گلگت(چیف رپورٹر) سکردو پریس کلب کے صدر قاسم بٹ نے گلگت پریس کلب میں عالمخ یوم صحافت کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ صحافیوں کا ہوتا ہے اور پورا معاشرہ صحافیوں سے امیدیں صحافی سے لگا بیٹھا ہے حکومت ادارے اور عوام ایک غریب صحافی سے اتنے توقعات کیسے رکھتے ہیں.ہمیں معاشرتی برائیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں لیس کیا جائے تاکہ ہم حقائق کو عوام کے سامنے لائے جا سکے.اج ہمیں ہمارے فرائض تو یاد دلائے گئے مگر ہمارے حقوق کی بات نہیں کی گئی ہمیں کہا جاتا ہے کہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ترقیاتی کام عوامی ایشوز سمیت سب کچھ صحافی نے کرنا ہے تو پھر الیکشن کروانے کی کیا ضرورت ہے یہ وہ تلخ حقائق ہے جو اج کا صحافیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.گزشتہ سال وزیر اعلی نے سکردو میں صحافیوں کے لئے کچھ اعلانات کئے مگر ایک سال گزر گیا لیکن تا حال ان پر عمل درامد ابھی تک نہیں ہوسکا ان ایشوز پر احتجاج بھی کیا مگر کچھ نہیں ہوا انھوں نے کہا کہ حکومت نے گلگت بلتستان میں بہت ترقیاتی کام کروایے لیکن میڈیا کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا میڈیا جیسے اہم شعبے کو یکسر نظر انداز کرنا زیادتی ہے جب سیکریٹری انفارمیشن سے رابطہ کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ پائپ لائن میں ہیں مگر یہ منصوبے پائپ لائن سے باہر کوئی منصوبہ نہیں اتا ہے.حکومت نہ میڈیا کالونی بنا سکی اور نہ ہی ویج بورڈ ایوارڈ نافذ نہیں ہوسکا پریس فاونڈیشن کا کام 2 سال سے جاری ہے مگر ابھی تک پریس فاونڈیشن کا قیام عمل میں نہیں اسکا.صحافی کس طرح سے تحقیقیاتی صحافت کرے گلگت بلتستان میں معلومات کی رسائی ناممکن بنادیا گیا ہے.اج ایک صحافی کی تنخواہ ایک ڈیلی ویجز مزدور سے کم ہے جب تک اس مظلوم طبقے کے مسائل حل نہیں ہونگے معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا لہذا اب بھی وقت ہے وزیر اعلی اور محکمہ اطلاعات ان مسائل کو حل کرے ورنہ پھر اھتجاج کے علاوہ اب کوئی اور چارہ نہیں بچا ہے.گلگت بلتستان کے سات اضلاع میں پریس کلبوں کی عمارت ہی موجود نہیں جبکہ غذر اور سکردو پریس کلب کی حالت ہی خراب ہے اگر سیکریٹری انفارمیشن کی جیبیں کھنگالی جائے تو اشتہارات کی کمیشن کی مد میں جمع ہونے والی رقم سے تمام اضلاع کے پریس کلبوں کی تعمیر و مرمت کی جا سکتی ہے.انھوں نے کہا کہ حکومگ ایک طرف تو صحافیوں سے معیاری صحافت کے فروغ اور زرد صحافت کے خاتمے کی توقعات رکھتی ہے تو دوسری جانب اپنی پالیسیوں سے صحافت کا گلہ گھوٹنے کے درپے ہے اور اشتہارات کے پالیسی کے زریعے حکومتی قصائد پر مبنی خبروں کی اشاعت کے لئے اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے.انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں زرد صحافت کا زمہ دار انفارمیشن دیپارٹمنٹ گلگت بلتستان ہے جو محض اپنے کمیشن کے خاطر علاقے میں زرد صحافت کی حوصلہ افزائی کررہا ہے اور اشتہارات ایسے اخبارات کو دیئے جارہے ہیں جن کا گلگت بلتستان میں نہ تو کوئی رپورٹر موجود ہے اور نہ ہی اخبار کا اپنا کوئی وجود ہے.محکمہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اپنے کمیشن کے لئے ملک کے دیگر حصوں کے گمنام اخبارات کو لاکھوں روپے کے اشتہارات جاری کررہے ہیں.اور گلگت بلتستان کے علاقائی اخبارات اس پالیسی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں جس کے باعث علاقائی اخبارات سے وابسطہ صحافیوں کا معاشی استحصال ہورہا ہے.