ماہرین سماجیات کا ماننا ہے کہ ماضی ایک آسیب کی طرح انسانی زندگی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے، لہذا حال کو سمجھنے کے لیے ماضی کا مطالعہ ضروری ہے، کیونکہ انسانی زندگی سوچ و فکر کی مرہون منت ہے۔ اس لئے انسان ماضی سے سبق حاصل کرکے اپنے مستقبل کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اج جدید سائنسی ترقی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اپنے ماضی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر معاشرے میں موجود عجیب وغریب قسم کے توہمات کے مضمرات کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ اس طرح کے توہمات خصوصاً سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے ہوئے ہیں۔
چونکہ انسانی خیالات ہمیشہ سے تاریخی عمل کے تابع ہوتے ہیں اس لئے توہمات بھی ہماری ماضی کا حصہ ہیں اور نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ جو معاشرے میں نہ صرف غیر صحت مندانہ نظریات اور جعلی سائنس کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ سماجی تبدیلی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
اس لیے معاشرت انسانی میں توہمات کے اثرات جانچنے کے لئے اگرسائنسی بنیادوں پر ان کا جایزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی ابتدا اور جڑیں تو قدیم فطری معاشرے میں جاکر ملتی ہیں۔ ابتدائی انسان جنگلوں اور غاروں میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، اور ان کی زندگی ہزاروں طرح کے خطروں میں گھری ہوئی تھی۔ زمانہ تاریخ سے قبل کے آدمی کے لیے فطرت کی ہر شے ایک راز تھی، جیسے کہ بارش کا برسنا، بجلی کا چمکنا، سورج کا طلوع وغروب ہونا، موسمی تبدیلیاں، برفانی دور، گلیشئیروں کا پگھلنا، سورج گرہن، چاند گرہن، طوفان، زلرلے اور موذی امراض وغیرہ ابتدائی انسان کی زندگی کو سخت مشکلات سے دوچار کیا کرتے تھے۔
اس طرح تمام قدرتی افات انسانی سمجھ سے بالاتر تھے، کیونکہ دور قدیم میں سائنسی تحقیق و ٹیکنالوجی نہ ہونے کے برابر تھی، اور ان کی زندگی ہر طرح سے غیر محفوظ تھی۔ مثلاً خوفناک اندھیری راتوں میں خون خوار درندے انسانوں پر شب خون مارتے تھے، اس کے علاؤہ بھوک، شدید سردی اور جنگلی جانور ان کو بالکل ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ زندگی اور موت کے اس مسلسل کشمکش میں خوف انسانی لاشعور کا مستقل حصہ بن گیا۔
ابتدائی آدمی اگر یہ سمجھ پاتے کہ ان کے چاروں اطراف کیا ہو رہا ہے تو غالباً وہ یہی طے کرتے کہ دنیا کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔
میخائل ایلین اور ایلینا سیگاں کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانہ تاریخ سے قبل کے آباء واجداد قدرت کے ویسے ہی غلام تھے جیسے اس دنیا میں رہنے والے دوسرے جانور۔ ابتدائی فطری ماحول میں ہر نہ سمجھ آنے والی چیز کو مقدس سمجنے لگے، کیونکہ سوچ وفکر میں کمی کے باعث وہ تمام فطری تبدیلیوں کے محرک بننے والی مادی وجوہات سمجھنے سے قاصر تھے۔ لہذا ہر وہ چیز جو انسانی سمجھ سے بالاتر اور زندگی وموت کی سبب بنتی تھی، اس کی پوجا کرنے لگے۔
مشہور انگلش فلاسفرThomas Hobbes کا دعویٰ تھا کہ ابتداء میں معاشرہ فطری حالت میں تھا۔ حکومت جیسی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ تمام آنسان برابر اور فطرت کے سامنے بے بس تھے، ہر طرف جنگل کے قانون کا راج تھا۔
زندگی کی بقاء کے لئے ابتدائی انسان فطرت کے ساتھ حالت جنگ میں تھا اس لئے اپنی ضرورت کے مطابق رفتہ رفتہ فطری طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسان نے پتھروں کو شکل و صورت دینا شروع کیا اور پھتروں کے اوزار بنائے۔ کہا جاتا ہے کہ ازمنہ وسطی میں جب کوئی شہاب ثاقب اپنی شعلہ ور دم پھیلاتا آسمان کے پار جاتا ہوا دکھائی دیتا تو لوگ اپنے اوپر صیلب مقدس کا نشان بنا کر کہتے : دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ ”
جب شدید طاعون کی بیماری پھیلتی جس کو لوگ ”سیاہ موت کہتے تھے، تو ان کے پاس سوائے دیوتاؤں کی پوجا کے اور کوئی چارہ نہیں تھی۔ اس طرح کی صورتحال میں دیوتاؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے پیٹرونیس نے کہا تھا کہ اٹلی کے کچھ قصبات میں دیوتاؤں کی تعداد انسانوں سے زیادہ تھی۔ بابلیوں کے بارے میں مشہور ہے : کہ انہوں نے سات سیاروں کو الہامی مقدس کا درجہ دیا تھا، ہفتے کے سات دنوں میں وہ مختلف انداز میں ان کی پوجا کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ستارہ شناسی بھی اسی دور کی پیدوار ہے، دور ابتدائی میں سمندر پہاڑ دریا، چٹانوں، سورج چاند و ستاروں اور آسمان کو بھی روحوں کی مختلف اشکال سمجھ کر ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ بقول ماہر علوم بشریات کارل جٹمر، گلگت بلتستان بشمول قراقرم کی پٹی میں بسنے والی تمام قومیں بدھ مت مذہب کی آمد سے قبل روحوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یونانی لوگ بھی اس دور میں سمندر، آسمان وستاروں کو دیوتاؤں کے بدن خیال کرتے تھے اور بھوت پریت، جنات اور پریوں پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بھوت پریت، پریاں، اور چڑیلیں انسانی جسم میں داخل ہوکر انسان پر اثر انداز ہوتی تھیں، دراصل یہ سب وہ تصورات ہیں جو ابتدائی فطری ماحول کی پیداوار ہیں۔
جدید انسان کو ایسے تصورات اپنے آباؤ اجداد سے ورثے کے طور پر ملے ہیں، اور اس طرح نفسیات انسانی کا حصہ بن گئے ہیں۔ انسانی نفسیات بہت پیچیدہ ہوتی ہے اور توہمات کا ہماری نفسیات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، مثلاً آج کے اس جدید دور میں بھی انسانوں کی ایک کثیر تعداد جانوروں اور پتھروں کی پوجا کرتی ہیں کیونکہ یہ عقیدے اور تصورات ان کو آباؤ اجداد سے ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا لوگوں کی اکثریت عام طور پر بنا کسی تحقیق کے ایسے تصورات پر کامل یقین رکھتے ہیں۔
قدیم دور میں دنیا کے بعض علاقوں میں فصل کاشت کرتے وقت انسانوں کو دیوتاؤں کے بھینٹ چڑھایا جاتا تھا، ان کا خیال تھا کہ زمین کو انسانی خون پلانے سے دیوتا خوش ہو جاتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ روایت آج بھی دنیا کے بعض دیہئی علاقوں میں موجود ہے لیکن آج کے دور میں انسانوں کے بجائے فصل کاشت کرتے وقت جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے، تاکہ خشک سالی کے سبب فصلیں تباہ نہ ہو پاے۔
وادی نومل گلگت سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست رستم خان کا کہنا ہے، کہ ان کے گاؤں میں بھی یہ روایت موجود تھی کہ کھیتوں میں تخم ریزی کی رسم ادا کرنے سے قبل کسی جانور کو ذبح کر کے اس کے خون کو ہل پر خون چھٹرکا جاتا۔ تھا تاکہ فصلیں اچھی ہو اور خشک سالی نہ ہو۔
اس طرح کی ایک اور دلچسپ روایت ساوتھ افریقہ کے بعض علاقوں میں آج بھی موجود ہے۔ وہاں جب کبھی کسی شخص کو سر درد ہوتا ہے تو خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی روح بھٹک گئی ہے لہذا ایک شخص کو جنگل میں اس کی روح کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ شخص اس روح کو پکڑ کر ایک صندوق میں قید کر کے لاتا ہے اور بیمار شخص کے کان کے قریب اس صندوق کو کھولا جاتا ہے یوں سر درد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں بھی پائی جانے والی اس طرح کی دلچسپ صورتحال کے بارے میں کارل جٹمر نے اپنی کتاب بلور اور دردستان، جو جرمن زبان لکھی گئی تھی اور بعد میں مئی ( 1980 ) میں انگریزی زبان میں لاہور سے شائع ہوئی۔ اس دلچسپ کتاب کا صفحہ نمبر 56 میں وہ لکھتے ہیں کہ ”گلگت بلتستان کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ درحقیقت چڑیلوں سے ڈرتے ہیں۔ “
ان کے مطابق یہاں ہر شکاری کو ایک حفاظتی مافوق الفطرت مخلوق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو پہاڑوں پر اس کی حفاظت کرتی ہے۔ جسے شینا زبان میں راچی پایالی کہا جاتا ہے۔ وہ Lorimer کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے تحقیق کے مطابق اس خطے میں اندھیری راتوں میں گاؤں کی بعض عورتوں کی ایک مخفی محفل سجتی ہے، جس سے شینا زبان میں (Rui) کا بیاک کہا جاتا ہے، یعنی چڑیلوں کی مخفی محفل، جس میں میٹو ( mitu ) ان کے مددگار کے طور پر شرکتِ کرتا ہے۔ اس مخفی بیاک میں چڑیل اپنے نشانہ بننے والے شخص کی روح کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور Mitu کے پیٹھ پر اس شخص کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جاتے ہیں، اور وہ شخص مر جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے دیہاتوں میں آج بھی یہ بات مشہور ہے کہ چڈیل رات کے اندھیرے میں یا دوپہر کے وقت اپنے شکار کو ڈھونڈتی ہیں اور اپنی بیاک میں لے جاکر اس کو کھا جاتی ہیں۔
کارل جٹمر اپنی اس کتاب کے صفحہ نمبر 62 میں لکھتے ہیں کہ گلگت ایجنسی میں لوگ عام طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ Fairies میں بھی مرد اور عورت دونوں ہوتے ہیں، جو بلند وبالا پہاڑوں پر رہتے ہیں، گلگت بلتستان میں فیری میڈو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پریوں کا مسکن ہے۔
اس طرح Yacholos نامی ایک تصوراتی مخلوق پر بھی گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں یقین کیا جاتا ہے۔ Yacholos کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھر اور اس کے مالک کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ان کی ایک بری عادت یہ ہے کہ وہ گھر سے غلہ چراتے ہیں اس لیے غلہ کو چمڑے کی بنی ہوئی بوریوں میں بھرتے وقت ان کو اچھے کھانے کھلا کر ورغلانا لازمی ہے۔ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں یاچھول نامی اس ماروائی مخلوق سے متعلق مختلف اقسام کی کہانیاں منسوب ہیں۔
وادی جوتل گلگت سے تعلق رکھنے والے قانون دان نعیمی ایڈوکیٹ سے اس حوالے سے ایک نشست کی تو انھوں نے بتایا کہ وادی جوتل میں بھی چند سال قبل تک یہ روایت موجود تھی، کہ موسم سرما کی آمد کساتھ جب چرواہے پہاڑی چراگاہوں سے آپنی مال مویشیوں کے ریوڑ کو لے کر گاؤں پہنچ جاتے اور مال مویشیوں کو موشی خانوں میں داخل کرتے وقت Yacholosکے لیے دیسی گھی سے تیار شدہ ڈش جس کو شینا زبان میں Mul کہا جاتا ہے اس (مل) کو موشی خانے میں رکھ دیتے تھے تاکہ ان کے مال مویشیوں کو نقصان نہ پہنچے، یہ روایت چند سال قبل تک ضلع غذر کی وادی پونیال کے بعض گاؤں میں بھی پائی جاتی تھی، جبکہ مقامی تہوار دومن خا، اج بھی پونیال کے بعض گاؤں میں بڑے جوش و خروش سے ہر سال ماہ نومبر میں منائی جاتی ہے۔
کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع ان دلکش وادیوں میں بسنے والے عمر رسیدہ افراد سے اگر آج بھی یہ معلوم کیا جائے کہ ان وادیوں میں آباد سب سے قدیم لوگ کون تھے؟ تو وہ بتاتے ہیں کہ ابتداء میں ان وادیوں میں مافوق الفطرت مخلوق آباد تھے جو شینا زبان میں devakos کہلاتے ہیں، جن کا ذکر شینا لوک داستانوں میں عام ہے۔ کارل جٹمر اپنی کتاب کی صفحہ نمبر 63 کے آخر میں لکھتے ہیں کہ داریل میں ایک کہانی سنائی جاتی ہے کہ ان وادیوں میں ایک جن رہتا تھا جو آدم خورتھا، جو اپنے ہر شکار کے لئے ایک پتھر کھڑا کیا کرتا تھا، جو آج بھی اپنی جگے پر موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح کی ایک مشہور دیومالائی داستان گلگت بلتستان کے قدیم دور کے ایک مقامی حکمران شری بدت سے بھی منسوب ہے روایت کے مطابق وہ آدم خور تھا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے بلکہ اس کے مخالفین نے یہ کہانی پھیلا کر اسے موت کے گھاٹ اتارانے میں کامیاب ہوئے۔
نشاۃ ثانیہ سے قبل یورپ میں بھی اس طرح کے توہمات کی بھرمار تھی، مذہبی پادریوں کا کامل یقین تھا کہ زمین غیر حرکت پذیر ساکت اور کائنات کی محور ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن جب مشہور فلسفی گلیلیو گلیلی نے دوربین ایجاد کرکے یہ ثابت کیا زمین ساکت نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد۔ ، اس بات پر پادریوں نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی تاہم گلیلیو بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
اس طرح انقلاب فرانس سے قبل یورپ میں بھی لوگوں کا کامل ایمان تھا کہ تمام بیماریاں اور مصیبتیں جادوگروں اور چڑیلوں کی برے اعمال کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں۔ چنانچہ سولہویں اور سترہویں صدی میں ہزاروں خواتین پر چڑیل اور بدروح ہونے کا الزام لگا کر ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ہزاروں خواتین جو زیادہ تر غریب کسانوں کی بیویاں تھی جبکہ چند ایک عقلمند خواتین تھیں جو مختلف امراض کا علاج جادو ٹونے سے کرتی تھی جنہیں چٹریل قرار دے کر تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
تاریخ میں اس دلخراش واقعے کو عام طور پر Trials of Witches & European Witch Hunts۔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پانچویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی کے ہزار سالہ دور کو یورپ کے عہد تاریک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یورپ میں فکری انقلاب کے لئے فرانس کے روشن خیال دانشوروں کا کردار بہت اہم تھا ژاں پال روسو ان میں سرفرست تھا جبکہ مارٹن لوتھر نامی ایک جرمن پادری نے رومن کلیسا کے خلاف تحریک شروع کی اور اس طرح ریفارمیش کی ابتدا کے ساتھ توہمات کی دنیا کو سائنس نے ہلا کر رکھ دیا۔
علم کے ذریعے انسان نے نیچر کی تسخیر کی اور جدید تعلیم نے توہمات کو جھاڈنے کا عمل بھی شروع کیا اور فلسفہ مادیت نے مافوق الفطرت عقیدے کو اتار پھینکا نتیجتاً جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان فطرت کے بے رحم طاقتوں کو قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوا، چنانچہ آج سیلاب، زلزلہ اور طوفان سے بچنے کے لیے بروقت حفاظتی اقدامات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اور جدید ترین ہسپتالوں میں موذی امراض کا علاج بھی ممکن ہے جو کہ ماضی میں ممکن نہیں تھا۔
اج جدید سائنس کی بدولت لوگوں کو دانتوں کے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے جنگلوں میں جا کر روح پکڑ کر لانے کی ضرورت ہے نہ ہی دانتوں کی درد کے لیے منتر پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ اب علاج معالجہ لوگ ڈنیٹل سرجن سے کرواتے ہیں۔ البتہ جہاں علم و شعور کی کمی اور ہسپتال کی سہولت موجود نہ ہو وہاں دانتوں کی درد کے لیے آج بھی منتر پر ہی گزارہ کیا جاتا ہے۔
درحقیقت توہمات قدیم دور کے وہ تصورات ہیں جو فطری ماحول کی پیداوار ہیں اور جدید انسان نے انہیں اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں پایا ہے اور یہ انسانی نفسیات کا حصہ بن گئے ہیں، اس لیے آج بھی دنیا میں بعض افراد منتر، جادو ٹونا تعویز، گنڈے وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں، اور ان کا یہ ماننا ہے کہ پرانے خالی گھروں میں جنات بسیرا کرتے ہیں، کالی بلی راستہ کاٹے تو بدشگونی ہوتی ہے، پری اور چڑیل انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
توہمات کو حقیقت سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت عام طور پر اپنے روزمرہ کے مسائل مثلاً روزگار کا حصول، پسند کی شادی، اولاد کا نہ ہونا، بیماریوں کا علاج، امتحان میں کامیابی، دشمنوں کو مات دینے اور دیگر گھریلو پریشانیوں اور نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے جادوگروں، ستارہ شناسوں، عاملوں، نجومیوں اور خوابوں کے تعبیر بتانے والوں کے پاس چکر لگاتے ہیں، جنہوں نے توہمات کے کاروبار کو بہت جدید انداز میں وسعت دے رکھی ہے۔
بعض عامل حضرات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اپنی جادوئی کمالات کی کھلی تشہیر کرتے ہیں، جبکہ کچھ عامل اور پیر حضرات جنات پر قابو پانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، جبکہ ان کے مریدوں میں امیر اور غریب دونوں طبقے کے افراد شامل ہوتے ہیں۔
بسا اوقات موذی امراض کی صورت میں عاملوں کی چکر میں پڑ کر بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کی خبریں روزانہ ٹی وی اور اخبارات میں شائع ہوتی ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے توہمات کا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے، اس لئے جادو ٹونے کے کاروبار سے منسلک لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، نتیجتاً روزانہ سینکڑوں افراد ان عامل حضرات کے سحر میں آ کر اپنی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب قومیں زوال پزیر ہوتی ہیں تو وہ توہمات کی دنیا میں اپنا مستقبل تلاش کرنا شروع کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی اکثریت سائنسی علوم سے زیادہ توہمات اور عامل حضرات کے کرشمات اور قسمت کا حال بتانے والے طوطوں پر یقین رکھتے ہیں، بقول لیون ٹراٹسکی، آج کے سستے زمانے میں کوئی بیٹا اپنے دادا کے کپڑے شاید مشکل سے ہی پہن لیتا ہو لیکن خیالات کی دنیا میں پرانے خیالات آج بھی بطور فیشن چل رہے ہیں۔ اس لئے کسی بھی معاشرے میں ترقی کی راہ میں حائل پرانی رکاوٹیں ہٹانے سے ہی نئی سماجی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ لہذا فکری نشوونما کے لیے توہمات کا سدباب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔