گلگت بلتستان میں آزادیِ صحافت پر ایک دکھ بھری نظر۔

تحریر شیرین کریم
نہ ایک سال نہ چند مہینے بس کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ رات کے اک تاریک پہر میں ایک صحافی سارا دن سچ کی جنگ لڑنے کے بعد جب اپنے گھر میں سو رہا تھا تو قانون کے رکھوالے اس کے گھر میں گھسے، اسے گرفتار کیا اور ایک مجرم کی طرح اس کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔آخر کیا قصور تھا اس کا؟ کس جرم میں اس کو جیل میں ڈالا گیا؟  بس اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے انتظامیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر  ایک پوسٹ جاری کی تھی۔سچ بولنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ  صحافی نے باقی رات سلاخوں کے پیچھے گزاری. اس واقعہ نے گلگت بلتستان میں آزادی صحافت پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیا.
کہنے کو تو گلگت بلتستان   میں صحافت کا پرندہ آزاد ہے مگر حقیقت میں یہ ایک پنجرے میں  قید ہے۔ قید کیوں نہ ہو کہ سچ بولنے کی پاداشت میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ۔کچھ کہنے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کچھ لکھنے پر اغوا ہونا پڑتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آخر کیا تھا اس صحافی کی خبر میں  جو ایک اسٹیٹس لگانے پر ہی اسے کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا۔کیا اسے کہتے ہیں آزادیِ صحافت ؟کیا یہی ہے سچ بولنے کا صلہ؟کیا عوام کی آواز بننا جرم بن گیا ہے؟ اگر یہ جرم بھی ہے تو ہر صحافی کبھی بھی سچ کہنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
   یاد رہے اس تحریر کا مقصد کسی کو نشانہ بنانا یا الزام تراشی کرنا نہیں۔ بلکہ آزادیِ صحافت پر جو تیر برسائے جاتے ہیں ان کے سامنے ڈھال بن کر صحافیوں کو ان تیروں کے زخموں سے بچانا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔اور اگر اس ستون کو ہی ہلانے کی کوشش کی جائے تو کیا ریاست چل سکے گی؟سچ بات کہنا اور حقیقت کا آئینہ دکھانا ایک صحافی کا کام ہے۔ اور مہذب معاشروں میں صحافیوں  اور صحافتی اداروں کی آراء کو معاشی , معاشرتی , دفاعی اور تعمیر و ترقی کے  پالیسی سازی میں اہمیت دی جاتی ہے اور صحافیوں کی تنقید کے بعد کمی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں  صحافیوں  کو ڈرانا دھمکانا،  ان پر تشدد کرنا  اور ان کے کام کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
صحافی اگر اپنا قلم اٹھا کر حکومت کے خلاف کوئی بات لکھ دیں۔ حکومت کے کسی اسٹیپ پر ذرا سی تنقید کردیں تو یہ صحافیوں کے لیے جان کا وبال بن جاتی ہے۔ ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونے لگتی ہے اور ان کو دھمکیاں آجاتی ہیں۔
اس کے علاوہ اگر کوئی صحافی عوام کی آواز حکومت کے نمائندے تک پہنچانے کی کوشش بھی کرے تو اس کا  خمیازہ بھی صحافی کو گرفتاری یا پولیس ایکشن کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ صحافی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ حکومت کی تعریف میں ان  کے گن گاتا رھے۔ بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کے  تمام مسائل کو حکومت تک پہنچائے۔ اور حکومت کو یہ بتائے کہ عوام کیا چاہتی ہے؟ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ صحافی کو عوام کی آواز بننے پر بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
گزشتہ دنوں جس صحافی کے ساتھ یہ واقع رونما ہوا وہ روزنامہ اوصاف کے چیف رپورٹر امجد حسین برچہ ہیں جنہوں نے ڈی آئی جی پولیس گلگت کے خلاف سوشل میڈیا فیس بک پر ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا تھا صحافی کا کہنا تھا کہ خبر اس لئے دی گئی تھی کہ انکے خلاف شواہد موجود تھے مگر پولیس ڈیپارٹمنٹ نے انہیں راتوں رات بغیر کسی ایف آئی آر اور پیشگی اطلاع کے گھر پر چھاپہ مار کر  گرفتار کیا انہیں ہنزہ اپنے گھر سے رات کو لا کر تھانے میں بند کردیا جس کی خبر گلگت بلتستان کے صحافیوں کو ہوئی تو تمام اضلاع کے صحافیوں نے روڈ پر نکل کر احتجاج کیا جس کی بنا پر ایک دن پولیس حراست میں رکھ کر انہیں رہا کردیا۔
ایسے واقعات اکثر صحافیوں کے ساتھ رونما ہوتے رہتے ہیں اگر انکی خبر کسی فرد یا ادارے کے خلاف ہو تو ایسے واقعات کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ حکومتِ وقت اور صحافیوں کے ناخوشگوار تعلقات کے قصے ہمیشہ سے چلتے آ رہے ہیں ۔صحافی اگر حکومت کے باتیں کریں اس کی ہاں میں ہاں ملائے  تو اچھا کہلاتا ہے ورنہ اس صحافی کو اینٹی گورنمنٹ یا ایجنٹ کا لقب دیا جاتا ہے۔ درحقیقت صحافی کا کام صرف سچ کو سامنے لانا ہے کسی کی تعریف کرنا یا برائی گنوانا نہیں۔ایک صحافی تو صرف سچ کا آئینہ پیش کرتا ہے چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔
اسی سچ کو جب منظر شگری نے عوام کے سامنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو اس کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
صرف یہی نہیں درجنوں صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ھر دن رونما ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ یہ خبر نہ چھاپیں یا اس خبر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ نہ کریں۔اور چند ہی لمحوں میں اس کو اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کیا  جاتا ہے۔
اور اگر کوئی  صحافی جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سچائی سوشل میڈیا پر ڈال دے تو کچھ ہی لمحوں میں اس کو یہ پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ تو اب ذرا آپ ہی سوچیۓ کہ گلگت بلتستان میں صحافت آزاد ہے یا پھر اس کو طرح طرح کی تنقید اور دھمکیوں کا سامنا ھے۔
صحافی  فہیم اختر اس بارے میں اپنی رائے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صحافت آزاد نہیں۔ایک صحافی  جب عوام کی آواز کو اٹھاتا ہے تو اس کو تنقید، دھمکیوں اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ٹھیک اسی طرح انہیں کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا۔ایک مسئلہ پر جب انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کو ڈرا دھمکا کے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔
 اس کے علاؤہ گلگت بلتستان میں  خواتین صحافیوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا ان کو  تنقید اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔  کرن قاسم  کے مطابق گلگت بلتستان میں صحافت کرنا  اپنی جان کی بازی لڑانے سے کم نہیں۔ ان کا کہنا ھے کہ  اُن کو بھی موبائل فون پر دھمکیاں آتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں خبر مت چھاپیں ورنہ آپ کے ساتھ برا سلوک کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ھے کہ حکومتی سطح پر بھی ان کو غصہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ سچ کی آواز اٹھاتی ہیں جس کی وجہ سے حکومتی نمائندے  ان کے خلاف کارروائیاں کرتے  پھرتے ہے۔ ان کا مزید کہنا ھے کہ سوشل میڈیا پر  ان کو ایک پوسٹ لگانے  میں کافی روکاوٹوں اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔صحافی امتیاز گلاب  کو ایک رات تین بجے ان کے موبائل پہ ایک کال آتی ہے کہ فلانی خبر کو مت چاپو ورنہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔اس کال کو سنتے اس صحافی نے اپنے دل میں خیال کیا کہ اگر سچ کو چھپاتا ہوں تو صحافت کا حق ادا نہیں کر پاؤں گا اور اگر سچ کی آواز اٹھاتا ہوں تو جان کو خطرہ لاحق ہے۔
 یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر گلگت  بلتستان میں صحافت آزاد ہے تو ان صحافیوں کو کیوں  دھمکیاں مل رہی ہیں، کیوں ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیوں ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے یہ صحافی صرف سچ کی بات کرتے ہیں اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔
اگر ایک صحافی سچ کا دامن چھوڑ دے تو وہ صحافت کے دائرے سےباہر نکل  جاتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں سچ کو اپنانا اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ آخر کیوں گلگت  بلتستان میں صحافت کو آزادی میسر نہیں۔ اس کا جواب پریس کلب کے صدر خورشید احمد نے یوں دیا کہ گلگت بلتستان میں رائٹ ٹو انفارمیشنRTI کا کمیشن موجود نہیں جو صحافیوں کو اسپورٹ کرے۔صحافی اپنے بل بوتے پر بنا کسی سپورٹ کے سچ بات بولتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری نمائندے میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔اور انفارمیشن صحافیوں کو نہیں ملتی اگر RTI کا قانون گلگت بلتستان اسمبلی سے پاس ہو اور صحافیوں کو انفارمیشن تک رسائی ہوگی اور صحافی کو تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ اگر کوئی صحافی  اداروں سے اور حکمران جماعتوں سے حق سچ کی بات پوچھ لے تو ان کو نہ گزیر گزرتی ہے اور وہ اس صحافی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ صحافت آزاد ہے کے نعرے تو پاکستان میں لگائے جاتے ہیں مگر حقیقت میں  آزادیِ صحافت کے بہت کم نشاں ملتے ہیں۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan