گلگت بلتستان سیاحوں کی جنت

علی یونس علی

گلگت بلتستان سیاحوں کی جنت بن گیا ملک بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں سیاحوں نے عیدالفطر گلگت بلتستان کے خوبصورت اور سیاحتی مقامات پر منایا, اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سیاحوں کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی مخصوص ثقافت , دلفریب وادیوں کے مناظر , جھیلوں , خوشبو بکھیرتی پھولوں کے ساتھ دنیا کا واحد ترین خطہ ہے اور یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی آنے والوں پر اپنا سحر طاری کر دیتی ہے , گلگت بلتستان کے مختلف مقامات پر آئے ہوئے سیاح یہاں کی آب و ہوا اور پر امن حالات سے بھی بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں, اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ , گلگت بلتستان کی آب و ہوا میں دو چار دن رہ کر روح کی تازگی کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی راحت بھی محسوس ہوتی ہے , اور امن و امان اور بھائی چارگی کی فضاء کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں بسنے والے سارے لوگ ایک ہی گھر کے افراد ہیں اور مختلف فرقوں میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جسم کے اعضاء کی طرح جڑے ہوئے ہیں, ملک بھر سے آئے ہوئے سیاحوں نے گلگت بلتستان کی پولیس روئے اور کارکردگی کو بھی خوب سراہا, اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی پولیس پورے ملک کی پولیس کیلئے ایک مثال ہے گلگت بلتستان پولیس کے روئے نے ہمیں بہت متاثر کیا ہے اگر پورے ملک کی پولیس یہاں کی پولیس جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرے تو نہ صرف ملک جرائم سے پاک ہوگا بلکہ پولیس پر عوام کا اعتماد بحال گا, گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کی اکثریت فیملیز کی ہے جن کے ہمراہ بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں, لیکن یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے سیاحوں کو ناکافی سہولیات اور محکمہ سیاحت کی جانب سے ہوٹلوں کی عدم تعمیر اور فری ٹینٹ سروس کی صرف زبانی جمع خرچ کے باعث سیاح مشکلات سے بھی دوچار ہیں , گلگت بلتستان میں سیاحتی موسم شروع ہونے سے قبل گلگت بلتستان کی حکومت اور سیاحت کی وزارت نے اعلان کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے تمام سیاحتی مقامات پر آنے والے سیاحوں کیلئے کم قیمت اور فری ٹینٹ سروس دی جائے گی, لیکن رواں برس بھی حکومتی دعوے بخارات بن کر ہوا میں اڑ گئے , جس کے باعث یہاں آنے والے سیاحوں کو رہائش کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے, گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث اور گرم علاقوں کے افراد جو سیاحت کی غرض سے یہاں آتے ہیں موسم کی یکدم تبدیلی بھی ان کو جسمانی طور پر متاثر کرتی ہے اور اچانک بیماری کی صورت میں حکومت کی جانب ہنگامی بنیادوں پورے صوبے بالخصوص سیاحتی مقامات پر فرسٹ ایڈ ڈسپنسریوں کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی کے لئے ایمبولینس سروس کی موجودگی بھی ناگزیر حد ضروری ہوگئ ہے , تاکہ گلگت بلتستان کے وادیوں اور شہر کے دور دراز علاقے میں رہائش پذیر سیاحوں کو کسی بھی ممکنہ بیماری اور حادثے کی صورت میں بروقت طبی امداد پہنچائی جا سکے , اس کے علاوہ سیاحوں کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے کمیونٹی لیول پر رضا کار افراد کی مدد سے سیاحوں کو معلومات فراہم کرنے کیلئے اقدامات بہت ضروری ہے , اسکے علاوہ اگر ہم گلگت بلتستان کے خوبصورت مناظر اور محل وقوع کی بات کریں تو یہ بات بجا طور پر درست اور حقیقت ہے کہ یہاں پر موجود آسمان سے باتیں کرتے پہاڑی سلسلے, بہتے صاف ندیاں, برفیلے پہاڑ اور صاف ستھری ہوا انسانی وجود پر سحر انگیزی طاری کر دیتی ہے, کہا جاتا ہے کہ علاقے دیو مالائی طاقتوں کا مسکن بھی رہے ہیں, اور جنات اور پریوں کا دیس بھی کہا جاتا ہے , یہی وجہ شاید یہاں بسنے والوں کی فطرت میں جسمانی اور ذہنی خوبصورتی کی وجہ بنی ہوئی ہے , یہاں کے علاقے اپنی اپنی مخصوص پہاڑی سلسلوں کے باعث آنے والوں کیلئے منفرد تفریح فراہم کرنے کا باعث ہیں, اس کے علاوہ مخصوص موسم آب و ہوا پہاڑوں سے گرتے آبشاروں میں بسنے والے لوگ بلند حوصلے اور پہاڑوں کی نسبت سخت جان طبیعت کے مالک ہیں, گلگت بلتستان کی تاریخ لکھنے والوں کے علاوہ یہاں کے باسی ان علاقوں کو کوہ قاف کا نام بھی دیتے ہیں, راکا پوشی, ننگا پربت, اور k2 کی سفید چوٹیاں یہاں پریوں کی موجودگی کی تصدیق کرتی نظر آتی ہیں , اور مقامی کاہن اپنی مخصوص وجد کے دوران بھی ان پریوں سے مقامی زبان میں سر میں آج بھی پریوں سے باتیں کرتے ہیں اور آنے والے وقتوں کیلئے پریوں سے پیشگوئی لینے کا رواج اکیسویں صدی میں بھی یہاں موجود ہے , اس لئے ظاہری طور کہا جا سکتا ہے کہ قدیم وقتوں سے سینہ بسینہ سنتے آئے کہانیاں اور موجودہ دور میں بھی کاہنوں کی پریوں سے مقامی زبان اور سر بھری آواز میں پریوں سے بات کرنا, یہاں پر ان کے وجود کے ہونے کو ثابت کرتی ہیں , اس کے علاوہ یہاں کے بسنے والوں کی غذا بھی ملک کے دیگر شہروں سے یکسر مختلف ہے , سادہ مگر طاقت سے بھری غذائیں , جن میں اکثر غذا دیسی گھی مکھن, دیسی دہی, دیسی لسی, اور مختلف دیسی سلاد کے مرکبات سے تیار کی جاتی تھیں اور آج بھی مختلف تہواروں اور مخصوص ایام میں بنائی جاتی ہیں جو کہ جسم کو بھرپور طاقت اور روح کو تازگی اور فرحت کا سامان بخشتی ہیں , اسکے علاوہ سردیوں میں خشک گوشت کی مختلف انواع و اقسام کے دسترخوان بھی گلگت بلتستان کے ثقافتی اور قدیم کھانے شامل خاص ہیں , اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی ثقافتی موسیقی نئے سننے والے پر اپنا بھرپور جادو جگاتی ہے

گلگت بلتستان کی موسیقی اور روائیتی  دھن بھی  ملک کے   دیگر علاقوں کی موسیقی اور دھنوں سے بالکل مختلف ہے روایتی ناچ سے لیکر مقامی زبان میں غزل, گانے اور شاعری کے اندر علاقائی تہذیب اور روایات کے علاوہ اخلاقی پہلو نمایاں طور نظر آتا ہے  , گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں کم وبیش چھ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان تمام زبانوں میں شعر و شاعری کے علاوہ غزل گائیکی کا رواج پرانے وقتوں سے موجود ہے  , قابل غور بات یہ ہے کہ بیس لاکھ کی آبادی میں انگریزی اور اردو کے علاوہ مقامی زبانیں چھ ہیں اور ایک زبان کا دوسری زبان سے ایک لفظ کی مماثلت نہیں پائی جاتی ہے  , اور موسیقی کی دھن پر ناچ میں سو فیصد یکسانیت ہے,  اگر بلتستان کی بلتی بولنے والے گلگت شہر یا ہنزہ نگر کا بروشسکی بولنے والا روایتی دھن پر ناچیں گے تو ملک کے دوسرے صوبے یا علاقے سے آیا ہو مہمان بالکل بھی محسوس نہیں کر پائے گا کہ یہاں ناچنے والوں کی زبان مختلف ہے  , اسی طرح شنا زبان جو گلگت بلتستان کی سب سے بڑی زبان ہے اس کی شاعری, غزل اور گائیکی کی کی دھن بلتستان یا سست گوجال غزر ہنزہ نگر کے باسیوں کے لیے پرائی نہیں بلکہ دھن اور غزل یا گانے کو وہ اسی طرح ہی محسوس کرتے ہیں جیسے شنا بولنے والے, بلکہ کارگل اور لداخ کے علاوہ چائنا میں تاشقرغند اور تاجکستان میں گلگت بلتستان کی ثقافتی موسیقی بولی سمجھی اور سنی جاتی ہے  ,
اسی طرح گلگت بلتستان کے تمام اضلاع بشمول کرگل لداخ میں چھ مختلف زبانیں والی قوم جسے بلتی اور بروشو کہا جاتا ہے زبانیں مختلف لیکن  , تہذیب, ثقافت اور طرز زندگی کے تمام معاملات میں یکسوئی اورفطرت میں  سو فیصد مماثلت سے اس خطے میں صدیوں سے  زندگی گزار رہے ہیں,  اور زندگی بھی ایسی کہ مختلف زبانوں اور فرقوں میں ہونے کے باوجود اپنی شناخت پر بحیثیت قوم کبھی آنچ نہ آنے دیا
دوستو ہم نے یہاں بات کرنی ہے گلگت بلتستان  میں پچھلے تین سالوں سے  ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی کثرت سے  آمد کے حوالے سے تو  , ملکی سطح پر پنجاب, سندھ اور اسلام آباد سے سے جو ملکی سیاحوں کی  آمد میں بابوسر روڈ کی تعمیر نے اہم کردار ادا کیا ہے , اور جسے ہمارے استاد محترم منظر شگری صاحب  شاہراہ سیاحت کا لقب دے چکاہے  , اس شاہراہ کی تعمیر نے ملک بھر کے سیاحوں اور گرمی کے ستائے ہوئے افراد کو گلگت بلتستان آنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ,اس میں اہم بات یہ ہے کہ  اس اہم سیاحتی شاہراہ کی تعمیر سے قبل مانسہرہ سے چلاس تک کا سفر جو بشام پٹن اور کوہستان کے علاقوں سے ہوتا ہوا قراقرم ہائی وے پر دس گنٹھے کا تھا , کم ہوکر صرف پانچ گھنٹے کا رہ گیا  , جس کے بعد ملکی سطح پر سیاحوں کا رخ گلگت بلتستان کی جانب ہوا  ,
دوسری طرف سی پیک روڈ کی خنجراب سے رائیکوٹ تک تعمیر نے بھی گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ,  سی پیک روڈ کی تعمیر کے بعد گلگت سے خنجراب کا فاصلہ آٹھ گھنٹے سے کم ہو کر آدھا ہوگیا جس باعث اسلام آباد سے آیا ہوا ایک شخص اپنی گاڑی لیکر آرام سے  تین دن میں خنجراب تک کی وادیوں کی  سیر وتفریح کے بعد  واپس اپنے گھر اسلام آباد پہنچ سکتا ہے  ,
اس کے علاوہ تیسری اور اہم وجہ گلگت بلتستان میں قائم امن ہے جو سیاحت کےلیے اہم ترین جزو ہے  , اس حوالے سے سب سے پہلے گلگت بلتستان کی عوام خود مبارکباد کی مستحق ہے جنھوں نے علاقائی سطح پر کمیٹیاں بنا کر  سکیورٹی اداروں کے ساتھ بھرپور  تعاون کیا , جس کے بعد  پچھلے کئی سالوں سے گلگت بلتستان میں  امن کی بے مثال فضاء قائم  ہے,
گلگت بلتستان میں امسال جولائی سے اکتوبر تک  دس لاکھ سے زائد سیاحوں کی آمد متوقع ہے…………… جاری ہے

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.