گلگت بلتستان کا اصل ایشو….ایک جائزه

کفایت حسین ایلیا
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور نمایاں هے کہ جی. بی کو روز اول سے ہی محرومیت و پسماندگی کے جهنم میں جهونکے رکها گیا. جونہی وطن عزیز پاکستان دنیا کے نقشے میں نمودار ہوا تو جی.جی کی غیور ترین ،حریت پسند عوام نے غلامی کا طوق بزور بازو اپنے گردنوں سے اتار کر پرے پهینکا اور پهر بغیر کسی شرط کے وطن عزیز پاکستان کے ساتهہ الحاق کیا نہ کوئی شرط رکهی نہ کوئی ضابطہ طے ہوا بس بے لوث اپنے آپکو اور اس حاصل شده آزادی کے پروانے کو پاکستان کے گودی میں ڈال دیا .ہمارے آبا و اجداد کا پاکستان کے ساتهہ اس حد درجہ خلوص اور وفاداری کی شاید دنیا کی کسی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی . بصد افسوس ہمارے آبا و اجداد کی وطن کے ساتهہ یہ وفاداریاں ہمیں راس نہ آئیں .ہمیشہ وفا دار کی وفا داریوں کی قدردانی کی جاتی هے اور عزت افزئی کے شرف سے نوازا جاتا هے لیکن ہمیں وطن عزیز کے ساتهہ وفاداریوں اور بے لوث محبتوں کے عوض ہمیشہ سے محرومیت ،پسماندگی، بے توجہی اور ناقدری کے تحفے ملتے رهے اور اب تک یہ سلسلہ بدستور جاری هے اور آج بهی اس خطے کے ساتهہ سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکها جا رہا هے .گلگت بلتستان میں گزشتہ بیس پچیس سالوں میں عوامی سیاسی شعور میں گوکہ دن دگنا رات جگنا اضافہ ہوتا چلا جا رها هے اور پهر گزشتہ چند سالوں میں سیاسی گہمی گہمی اور دهوم دهڑکوں میں اور اضافہ ہوتا چلا جا رها هے .آج سے تقریبا بیس پچیس سال پہلے یہاں چند ایک سرکرده جماعتیں ہی سیاسی طور پر فعال تهیں لیکن اب تو ماشاءالله سے سیاسی جماعتوں کی اتنی بهر مار ہو گئی هے کہ لوگ دشت بدنداں ہیں کہ آخر وه کس کس کو ووٹ دیں. جی.بی کے عوام کو کسی بهی سیاسی جماعت کے ظاہری چکا چوند اور جلسوں جلوسوں ، دهواں دار تقریروں ،اسٹیج میں اپنے سیاسی مقاصد کے خاطر خطابت جهاڑ کر زلزلہ پیدا کرنے والے سیاسی کهلاڑیوں کے دام فریب میں نہیں آنا چاہیئے اور نہ ہی چهوٹے موٹے اور جزوی مسائل کو سب سے اہم ایشو بنا کر پیش کرنے والے سیاست مداروں کو ہرگز اپنا دل نہ دے بیٹهیں بلکہ یہ دیکهیں کہ ہمیشہ سے لیکر آج تلک گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسئلہ کیا رها هے اور بلا شبہ ہمیشہ سے گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسئلہ ” گلگت بلتستان کا آئینی ،قانونی و سیاسی حیثیت کا عدم تعین ” ہی رها هے . ہمیشہ سے جی. بی کو یہ مسئلہ درپیش رها هے اور ابهی تک درپیش هے اور مشکل یہ هے اس مسئلے کو خالصتا کسی سیاسی جماعت نے اٹهانے کی زحمت نہیں کی گوکہ کچهہ سیاسی جماعتیں اس خطے کی آئینی حیثیت کے مسئلے کو ابهارنے اور اس حوالے سے جد و جہد کرنے کی دعوی دار ہیں لیکن آج تلک خالصتا جی بی کے مسئلے کو پوری سنجیدگی سے پاکستان کی کسی بهی سیاسی جماعت نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی .اب پی.پی پی یقینا یہ بات سن کر جهنجهلا اٹهے گی کہ نہیں ہمارے حق میں یہ بات کہنا زیادتی ہو گی لیکن اس جهنجهلاہٹ آمیز شکوے کا جواب بهی خود عوام کے پاس موجود هے اگر کوئی بهی سیاسی جماعت جی بی کے حق میں مخلص ہوتی تو آج گلگت بلتستان اس سیاسی محرومیتوں کا شکار نہ ہوتا بلکہ ایک آزاد ،خود مختار اور اپنے فیصلے خود کرنے والا صوبہ ہوتا لیکن ہماری حیثیت تو یہ هے کہ ہمارے ہی سینے کو چیر کر اقتصادی راہداری کا ایک عالمی سطح پہ منصوبہ بنایا جا رها هے لیکن اس منصوبے کے حوالے سے ہونے والی اہم ترین نشتوں میں ہمارے ہی وزیر اعلی کو شرکت کی اجازت نہیں .حد ہو گئی یار یہ تو بهلا دنیا میں ایسے بهی ہو سکتا هے ؟؟؟کیا ذلت کی اس اس انتہا کرنے والی سیاسی جماعتوں کو محص کالج ،پل ، سڑکیں ، چهوٹی موٹی ڈسپنسری ،پولو گرونڈ ،چند ملازمتوں کی فراہمی کیا یہ گلگت بلتستان کے اصل ایشوز ہیں ؟ ہرگز نہیں ،ہرگز نہیں ہرگز نہیں ،بس جی بی کے عوام کو یہ نکتہ اپنے پلو میں کس کر باندهنے اور دل میں بٹهانے کی ضرورت هے .
ظاہرا میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان کی موجوده کسی بهی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں “گلگت بلتستان کے غصب شده آئینی و سیاسی حقوق کی باز یابی ” شامل نہیں اگر بالفرض اگر کوئی جماعت شامل ہونے کی دعوی دار بهی هے تو یہ ایشو اسکی اولین ترین ترجیح “First and formost priority ” ہرگز نہیں . کیونکہ اگر کسی سیاسی جماعت کی اولین ترجیح میں یہ شامل ہوتا تو اس کی سیاسی جد و جہد ہمارے سامنے ہوتی ،پارلیمنٹ کو اس مسئلے کو اٹهایا جاتا ،اس مسئلے حل کے واسطے میڈیا وار لڑتے ،اقوام متحده تک جا کر اس خطے کی آئینی حیثیت واضح کرتے اس مسئلے کو حل کرنے کی تگ و دو کرتے لیکن ایسا کچهہ نہیں
اس تناظر میں ضرورت اس بات کی هے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جی بی کے اس بنیادی آئینی و سیاسی ایشو کو اپنا اولین ترجیح قرار دیکر اس حوالے سنجیدگی سے جد و جہد کریں بصورت دیگر جزوی مسائل کو ایشو بنا کر عوام کو بیوقوف بنا کر ان سے ووٹ حاصل کرنے سے دو دنوں کا ، دو ٹکے کا خالی خولا اور بے وقعت سا اقتدار تو حاصل کیا جا سکتا هے اور اقتدار بهی ایسا کہ وزیر اعلی ہوتے ہوئے بهی گهر کے فیصلے دوسرے کرتے پهریں مقتدر ہوتے ہوئے بهی ہمارے ابهی کی طرح مرکز میں ایک پٹهٹو اور کٹهہ پتلی سے زیاده کچهہ حیثیت نہ ہو گی .
لهذا پائینده و تابنده ، درخشاں اور حقیقی مستقبل اپنی آئینی و سیاسی حقوق کو حاصل کرنے خود مختار بن کر اپنے گهر کی تقدیر کے فیصلے اپنے هاتهہ میں لینے میں ہی مضمر هے
میرے خیال میں گلگت بلتستان میں حالیہ طور پر سر گرم مذہبی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریاں سیاسی جماعتوں سے بهی کہیں بڑهہ کر هے کیونکہ ان جماعتوں کی سربراہی اور زمام علمائے کرام کے هاتوں میں اور علمائے کرام عام سیاسی جماعتوں سے زیاده اپنے فرائض سے بخوبی آگاه ہوتے ہیں .بنا بریں مذہبی جماعتوں کو جی.بی کے آئینی و سیاسی حیثیت کو بحال کرنے اور سیاسی حقوق دلانے کی راه میں سیاسی و عوامی جد و جہد کریں اور اس حوالے سے کسی بهی حد تک جانا پڑے جائیں .اس کام کیلیئے پہلے ان مذہبی سیاسی جماعتوں کو بهی “جی بی کے آئینی ،قانونی اور سیاسی حقوق کی بازیابی کو اپنا اپنی اولین ترجیح میں شامل کریں اور اس وقت تک چین سے مت ببیٹهں جب تک جی بی کو کے غصب شده حقوق واپس نہیں ہوتے . بنا بریں اب ہر عام و خاص کو یہ بات اچهی طرح پلو میں باندهہ لینا چاہیئے کہ جی.بی کا اصل ایشو ” اسکی آئینی و سیاسی حیثیت کے بعد اس حیثیت کو حاصل کرنے کے واسطے عوامی و سیاسی منظم جد و جہد کی ضرورت هے اس جد جہد میں وهاں کی عوام وهاں کے مقامی مذہبی و سیاسی قائدین اور دوسری تمام سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم هے .اس جد وجہد کا آغاز جی بی کے مقامی لوگوں مقامی قائدین سے ہونا چاہیئے اور دوسری سیاسی جماعتیں انکی مدد گار ثابت ہونگی .اور واضح رهے اس نہج پہ جب تک آئینی و سیاسی حقوق G.B constitutional and political rights کے حصول کے لیئے جد و جہد نہیں ہو گی یہ خوب پهر ہمیشہ ایک گونگے کا خواب بن کر ره جائے گا اور اب ان موجوده سالوں میں اس کام کیلیئے سیاسی ماحول بهی ساز گار هے .اگر مزید تاخیر ہوتا گیا تو پهر ہم اقبال کے اس شعر کا حقیقی مصداق بن کر ره جائینگے.

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.