف تو ان کی انتخابی مہم سے پہلے ہی ہر طرح کے ا عداد وشمار اور تجزیے ان کے خلاف آئے تو دوسری طرف ان کو خواتین کی طرف سے دست درازی کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ خیر جیسے تیسے ٹرمپ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے صدر منتخب ہوگئے، اب اگلے چار سال تک امریکا کی قسمت ان کے ہاتھ میں ہے۔ نا صرف امریکا کی بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کی بھی۔۔ کیوں کے ان کے اٹھائے گئے اقدامات سےعالمی ممالک اور بین الاقوامی سیاست بلاواسطہ اور بالواسطہ متاثر ہوتی رئے گی۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طول عرض میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور تو اور نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر بھی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ جبکہ کانگرس کے آٹھ ارکان نے بھی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ جو نومنتخب صدر کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں۔ بی بی سی کے مطابق امریکی خواتین نے حلف برادری کے اگلے ہی دن ملین مارچ کا اعلان کیا ہے جو متوقع طور پر امریکی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوگا۔ موجودہ امریکی خارجہ پالیسی کو دیکھا جائے تو امریکی اسٹیبلشمنٹ اور کانگرس کی اکثریت پیوٹن اور ماسکو سے تعلقات کے خلاف ہیں کیونکے وہ روس کو امریکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتے ہیں۔ جبکہ نومنتخب صدر کے ماسکو کے ساتھ خوشگوار تعلقات بتائے جاتے ہیں جو ان کے بیانات سے بھی واضح ہیں۔ امریکی جاسوس ادارےاورخفیہ ایجنسیاں کہتے نہیں تھکتیں کہ روس نے امریکی انتخابات میں ہیرا پھیری کی ہے، لیکن ٹرمپ اس کی سخت تردید کرتے آئے ہیں۔ جبکہ ایک وقت تو یہ آیا تھا کہ ایف بی آئی اور سی آئی آے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔ پنٹاگون میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران سی آئی آے چیف کا موقف تھا کہ پیوٹن نے انتخابات کو ہیک کیا جبکہ ایف بی آئی کا پلڑا ٹرمپ کی طرف جھکاہوا تھا۔ اس موقع پر دونوں سربہران نے کھل کر ایک دوسرے پر تنقید بھی کی تھی، جس سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ کی وجہ سے امریکی ادارے بھی ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ امریکی تاریخ میں چوالیس صدر آئے لیکن اتنی زیادہ مخالفت شائد کسی امریکی صد ر کے حصے میں نہیں آئی۔ روس کے معاملے میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، نامزد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے برملا یہ اظہار کیا ہے کہ روس امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ یہ وہ ہی ٹلرسن ہیں جو امریکہ کی قد آور اور امیر ترین شخصیت ہیں، ریکس ٹلرسن تیل فروخت کرنے والی بین الاقوامی کمپنی ایکسن موبل کے سربراہ ہیں جن کا کاروبار 50 سے زائد ملکوں میں پھیلا ہوا ہے( جس میں روس بھی شامل ہے) یاد رئے کہ ٹلرسن نے 2013 میں روس پر اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کی تھی جس کے بعد انہیں روسی صدر ولادیمیرپیوٹن نے خاص طور پر ”آرڈر آف فرینڈشپ“ کے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ ایکسن موبل کے سربراہ کی بطور وزیر خارجہ نامزدگی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ خصوصی تعلقات کی خواہش کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا تھا۔ لیکن ان کے تازہ بیان ” کہ روس امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہے” یہ بات واضح کرتا ہے کہ امریکی کاروبار سے زیادہ اپنے ملک کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹرمپ روس سے دوستی کے متمنی ہیں، جبکہ نامزد وزراء روس سے ناراض نظر آتے ہیں۔ سی آئی اے کے موجودہ سربراہ جان برینن نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو خبر دار کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی زبان قابومیں رکھنی پڑے گئی کیوں کہ اب معاملہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی ذات کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ہے۔ جان برینن کا موقف ہے کے نومنتخب صدر روس کی نیتوں اور اہلیت کے بارے میں زیادہ ادراک نہیں رکھتے اور وہ روس کو ہر معاملے میں بری الزامہ قرار دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ دوسری طرف چین امریکہ اختلافات تو شروع سے ہی موجود تھے۔ لیکن کشدیگی اس وقت اپنے عروج پر پونچه گئی جب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے تائیوان کی صدر سائی اینگ وین سے براہ راست بات کی۔ اس طرح انھوں نے سنہ 1979 میں طے امریکی پالیسی سےانحراف کیا۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ نے تائیوان سے رسمی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ اس واقع کے بعد چائینہ خوب آگ بوگولا ہوگیا۔۔ ہوتا بھی کیوں نا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی چین نے دهمکی دی کہ امریکہ (ٹرمپ) تائیوان کے مسئلہ اور ون چائنہ پالیسی پر غیرزمےداری سے بات کرکے آگ سے نہ کهیلیں۔ جو ایک واضح پیغام ہے کہ چین اپنے قومی سلامتی کے معملات پر سمجوتہ نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کو اس بات کا ادراک کرنا پڑے گا کہ سب سے کٹ کراور اپنی رائے سب پر مسلط کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ اقوام عالم اور کانگرس کے لوگوں کو بھی ساتھ میں لے کر چلنا اب ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ چائنیز بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں تاکہ امریکی اور دنیا عالم کی مارکیٹ پر مزید قبضہ کیا جائے۔ (جو زیادہ تر پہلے ہی ان کے ہاتھ میں ہے) ان سب چیزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی صدر کو تعلقات منقطع کرنے کی بجائے جوڑنا ہوں گے۔ یہ نا صرف ان کے ملک کے لیے فائدہ مند ہو گا بلکہ دیناکے دوسرے ممالک کے لیےبھی یہ بہتر ہوگا۔ اس کے لیے نومنتخب صدر کو اپنی زات سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔۔ کیوں کے فطری طور پر وہ منہ پھٹ اور بولنے کے بعد میں تولنے والےانسان ہیں۔ یعنی اصل مقابلہ ان کا دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ یعنی کے “ٹرمپ بامقابلہ ٹرمپ” ہوگا۔۔