تحریر رشید ارشد۔
آج میں جس شخصیت کا زکر کر رہا ہوں وہ رشتے میں تو میرے حقیقی بڑے بھائی ہیں لیکن آج اگر چار لفظ ضبط تحریر میں لانے کے فن سے آشنا ھوں تو اس میں کرداد انہی کا ہے۔میں بجا طور کر کہہ سکتا ہوں کہ میری صحافت کی ابتدا محض دس برس کی عمر میں گھر سے ہوئی ۔مجھے جب آس پاس دیکھنے اور چیزوں کے مشاہدے کا شعور ملا تو سب سے پہلے گھر میں بڑے بھائی کے صحافتی شہہ پارے رسائل اخبارات۔مقالے ۔تجزیئے اور تحقیقاتی رپوٹیں ہی دیکھیں۔
بڑے بھائی کے علاوہ والد محترم بھی علم کے دلدادہ تھے یہی وجہ ہے کہ چلاس بونر سے جا کر استور جیسے دور افتادہ علاقے جہاں اس وقت اخبار اور رسائل کا تصور تک نہ تھا وہاں میرے والد محترم نے آخبارات اور رسائل کو منگوا کر نہ صرف آپنے مطالعے کے شوق کو پورا کیا بلکہ استور کے تشنگان علم کے لئے اخبارات اور رسائل کی ایجنسی دیامر نیوز ایجنسی کے نام سےشروع کی ۔اس سے قبل استور میں اخبارات اور رسائل کا ملنا خواب تھا۔۔۔۔
حبیب الرحمن نے گلگت بلتستان میں صحافت کا علم اس دور میں اٹھایا جب گلگت بلتستان میں صحافت گھٹنوں کے بل چلنے کا آغاز کر چکی تھی ۔چند ایک گنے چنے صحافی تھے جو صحافت کر رہے تھے۔جن میں نامی گرامی ۔ اقبال عاصی ۔سر تاج خان۔سعادت علی مجاہد ۔قاسم نسیم ۔بہادر علی سالک ۔ظفر حیات پال مرحوم۔خوشی محمد طارق ۔مہدی مرحوم اور استاد سعید الحسن مرحوم تھے۔یہ تمام شخصیات صحآفت کے شعبے میں آپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دے رہیں تھیں لیکن اس وقت سوائے روزنامہ سیاچن اور شمال کے کوئی اخبار ایسا نہ تھا جو گلگت بلتستان سے شائع ہوتا ہو۔حبیب الرحمن نے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے ایک رسالہ ماہنامہ ہمالیہ کا آغاز کیا ماہنامہ ہمالیہ کے آغاز کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے صحافیوں اور لکھاریوں کے لئے ایک انسٹیوٹ مل گیا جہاں سے آپنے فن میں نکھار پیدا کر سکیں۔
گلگت بلتستان کے مشہور ادیب سابق مشیر وزیر اعظم پاکستان عطا اللہ شہاب نے ہمالیہ میں لکھنے کا آغاز کیا چیر مین سٹیڈنگ کمیٹی اشرف صدا نے ہمالیہ سے صحافت کا آغاز کیا۔شکور اعظم رومی جو آجکل بیورو چیف ایکسپریس نیوز ہیں انہوں نے بھی صحافت کا آغاز ہمالیہ سے کیا۔مشہور شاعر و ادیب احسان شاھ ہمالیہ میں بطور ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔مشہور سیاسی و صحافتی رہنما رانا فارق نے بھی صحافت کا آغاز ہمالیہ سے کیا اور بطور ریزیڈنٹ ایڈیٹر فرائض انجام دیئے۔
ہمالیہ نے گلگت بلتستان میں صحافتی شعور کو اتنی تیزی سے پھیلایا کہ پڑھےکھے افراد نے شعبہ صحافت کا رخ کیا اور اسی عرصے میں صحافیوں کی ایک اچھی تعداد منظر شہود پر ابھری۔حبیب الرحمن نے جب محسوس کیا کہ آب ماہنامہ سے کمی پوری نہیں ہو سکتی لہذا ایک ہفت روزے کا اجرا کیا جائے۔ایسے میں برصغیر پاک و ہند کی صحافتی تاریخ میں انقلآب بپا کرنے اور تحریک آزادی پاکستان کے لئے بیداری شعور اور پاکستان بننے کے بعد مزاہمتی صحافت کے نمائندہ آخبار ۔چٹان۔جو تحریک پاکستان کے رہنما شاعر اور ادیب شورش کاشمیری کی ادارت میں نکلتا تھا کو حاصل کیا اور گلگت بلتستان سے ہفت روزہ چٹان کا آغاز کیا۔
ہفت روزہ چٹان کے آسمان صحافت پر نمودار ہوتے ہی تشنگان و علم و ادب کا ایک ہجوم امڈ آیا اور حبیب الرحمن نے چٹان کو صرف ایک روایتی اخبار نہیں بلکہ ایک انسٹیوٹ اور درسگاہ کا درجہ دیا جہاں سے گلگت بلتستان کے نامی گرامی صحآفی نکلے جو آجکل گلگت بلتستان میں صحافت کے شعبے میں امتیازی مقام کے حامل ہیں۔ان میں چیدہ چیدہ نام یہ ہیں۔ضلع غذر سے راجہ عادل غیاث۔مرحوم سپر راجہ۔گلگت سے خالدحسین بیو رو چیف دنیا نیوز۔شکؤر اعظم رومی بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔مظہر مغل۔جہانگیر ناجی۔عبد الرحمن بخاری بیورو چیف آج نیوز۔
دیامر سے محمد قاسم۔عطا اللہ زاھد خرازی استور سے رانا فارق جو چٹان کے ریذیڈینٹ ایڈیٹر تھے۔ان کے علاوہ بہت سے نامی گرامی لکھاری اور کالم نگار ہیں جنہوں نے آپنے صحافتی سفر کا آغاذ چٹان سے کیا۔
چٹان ایک طویل عرصے تک گلگت بلتستان کے آسمان صحافت پر آپنی روشنیاں بکھیرتا رہا اس عرصے میں چٹان نے گلگت بلتستان کے سماجی۔سیاسی اور معاشی حقوق کے لئے توانا آواز بلند کی۔چٹان ایک مظبوط اور مستند ادارے کے طور پر سامنے آ چکا تھا لیکن بہت سے حاسدین اور کم ظرف طبقوں سے چٹان کی ترقی دیکھی نہیں گئی صحافتی شعبے سے وابستہ ہی کچھ بونوں نے آپنے کوتاہ قد کو چٹان کو گرا کر ہی اونچا کرنے کی سازش بنائی اور ان حاسدین نے ایک ایسی سازش رچائی کہ منظم سازش کے تحت چٹان کے ایک ملازم کو خریدا اور ایک متنازعہ مضمون اخبار کے ایڈیٹر ۔چیف ایڈیٹر اور ذمہ داراں کو اندھرے میں رکھ کر اخبار جب دفتر سے تیار ہو کر پریس جا رہا تھا دفتر اور پریس کے درمیان پیسٹ کیا اور اخبار کو چھپوا کر مارکیٹ روانہ کر دیا گیا۔ہمیں اس مضمون کی خبر اس وقت ہوئی جب اخبار مارکیٹ میں پھیل چکا تھا ۔خیر حاسدین آپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور حبیب الرحمن کی برسوں کی محنت ایک لمحے میں ضائع ہو گئی۔اس واقعے سے جہاں معاشی طور پر ایک ازالہ نہ ہونے والے نقصان کا سامنا ہوا وہاں سماجی طور پر بھی مشکلات ایسی پیش آئیں کہ جس کا سامنا آج بھی ہمیں کرنا پڑ رہا ہے۔
ان حاسدین نے صرف چٹان کے خلاف سازش نہیں کی بلکہ حبیب الرحمن کی ذات کو متنا زعہ بنانے کی پوری کوشش کی ۔یہ ایک ایسی داستان ہے اور ظلم ہے کہ جس کے اثرات سے آج تک ہم نکل نہ سکے خیر یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت کس نے آگ بجھانے کی سعی کی اور کس نے چنگآریوں میں پھونکیں مار کر آگ لگانے کی کوشش کی یہ سب تاریخ ہے اسے پھر کسی نشست میں تحریر میں لاوں گا۔۔
حبیب الرحمںن بلا شبہ گلگت بلتستان کی صحافت کے وہ چمکتے ستارے ہیں جن کو فراموش کیا جائے تو صحافت کی تاریخ آپنے معنی کھو دیتی ہے ۔۔۔
قوموں کے زوال کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کے اہل قلم۔دانشور ادیب اور لکھاریوں کے لئے ذندگی کے راستے تنگ کر دیئے جائیں اور اس قوم کے اہل قلم آپنی پوری ذندگی آپنی قوم کے صرف کرنے کے باوجود دو حرف داد تحسین اور عزت و احترام کی کسی سند کے حقدار نہ ٹھہریں اور ذندگی میں کھبی بیماری سے لڑیں تو کھبی معیشت کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔
دنیا کتنی مطلب پرست اور مادہ پرست ہے اس کا مشاہدھ کسی اور کو ہو نہ ہو مجھے آچھی طرح ہے میں نے وہ وقت بھی دیکھا جب حبیب الرحمن اس وقت کے سیاسی مسافروں اور آج کے رہنماوں کے لئے آنکھ کا تارا تھے سیاسی شعبدہ باز اور دیگر کردار خوش آمد کے ڈونگرے برساتے تھے چٹان کے ساتھ رچائی گئی سازش کے بعد جب اخبار بند ہوا ۔حبیب الرحمن کے لئے برسوں تک ذندگی میں ہر قدم پر مشکلات کھڑی کر دی گئیں تو وہ سب جو حبیب الرحمن کے گن گاتے تھکتے نہیں تھے جیسے برساتی مینڈک بارش کے بعد غائب ہوتے ہیں ایسے غائب ہوئے
۔
حبیب الرحمن جنہوں نے آپنی ذندگی کی بہاریں قوم کے نام کر دیں قوم میں سیاسی اور سماجی شعور کی بیداری کے لئے ملکی اور بین الا قوامی سطح پر کانفرنسزز کروائیں وہ آج کئی برسوں سے بیماری سے لڑ رہے ہیں لیکن مجال ہے کسی صاحب اقتدار رہنما نے یا کسی سیاسی صحافتی اور علمی رہنما نے ان کی خیریت دریافت کر کے دو لفظ ہمدردی کے بولے ہوں ۔اس طوطا چشمی کو دیکھ کر بہت دکھ ھوتا ہے کہ ہم آپنے قومی محسنوں کو کتنی جلدی فرامؤش کرتے ہیں اور توقع بھی کرتے ہیں کہ قوم کا ہر فرد قوم کے لئے قربانی بھی دے۔۔۔۔۔
حبیب الرحمن بھائی اس وقت بیمار ہیں ان کے چاہنے والوں سے میری درخواست ہے کہ ان کی صحت یابی کے لئے اللہ سے دعا مانگیں۔اللہ ہمارے اس قومی ہیرو کو صحت کاملہ سے سر افراز کرے۔