ضلع غذرکی تحصیل گوپس کے اختتام پرشمال کی جانب چینی تعمیراتی کمپنی کا بنایا ہواایک خوبصورت پل یاسین کی جانب جانے والے مہمانوں کا استقبال کرتا ہوا نظرآئیگا۔ یاسین اسلامی نقطہ نگاہ میں ایک اہم سورہ ہونے پر قرآن پاک کا دل کہلاتا ہے۔ لیکن یہ وہ یاسین نہیں۔ یہ یاسین اپنی باسیوں کے دلوں کی دھڑکن اور سیاحوں کے لئے حسن کی دیوی ہے۔
یہ وہ سرزمین ہے جس کے باسیوں کی بہادری اور شجاعت مندی کے کارناموں پرپوری دنیا رشک کرتی ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس نے شہید لالک جان جیسے عظیم ثپوت جنم لئے۔ جو معرکہ کارگل میں مملکت پاکستان کے ازلی دشمن کوعبرت ناک سبق دیکرعرض شمال کی تاریخ میں اولین نشان حیدرکا مستحق ٹھہرکرقومی سرخروئی کا سبب بنے۔ یہ وہ یاسین ہے جس کے ایک اور عظیم ثپوت غازی گوہرآمان نے انیسویں صدی میں اپنا قافلہ لیکر دھرتی پر حملہ آورہونے والے ڈوگرہ فوج کی صفوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا۔جس کی داستان تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پرقدم قدم پر شہدا کے مزاربھی علاقے کے لوگوں کی بہادری اور قومی غیرت کی ایک زندہ مثال ہے۔
گوپس پل سے آگے نکلنے پرگوکہ یہ علاقہ ایک تنگ نما نالہ نظرآئیگا ۔لیکن آگے جاکرہرطرف وسیع وعریض میدان،ہرے بھرے کھیت، گھنگناتی ندیاں، تاریخی قلعے اور سرسبزوشاداب وادیاں ایسا ہی دیکھائیں دیں گے، جسے دیکھ کرکسی اجنبی کویوں محسوس ہوگا گویا وہ کسی دنیاوی جنت میں داخل ہوگیا ہو۔ تاہم یہ علاقہ کسی لحاظ سے اگرسیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے تواس کی وجہ یہاں کی جانب جانے والی خستہ حال سڑکیں ، تفریحی مقامات کی عدم تشہیراورسیاحوں کے قیام وطعام کے لئے مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔جس کی ذمہ داری بلواسطہ یا بلاواسطہ طورپرحکومت ہی پر عائدہوتی ہے۔
انتظامی اعتبارسے یاسین ضلع غذرکی ایک تحصیل ہے، جس کی آبادی اندازہً چالیس ہزارکے قریب ہے۔ آبادی میں اضافہ اور لوگوں کودرپیش مشکلات کے پیش نظرگلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق حکومت کے دورمیں علاقے سے منتخب رکن قانون سازاسمبلی محمدایوب شاہ کی قراردادپریاسین کو سب ڈویژن کا درجہ دینے کی منظوری دیدی تھی۔ لیکن بعدازاں اقتدارمیں آنے والی پاکستان مسلم لیگ نوازکی صوبائی حکومت کی جانب سے اس پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔
یاسین سب ڈویژن پرعملدرآمدمیں صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کو یہاں کے عوامی حلقے گزشتہ انتخابات میں اسی حلقے سے حکمران جماعت کے امیدوارکی شکست کا انتقام قراردیتے ہیں ۔ جبکہ اس معاملے میں حکومتی خاموشی سے لگ یہ رہاہے کہ دال میں کچھ کالا ضرورہے۔
یہ وادی اندرونی طورپرچار یونین کونسلات میں منقسم ہے ۔ یونین کونسل یاسین میں سلی ہرنگ، دملگن،گندئے،نوح، مشر، مورکہ، بجایوٹ، اٹکش،نازبراور یاسین پراپر کے گاؤں شامل ہیں۔ یونین کونسل طاؤس میں سلطان آباد، سندھی، دالسندھی،قرقلتی، غوجلتی اور پراپرطاؤس کے علاقے شامل ہیں۔ یونین کونسل سلگان برکلتی،شغیتن،ہندور، براکوت،اوملست اور درکوت پرمشتمل ہے۔ جبکہ یونین کونسل تھوئی میں
درچ،ہرپ،چھیریٹے،تھلتی، نلتی،اشقم داس،داپس وغیرہ کے گاؤں شامل ہیں۔
یہاں پرشرح خواندگی قابل اطمینان اور لوگ علم وحکمت کے شعورسے بھرپورہیں۔لیکن حکومتی عدم توجہی کے سبب علاقے کے عوام تمام تربنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ طبی سہولیات کے حوالے سے پوری وادی کے لئے طاؤس میں ایک دس بستروں کا ہسپتال اور گاؤں سطح پرڈسپنسریاں تو موجودہیں لیکن ان کے اندرادویات نام کی کوئی شے ہے نہ ہی کوئی طبی ماہرین۔
تعلیم کے حوالے سے اگرچہ گاؤں سطح پرپرائمری، مڈل اور ہائی سکولز قائم ہیں مگرمیٹرک سے آگے کی تعلیم کے لئے کوئی خاص سہولیات دستیاب نہیں۔طاؤس ہائی سکول سے ملحقہ ایک برائے نام کالج توموجودہے لیکن اس کے اندر جدید تعلیمی سہولیات کانام ونشان تک نہیں۔
اس علاقے کے متعددگاؤں کے عوام کو آج تک صاف پانی، رابطہ سڑکیں اور دیگربنیادی ضروریات کی سہولیات بھی میسرنہیں ۔ جہاں یہ سہولیات دستیاب ہیں ان کی حالت بھی قابل رحم ہے۔اس صورتحال کااندازہ گوپس پل سے یاسین کی طرف جانے والی مرکزی سڑک کی خستہ حالی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
1999میں معرکہ کارگل کے ہیروحوالدار لالک جان شہیدکونشان حیدرکا اعزازدینے کی تقریب میں علاقے کے عوام کے مطالبے پراس وقت اور اب کے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے یاسین میں لالک جان شہید کے نام پر کیڈٹ کالج،تیس بستروں کا ہسپتال اور لالک جان شہیدکے نام پرغذرروڈکو جدید طرزپر تعمیرکرنے سمیت متعدداعلانات کئے تھے ، جوآج تک محض سیاسی اعلانات کی حدتک ہی رہ گئے۔ تاہم لالک جان شہیدکی اس عظیم قربانی کے اعتراف میں افواج پاکستان نے اس علاقے کے عوام کا خاص خیال رکھا ۔ فوج ہرمشکل گھڑی میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ چاہے وہ قدرتی آفات کے متاثرین کی امدادکی شکل میں ہویا موذی امراض کے تدارک کی خاطر فری میڈیکل کیمپس کے انعقادکی صورت میں۔ فوجی فاونڈیشن ڈسپنسری کا قیام ہو یا لالک جان شہید نشان حیدرکے نام پر آرمی پبلک سکول کی تعمیرہو ۔
پاکستان آرمی کے ساتھ ساتھ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کا اس علاقے کی ترقی میں نمایاں کرداررہا ہے۔ جس کے ادارے تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے میدان میں عوام کی بھرپورمعاونت کررہے ہیں۔ یاسین میں اطمینان بخش شرح خواندگی اورزچگی کے دوران خواتین اور بچوں کے شرح اموات میں خاطرخواہ کمی اور تھوڑی بہت سماجی ترقی آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے اداروں کی ہی مرہون منت ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ ڈر یہ لگ یہ رہا ہے کہ یاسین کے انگنت مسائل کہیں اصل موضوع سے میری توجہ نہ ہٹادیں۔ موضوع یہ تھاکہ گزشتہ دنوں یاسین کے نالہ قرقلتی کی چنددل کش تصاویرفیس بک پر اپ لوڈکرنے پرکچھ دوستوں نے مقام الذکرکی سیرکرنے کی خواہش ظاہرکی۔ انہوں نے یہ اصرارکیا کہ میں ان کی اس سیاحتی خواب کو سچائی سے تعبیرکرنے میں معاون بن جاؤں۔
میں نے ان کی گزارش کو بخوشی قبول کیا اورعہدکیا تھا کہ ایک تحریر کی صورت میں اپنی بساط کے مطابق ہرممکن رہنمائی کرسکوں۔ ساتھ ہی یہ پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ یاسین کا ہرنالہ قدرتی حسن کے اعتبارسے دنیا میں بہشتِ بریں تو میں کون کون سے نالوں پرخامہ فرسائی کروں۔ بہرحال آج کی تحریرمیں اسی مقام کا ہی ذکرکرنا مناسب سمجھوں گا جس کی منظرکشی میرے دوستوں کے دلوں میں اترآئی۔
تو جناب وہ تصاویراس جگہ کی تھیں جسے جوعلاقائی طورپرمکولی کہلاتا ہے۔ مکولی گاؤں قرقلتی، سندھی،برکلتی اور سلطان آباد کے عوام کامشترکہ چراگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی وغیرملکی سیاحوں کے لئے ایک بہترین تفریح گاہ بھی ہے ۔مکولی جانے کے لئے آپ کو گاؤں سندھی کے آخری حصے میں واقع جڑویں ندیوں میں سے بائیں کی جانب قرقلتی نالے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہاں سے آپ جیب یا کارمیں ادھا گھنٹے کے سفرکے بعدقرقلتی گاؤں پہنچ جائیں گے جوکہ یاسین کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمارہوتا ہے۔
سنٹرقرقلتی کی دیہی آبادی کے اختتام پرآپ تشی نامی جگے میں داخل ہونگے۔ یہاں تک بھی آپ باآسانی گاڑی میں سفرکرسکتے ہیں۔ تشی سے آگے آپ کو پیدل رخت سفرباندھنا پڑے گا جوکہ ہرکوئی باآسانی طے کرسکتا ہے۔ یہاں سے پیدل دو تین گھنٹے کی مسافت کے بعد آپ اسی مقام پر ہونگے جس کی تصویروں نے آپ کو اپنی جانب متوجہ کروادیا تھا۔یعنی میری مراد مکولی ہے۔
مکولی میں آپ کو ہرطرف ہریالی، سبزہ، گاس پھوس، رنگ برنگ کے پھول، قسم قسم کی جڑی بوٹیاں، برف کی چادرسے ڈھکے پہاڑ،خوبصورت چشمے، ندیاں، جھرنے، جنگلی حیات اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔ لیکن یاد رکھنا مکولی جانے کے لئے آپ کواپنے لئے قیام وطعام کا بندوبست خودکرنا ہوگا ۔البتہ وہاں پراگرکوئی مال مویشی لیکر آبادہوں تووہ آپ کے لئے ایک کپ چائے، دودھ، لسی اور مکھن بخوشی پیش کریں گے ،جو اس علاقے کے لوگوں کی مہمان نوازی کا خاصا ہے۔
مکولی میں انجوائی کرنے کے بعدواپسی کے لئے دو راستوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اگرآپ ٹریکنگ کے شوقین ہیں تو مکولی کے شمالی راستے سے اسمبرنالہ کے مشہورمقام بڑے جھیل پرپہنچ سکتے ہیں جہاں کی رعنائیاں مکولی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہاں سے دو دن پیدل سفرکے بعد اسمبرنالہ کے راستے واپس سندھی پہنچا جاسکتا ہے۔جنوبی راستے سے آپ درمندرنالہ سے ہوتے ہوئے سمال گاؤں میں باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔
نہیں اگرمکولی میں آپ کو تھکاوٹ محسوس ہویاواپس آنے میں جلدی ہوتوآپ اسی راستے کا ہی انتخاب کریں گے جہاں سے گزرتے ہوئے آپ مکولی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن واپسی پرحکومت وقت سے یہ سوال پوچھنا مت بھولیں کہ اس طرح کی حسین وادیاں آخرسیاحوں کی نظروں سے اوجھل کیوں ہیں؟