جی آج گھڑی باغ گھڑی اور باغ دونوں سے محروم اور مرحوم ہونے کے بعد بھی گھڑی باغ ہے ۔ہمارے صحافی حضرات اور رپورٹر بڑے شوق اور ذوق سے جب رپورٹ کر رہے ہوتے ہیں تو لفظ یا جملہ بڑے ہی زور اور ولولے سے تاریخی کہہ یا بول دیتے ہیں شائد ہی جانتے ہوں کہ اس جگہ کا نام جنگی پلیٹ تھا اس جنگی پلیٹ کے ایک حصہ کو گھڑی باغ کی شکل مہارجہ اور انگریز دور میں دی گئی تھی یہ اس وقت کی بات تھی جب برصغیر میں انگریزوں کی حکومت تھی تین گھڑیاں یا گھڑیال منگوائے گئے تھے ایک گھنٹہ گھر فیصل آباد دوسری کراچی اور ایک گھڑی گلگت کے اس جنگی پلیٹ کو باغ کی شکل دے کر یہاں نصب کی گئی تھی یہ گھڑی یا گھڑیال بڑی ہی قیمتی اور نایاب تھیں۔ ۔پاکستان بننے کے بعد سے ہی توڑ پھوڑ کا کام تیزی سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اس تاریخی گھڑی باغ کے ساتھ والی مسجد جسے اب موتی مسجد کہا جاتا ہے کبھی جنگی مسجد کہلاتی تھی پرانے لوگ اب بھی اسے جنگی مسجد ہی کہتے ہیں اور جان علی کے ایک شینا گانے میں بھی اسی جنگی پلیٹ کا ذکر موجود ہے میرا ان باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ کو ہم نے کبھی معاف نہیں کرنا ہے مہارجہ اور انگریز کی جتنی نشانیاں ہیں ان سب کو متانا ہے تاکہ کسی اور جھنڈے ونڈے کی گنجائش باقی نہ رہے ہے نا یہ بات۔ اس تاریخی گھڑی باغ کی آج کی صورت حال تصویر میں نظر ٓرہی ہے۔ آج سے چند مہنے پہلے تک گھڑی باغ میں مختلف قسم کی شکلوں کے منار بنانے کے بعد اسے آخری شکل دی گئی تھی اب سننے میں یہ آیا ہے کہ یہاں ہر قسم کے جھنڈے گاڑھنے کے بعد اس جگہ سو فٹ کی بلندی پر پاکستان کا جھنڈا گاڑھا جائیگا۔ اب اگر میں اس جھنڈے کے بارے مختلف قسم کے سوالات کرونگا یا لکھونگا تو کئی حضرات مجھے پاکستان کا مخالف اور ممکن ہے غدار کہیں ۔کیا کروں بات کہاں سے شروع کروں اس مقام میں اس پرانی اور نایاب گھڑی کی چوری سے یا یہاں مختلف ادوار میں مناروں کی تعمیر میں گھپلوں اور دیگر بد عنوانیوں کا ۔اس قینتی گھڑی کا بھی پتہ نہین چلا بلکل اسی طرح جیسے کوت خانے سے قالین چوری ہوا تھا ۔ہمیں پاکستانی جھنڈے سے کوئی بیر نہیں اور نہ ہی پاکستان سے پوچھنا بس اتنا سا ہے کہ اس جھنڈے کو یہاں اونچائی میں بلند یا نصب کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی جبکہ یہ علاقہ متنازعہ ہے دوسری بات یہ کہ اگر اس کو اونچائی میں یا بلند جگہ مین نصب کرنا مقصود تھا تو اس مقام کے بلکل سامنے جانع مسجد کا منار جو سب سے اونچا منار ہے یا گوہر امان کی آخری نشانی حیات شہید سکول کی اونچی بُرجی پر ہی اس جھنڈے کو نصب کیا جاتا تاکہ ۳۰ لاکھ روپوں کا بھاری خرچہ نہ ہوتا۔ یہاں لوگوں کو صاف پانی اور صحت کے بنیادی سہولتیں میئسر نہیں اور فضول قسم کے شوق یہاں کے غریب عوام کے ساتھ مذاق نہین تو اور کیا ہے ۔تاریخ کبھی نہ کبھی اپنے آپ کو دہراتی ہے تاریخ کو مٹانا آسان نہیں تاریخ متتی ہے پھر جنم لیتی ہے اس مقام کو چاہئیں آپ جو کچھ بھی بنا لیں یہ گھڑی باغ ہی رہیگا چاہئے یہاں سے گھڑی چوری ہوجائے یا بلندی پر جھنڈا گاڑھا جائے
ہدایت اللہ اختر گلگت