ضلع دیامر میں تعلیمی انقلاب اور 1122 کا خطاب۔

تحریر: جیالوجسٹ ریاض الدین
گلگت بلتستان کا پسماندہ ضلع دیامر آبادی کے لحاظ سے گلگت بلتستان کا دوسرا بڑا ضلع ہے جس کی ٹوٹل آبادی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ ستر ہزار ہے۔ چونکہ ضلع دیامر بہت ہی وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ضلع ہے ضلع دیامر 16 بڑے نالوں پر مشتمل علاقہ ہے، تعلیمی لحاظ سے ضلع دیامر کا شمار گلگت بلتستان کے پسماندہ ترین ضلعوں میں ہوتا ہے، اس ضلعے میں فیمیل ایجوکیشن نہ ہونے کے برابر ہے (یعنی فیمیل لیٹریسی ریٹ دو پرسنٹ سے بھی کم ہے) ضلع دیامر کا شمار پاکستان کے غریب ترین ضلعوں میں ہوتا ہے اور اس ضلع میں پاکستان کا میگا منصوبہ دیامر بھاشا ڈیم تعمیر ہو رہا ہے جو کہ ملکی مفاد کا بہت بڑا حصہ ہے۔
ضلع دیامر کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوۓ اس ضلعے کے کابل ترین سپوت فقیراللہ صاحب کو 11 جنوری 2018 ضلع دیامر کا ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن بنا کر بھیجا گیا تو ان کے خلاف بہت سے لوگ میدان میں بھی آگئے جب اس وقت موصوف سے انٹرویو لیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ نے مجھے اپنے علاقے کی خدمت کا موقع دیا ہے میں  ڈٹ کر مقابلہ کرونگا اور ساتھ ہی کہا کہ میں دیامر کا سپوت ہوں اور انشاء اللہ میں ضلع دیامر میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرونگا۔
 ایسے میں ایک مہینے بعد ضلع دیامر میں تعلیم دشمنوں نے رات کے اندھیرے میں 11 گرلز سکولز اور 2 پبلک اسکول کو جلا کر دیامر کو مزید پسماندہ رکھنے کی ناکام کوشش کی گئی اس وقت گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور صوبائی وزیر ثوبیہ جبین مقدم صاحبہ نے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان سے دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی درخواست کی جسکے بعد تعلیمی ایمرجنسی تو نافذ کردی گئی لیکن کوئی عملی اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ اس دوران پاکستان آرمی بلخصوص اس وقت کے فورس کمانڈر گلگت بلتستان احسان محمود صاحب نے ضلع دیامر کا دورہ کیا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن دیامر کو ٹاسک دیا کہ جلائے گئے سکولوں کو جلد از جلد دوبارہ فنگشنل کرادیں۔ اس کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن فقیر اللّٰہ صاحب نے دن رات ایک کر کے 13 کے 13 سکولوں کو پاکستان آرمی کے تعاون سے مرمت کرایا اور ان کو دوبارہ فنگشنل کرانے میں کامیاب ہوا اور تعلیم دشمنوں کے خواب کو چکناچور کر دیا۔
 ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن دیامر کی اس کامیاب حکمت عملی کے بعد فورس کمانڈر گلگت بلتستان احسان محمود صاحب نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن دیامر فقیر اللّٰہ صاحب کو 1122 کے اعزازی خطاب سے نوازا جو کہ آج گلگت بلتستان میں مقبول و مشہور ہے اس وقت فورس کمانڈر گلگت بلتستان احسان محمود صاحب نے کہا کہ آج سے دیامر میں تعلیمی انقلاب کا آغاز ہو گیا ہے۔
اس اعزازی خطاب 1122 کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن دیامر کی نئی حکمت عملی کے تحت ضلع دیامر میں ایف سی این اے اور فورس کمانڈر گلگت بلتستان احسان محمود صاحب کی زیر انتظام تعلیمی جرگوں کا انعقاد عمل لایا گیا جس کے بعد ضلع دیامر میں اب تک 21 تعلیمی جرگوں کا انعقاد کیا گیا ہے  ان تعلیمی جرگوں کے نتیجے میں ضلع دیامر کے 512 غریب بچے پاکستان آرمی کے زیر انتظام ملک کے دیگر شہروں میں آرمی پبلک اسکول میں بلکل فری تعلیم حاصل کررہے ہیں ان تمام تعلیمی جرگوں کو کامیاب بنانے کا کریڈٹ بھی اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن دیامر اور موجودہ ڈاریکٹر ایجوکیشن دیامر استور فقیر اللّٰہ صاحب عرف 1122 کو جاتا ہے، صرف یہ نہیں کہ موصوف نے نہ صرف جلائے گئے سکولوں کو فنگشنل کرایا ہے بلکہ ان تمام سکولوں میں پاکستان آرمی ایف سی این اے کے زیر انتظام 50 استاتذہ کی تقریری بھی عمل میں لائی گئی۔
 اس کے بعد موصوف نے کم وقت میں سیپ اساتذہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں اپنی ملازمت میں مستقل کرانے میں بھی کردار ادا کیا ہے اس تمام تر حکمت عملی کے بعد آج ضلع دیامر میں کسی حد تک تعلیمی انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے، اس کے علاوہ موصوف نے اپنے دور میں ہی 50 گرلز ہوم سکولوں کو فنگشنل کرانے میں کامیاب ہوا ہے ان ہوم سکولوں کے فنگشنل ہونے سے انشاء اللہ ضلع دیامر میں تعلیمی انقلاب بھرپا ہوگا، صرف یہی نہیں موصوف کو جب بھی کہیں سے کوئی بھی شکایت موصول ہوتی ہے تو موصوف اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر اس شکایت کو نمٹا کر دم لیتے ہیں چاہیے وہ شکایت اساتذہ کی پوسٹنگ کا ہو یا فیمیل ٹیچرز کی مسلسل غیر حاضری کا ہو اس لیے توموصوف اس وقت گلگت بلتستان میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 1122 کے نام سے جانے جاتے ہیں اور انھوں نے دیامر جیسے پسماندہ ضلعے میں صرف اور صرف اپنی کامیاب حکمت عملی اور اقدامات کی وجہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوا۔
اس تمام تر کامیاب حکمت عملی کی وجہ یہی ہے کہ موصوف ملنسار اور خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شعبے سے حد درجہ محبت کرتے ہیں اور اپنا فرض اور خدمت سمجھ کر تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہیں اگر ایسے آفیسرز کو مزید موقع دیا جائے تو نہ صرف ضلع دیامر بلکہ گلگت بلتستان میں تعلیمی انقلاب بھرپا کر دینگے۔
 مجھے امید بھی ہے اور خداوند کریم سے دعاگو ہوں کہ اللّٰہ پاک موصوف کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور خوشحال زندگی نصیب فرمائے آمین۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan