تحریر زاکر حسین کاظم.
ضلح گانگچھے گلگت بلتستان کے جحرافیائی,ثقافتی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے تاریحی ,حساس اور قدیم روایات کے حامل ایک پرامن اور خوبصورت ضلح ہیں دفاعی اور جحرافیائی اعتبار سے سیاچن گلیشیر جیسے دنیا کی سب سے بڑی گیشیر اور سیاچن جیسے دنیا کی سب سے بڑی محاز کی اس ضلح میں موجودگی اور سیاچن جسے گانگچھے کے سینے چیھرتے ہوئے گذرنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی چھوربٹ جس کے سرحدیں بھارت سے ملتی ہے وہ بھی دفاعی لحاظ سے ایک خطرناک جنگی محاذ ہے وہ بھی اس ضلح کا حصہ ہے اس وجہ سے اس کی اہمیت اور احساسیات دوسرے ضلحوں سے منفرد اور نمایاں ہوجاتی ہیں دوسری طرف یہاں کے مکین بھی حب الوطنی میں ملک کی کسی بھی دوسرے علاقہ کے باسیوں سے پیچھے نہیں ہیں یہاں کے مکین وطن سے محبت اور اس کی دفاع کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں تاریح گواہ ہیں کی ان محاذوں پر جب بھی افواج پاکستان کو ضرورت پڑی یہاں کے باشندوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ہمیشہ افواج پاکستان کا ساتھ دیا اور وطن سے وفاداری کا ثبوت دیا پاکستان اور اس کے ہماسیہ ملک بھارت کے درمیان جب بھی کوئی محرکہ ہوا یہاں باسی فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار نظر آئے کارگل کا محرکہ ہو یا 71 کی خوفناک جنگ یا 65 کی تاریح ساز جنگ تاریح ہمیں چیخ چیخ کے بتاتا ہے کی ان جنگوؤں میں یہاں کے لوگوں کا کردار ناقابل فراموش ہیں محرکہ کارگل اور 65 کی جنگ میں مقامی لوگوں کے تحاون کے بخیر بھارت کو عبرتناک شکست دینا شاید ممکن نہیں تھا اور 71 کی جنگ میں جب پاکستان کے ہاتھ سے چھوربٹ کے تین خوبصورت گاؤں کھو بیٹھ تو وطن اور اسلام کے محبت سرشار ان تین قصبوں کے باسیوں نے اپنے آبائی علاقوں کو خیر آباد کہہ کر پاکستان کے ساتھ جینے اور مرنے کا قسم کھاتے ہوئے بلتستان کے مختلف علاقوں کی طرف رخ کیا مگر آج تک ان کی کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جتنے بھی حکومتیں آئی ہیں ان کو یہ بے آسرا مہاجرین ہرگز نظر نہیں آتے ہیں آخر کیوں ? ہماری حکومتیں وطن مخالف تنظیموں سے پاکستان مخالف نحرے لگانے والے لوگوں سے تو مذاکرات کرتے ہے ملک کے خلاف بندوق اٹھنے والوں سے دفتر کھولنے کی پیشکش کرتے ہیں مگر وطن کی محبت میں اپنا گھر بار چھوڑنے والوں کے دادراسی کیوں نہیں کرتے ہیں ? یہی سوالات جب پچھلے دنوں میری ملاقات ایک 71 کی جنگ میں ہجرت (جاری ہیں