منی بجٹ: حقیقت اور افسانہ

تحریر :۔ ڈاکٹر عابد قیوم سلہر ی
بری خبر یہ ہے کہ فنانس (ضمنی) بل 2021 (منی بجٹ) میں سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کا خاتمہ قیمتوں میں اضافہ کرے گا لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ صرف سامان تعیش تک محدود رہے گا ۔ روزہ مرہ استعمال کی عام چیزیں اس اثر سے محفوظ رہیں گی اور بہت سے تبصرہ نگاروں کے دعوﺅں کے برعکس کوئی مہنگائی کا طوفان نہیں آئے گا ۔ اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ، میں آپ کو کچھ پس منظر بتا تا ہوں ، دنیا کی زیادہ تر معیشتوں میں سامان اور خدمات کی سپلائی کے ہر مرحلے پر یکساں شرح پر ایک کثیر مرحلہ ٹیکس لگایا جاتا ہے ، جس میں سپلائی چین کے ابتدائی مراحل میں ادا کیا گیا ٹیکس اگلے مرحلوں میں یا تو واپس مل جاتا ہے یا پھر اگلے واجب الدا ٹیکس میں ایڈجسٹ ہوجاتا ہے ۔ ریونیو اکٹھا کرنے کے علاوہ اس طرح کے کثیر المرحلہ ٹیکس میں معیشت کو دستاویز کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ سپلائی چین کے مختلف مرحلوں میں سامان یا خدمات فراہم کرنے والے ادارے تبھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اگر وہ اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کریں ۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اسی کی دہائی کے اواخر سے معیشت کے غیر دستاویزی شعبوں کو دستاویز کر نے اور ٹیکس نیٹ کو وسع کرنے کے لیے ایسے ٹیکس متعارف کرانے کی کوشش کی ہے ۔ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء(STA)کے تحت سیلز ٹیکس ایکٹ ، 1951ءکی جگہ ایک جنرل ٹیکس (جی ایس ٹی ) متعارف کرایا گیا تھا ۔ اس وقت مختلف شعبوں کے لیے ان کی اقتصادی ترجیحات اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جی ایس ٹی کی مختلف شرحوں کی اجازت تھی ۔ کچھ سیکٹر کو زیرو ریٹ کیا گیا تھا (مطلب کہ سامان پر کوئی آﺅٹ پٹ ٹیکس نہیں ہے لیکن ان پٹ ٹیکس فراہم کنندہ کو واپس کیا جاتا تھا )، جبکہ دیگر کو کم شرح سے چارج کیا گیا تھا اور دیگر کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا ۔(جو آﺅٹ پٹ ٹیکس مستثنیٰ ہے جبکہ ان پٹ ٹیکس قابل واپسی نہیں تھا )۔اس عمل سے بے ضابطگیاں اور بگاڑ پیدا ہوا اور رقم کی واپسی کو ایک بوجھل عمل میں بدل دیا ۔ ا ن تحریفات کو دور کرنے کے لیے ، 12-2011میں پی پی پی کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)پروگرام کے مشورے پر ، ایک اصلاح شدہ GST(RGST)نظام متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور IMFپروگرام کو قبل ازوقت ختم کرنا پڑا ۔دس سال گزرنے کے بعد ، موجودہ حکومت نے ، اگر چہ آئی ایم ایف کے مشورے پر لیکن ایک درست قدم اٹھایا ۔چنانچہ تجویز کیا گیا کہ قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد سیلز ٹیکس کے بگاڑ کی اصلاح کے لیے اس پر سے تمام استثنیٰ واپس لے لیے جائیں اور ہر چیز پر یکساں شرح سے سیلز ٹیکس لگایا جائے جوکہ قابل واپسی یا ایڈجسٹ ہوسکتا ہو ۔ اس امر سے نہ صرف مندرجہ بالا رعایات کے غلط استعمال کا سد باب ہوگا بلکہ معیشت کے غیر دستاویزی شعبوں کو دستاویز ی بنانے میں بھی مدد ملے گی ۔ روزمرہ استعمال کی جانے والی ضروری اشیائے خوردونوش جیسے کہ گندم ، گندم کا آٹا ، گندم کی چوکر ، چاول ، سبزیاں ، پھل ، دالیں ، تازہ مرغی ، مچھلی ، گوشت ، تازہ دودھ وغیر جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رہیں گی ۔ اسی طرح تعلیمی کتابیں اور سٹیشنری کی اشیائ، کمپیوٹر ا ور لیپ ٹاپ کے درآمدی پرزہ جات اور خصوصی اقتصادی زونز کے لیے درآمد شدہ پلانٹ اور مشینری، زرعی ٹریکٹر ، کھاد ، کھاد کے شعبے کے ان پٹ، کیڑے مار ادویات استعال شدہ کپڑے ، جوتے اور سنیماٹو گرافک آلات پر جی ایس ٹی کم شرح سے چارج کیا جاتا رہے گا ۔ منی بجٹ کا مالیاتی اثر 343 ارب روپے ہے جس میں فارما سیوٹیکل سیکٹر سے 160ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی ، مشینری سے 112 ارب روپے اور دیگر اشیاءسے 71ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی ۔ دواسازی اور مشینری پر جی ایس ٹی قابل واپسی یا ایڈجسٹ کروایا جاسکتا ہے لہذا خوردہ قیمت پر ان کا مجموعی اثر صفر ہوگا۔ عام تاثر کے برعکس ، اس سے درحقیقت دوا ﺅںکی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ پہلے دوائیں جی ایس ٹی سے مستثنیٰ تھیں اور اس لیے مینو فیکچر کی طرف سے ادا کردہ پیکنگ میٹریل اور یہ دیگر ان پٹ ٹیکس قابل واپسی نہ تھے ۔ منی بجٹ میں ادویات کو ” زیرو ریٹڈ“ کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیکنگ میٹریل اور دیگر پر عائد ان پٹ ٹیکس( 35ارب روپے کی مالیت ، جو صارفین ادا کررہے ہیں )اب قابل واپسی ہوجائے گی ۔ اسی طرح ، ادویات کی تیاری کے لیے درآمدی اجزاءپر
جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے لیکن یہ قابل واپسی ہوگا ۔ اس سیکٹر کو جی ایس ٹی نظام میں لانے سے دستاویز میں مدد ملے گی اور اس طرح 530بلین رو پے مالیت کی غیر دستاویزی سپلائی ٹیکس نیٹ میں آجائے گی ۔ ریونیو میں اضافے کے علاوہ یہ امر جعلی ادویات ، ٹیکس چوری اور چھوٹ کے غلط استعمال کو روکنے میں بھی مدد دے گا۔ ادویات کی طرح ، مشینری پر جی ایس ٹی کی چھوٹ بھی قابل واپسی ایڈجسٹ ایبل ہے اور صارفین کو متاثر نہیں کرتی ۔ دیگر اشیاءکودیکھیں تو 36بلین روپے کے سیلز ٹیکس کا استثنیٰ ان چیزوں سے واپس لیا گیا جن میں لگژری اشیاءجیسے کہ درآمد شدہ برانڈڈ گوشت ، مچھلی ، پولڑی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کے استعمال کنندگان عام طورپر بالائی یا اعلیٰ متوسط آمدنی والے ہوتے ہیں لیکن درمیانی آمدنی والے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں ۔ موخر الذکر کو ، لگژری آئمز پر قیمتوں میں اضافہ ضرور متاثر کرے گا ۔ اس کے علاوہ کاروباری سامان سے مزید 31 ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی ۔ ساتھ ہی ، حکومت کے زیر استعمال کاروباری سامان (جیسے سرکاری ہسپتال میں ) اور لوگوں کے زیر استعمال سامان پر سے 2.2 ارب روپے کی چھوٹ ختم کردی ہے ۔ استثنیٰ واپس لینے کے علاوہ ، ایف بی آر نے سولرسروسز پر ایڈوانس ٹیکس ، آن منی ( پریمیم) کی حوصلہ شکنی کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس اور غیر ملکی ٹی وی سیریلز ، ڈاراموں اور اشتہارات پر ایڈوانس ٹیکس لگایا ہے ۔ ایف بی آر نے 1000 cc سے زیادہ موٹر گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2.5جسے 10فیصد تک بڑھانے کی تجویز بھی دی ہے ۔ ایڈوانس ٹیکس حتمی ٹیکس ذمہ داری میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ، پری پیڈ فون سروسز استعمال کرنے والوں کو اپنا ایڈوانس ٹیکس ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگا ۔ منی بجٹ میں ایک قابل ستائش قدم بین لاقوامی سطح پر مروجہ طریقوں کے مطابق دستاویز ات کو فروغ دینے اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں شفافیت لانے کے لیے عالمی تقاضوں کے مطابق نظام متعارف کرانا ہے ۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001میں متعارف کرائے گئے رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (REIT)میں اب ذیلی کمپنیاں بنائی جاسکتی ہیں ۔ ان ذیلی کمپنیوں کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے ۔ بشرطیکہ منافع کا 90فیصد ٹرسٹیز REIT) میں سرمایہ کاری کاروں ) میں تقسیم کیا جائے ۔ منی بجٹ کے ذریعے ، ایف بی آر نے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ان افراد کی فہرست کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا اختیار طلب کیا جو پورا ٹیکس نہیں دیتے ۔ چنانچہ ان افراد کے ہر کیلنڈر مہینے کے دوران کھولے گئے یا دوبارہ نامزد کیے گئے کاروباری اکاوئنٹس کی تفصیلات لی جاسکتی ہیں ۔ اس ترمیم سے ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ سپلیمنٹری فنانس بل کے علاوہ ، حکومت نے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ءبھی متعارف کرایا ہے ۔ اس کا مقصد مروجہ عالمی طریقوں کے مطابق ، اسٹیٹ بینک (SBP)کو عملی اور انتظامی خودمختاری دنیا اور اس کے احتساب کو مضبوط بنانا ہے ۔ اگر چہ ، آئی ایم ایف کے مشورے پر سہی لیکن یہ درست سمت میں ایک اور قدم ہے ۔ ایک آزاد بورڈا سٹیٹ بینک کا انتظام کرے گاجس کے لیے بورڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ، گورنرز ، ڈپٹی گورنرز اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی اراکین کا تقرر صدر / حکومت پاکستان پانچ سال کی مدت کے لیے کریں گے ۔ (دوسری مدت کے لیے اہل )۔عدالتی فیصلوں کی رُو سے کسی سنگین بدانتظامی وجہ سے تقرری کرنے والی اتھارٹی کے ذریعے انہیں ہٹایا جاسکتا ہے ۔ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی اور مرکزی بینک کا مقصد مہنگائی کو کنٹرول کرنا ، مالی استحکام لانا اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرنا ہوگا ۔ اس بل کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت درمیانی مدت کی کی افراط زر کاٹارگٹ مقرر کرسکتی ہے ۔ (انفراط زرکی وضاحت کرنا ضروری ہوگا )۔ اسی طرح اہداف کی تکمیل نہ کرنے کے احتساب کے طریقہ کار کو پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہنگامی حالات میں قرض لینے کے لیے لچک فراہم کرنے کے لیے بالکل قرض نہ لینے کی شق کو تبدیل کیا جانا چاہیے ۔ (جبکہ ہنگامی حالات کی وضاحت بھی کردی جانے چاہیے ) ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ٹیکس میں چھوٹ سے ٹارگٹڈسبسڈیز کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ریفنڈ اور ایڈجسٹمنٹ کے بعد ، منی بجٹ کے ذریعے اکٹھے ہونے والے ریونیو سے 33 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈیز کے لیے مختص کیے گئے ہیں ، جس میں بچوں کے فارمولہ دودھ کے لیے 10.5بلین روپے ، (کپاس ، مکی ، دیگر ) بیجوں کے لیے 7.86بلین روپے اورپولٹری ، مویشیوں اور فش فیڈ کے خام مال اور تیاری کے لیے 6.1بلین روپے شامل ہیں ۔ بنولہ آئل کے لیے 5.1بلین روپے ، سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی کرنے والے سامان کے لیے 1.3بلین روپے ، زرعی آلات کے لیے 1 ارب روپے اور درآمدی لیب ٹاپ اور کمپیوٹرز کے لیے 400ملین روپے رکھے گئے ہیں ۔ یہ ٹارگٹڈسبسڈیز کتنی اچھی طرح سے تقسیم ہوتی ہیں ۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ۔ تاہم ، حکومت ٹیکس چوری کے اقدامات ختم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ سبسڈیز تیزی سے اور شفاف طریقے سے اہل افراد تک پہنچے ۔ ہمیں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی ترامیم کو محض اس لیے رد نہیں کردینا چاہیے کہ یہ آئی ایم ایف کے مشورے پر کی گئی ہیں ۔ ایک بات یقینی ہے پاکستان کو اپنی ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے معیشت کو ددستاویزی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ درحقیقت منی بجٹ کے اقدامات ہماری معیشت کو دستاویزی بنا سکتے ہیں ۔ آیئے انہیں ایک موقع دیں تاکہ ہمارے براہ راست ٹیکس ( جو امیروں پر لگتے ہیں ) بڑھ سکیں اور بالواسطہ ٹیکس ( جو کہ ہر ایک کو ادا کرنے پڑتے ہیں ) کم ہوسکیں ۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan