گلگت بلتستان ویٹرنری ڈاکٹرز ایسوسیشن کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں صدر جی-بی ویٹ ایسوسیشن اور اراکینِ اجلاس نے حالیہ منظور شدہ 4 ہزار اسامیوں میں حکومت کی طرف سے ویٹرنری ڈاکٹرز کو یکسر نظر انداز کرنے پر شدید غم و غصّے کا اظہار کیا اور کہا اب کے بعد گلگت بلتستان کے کسی بھی علاقے میں مویشیوں اور مرغیوں میں کسی بھی قسم کی وباء پھیلنے کی صورت میں اور کسانوں کو نقصان ہونے کی صورت میں کوئی بھی سماجی کارکن، صحافی یا فیس بکی دانشور کسانوں کے ساتھ جھوٹی ہمدردی ظاہر کرنے کی اداکاری نہ کریں کیونکہ حالیہ منظور شدہ چار ہزار آسامیوں میں سے جی بی گورنمنٹ کی طرف سے پہلے کی طرح اس بار بھی ویٹرنری ڈاکٹرز کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان میں جہاں بیروزگاری عروج پر ہے اتنی پریشانی میں ستائے ہوئے پڑھے لکھے نوجوانوں کو جب 4 ہزاروں اسامیوں کی منظوری کی خبر ملی تو ہر محکمے کی طرح ویٹرنری ڈاکٹرز کو بھی ایک خوشی کی اُمید ہوئی تھی تا ہم پہلے کی طرح اس بار بھی اس فیلڈ میں 5 سال یونیورسٹیز میں DVM کی ڈگری حاصل کیے ہوئے نوجوان ڈاکٹروں کے لئے ایک بھی پوسٹ نہیں دیکھ کر مایوسی ہوئی۔
روز مرہ کی استعمال کے ہزاروں چیزیں جن میں دودھ، انڈے، گوشت وغیرہ کی پیداوار اسی فیلڈ سے ہونے کے باوجود لگاتار اس فیلڈ کو اور اس فیلڈ کے ڈاکٹرز کو مسلسل نظر انداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
گلگت بلتستان میں آئے روز غیر معیاری غذا جیسے کہ بناوٹی دودھ، گوشت وغیرہ کھانے کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں جہاں گورنمنٹ انسانی ڈاکٹروں کے اتنی سیٹیں نکال رہی ہے اتنے مراعات دے رہی ہے اتنا اگر اس محکمے کے لئے بھی تھوڑا کام کرے تو سرکاری ڈیری فارمز اور بیف فارمز بنا کر اپنے ہی علاقے میں معیاری خوراک پروڈیوس کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے ہر صوبوں میں ہر سال سینکڑوں، ہزاروں سیٹیں ویٹرنری ڈاکٹرز کے لئے مختص ہوتی ہے تاہم گلگت بلتستان واحد صوبہ ہے جہاں اس فیلڈ کے 300 کے قریب ڈاکٹرز عرصہ دراز سے بےروزگار ہیں اور کافی ڈاکٹرز کی عُمریں بالائی گزرنے کے باوجود ان پڑھے لکھے نوجوانوں کی فکر کسی کو نہیں ہے۔
لٰہذا حکام بالا سے سختی سے اپیل کرتے ہیں اور اُمید ہے کہ وہ اس مسئلے کی طرف توجہ دے ورنہ گلگت بلتستان کے تمام ویٹرنری ڈاکٹرز وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے۔!!