مہنگائی مقدربن گئی

تحریر رخسانہ اسد
میں ایک لائبریری گئی جس میں 1988 کا میگزین پڑھنے کاموقع ملا جس پر دال 20روپے کلوہونے پراحتجاج کی وجہ سے دوصفحے کی تحریر تھی میں نے سوچا اب ہم چپ کرکے 120روپے سے بھی اوپر لے لیتے ہیں مہنگائی پر آئے روز احتجاج بھی ہوتے ہیں میرے خیال میں2021 میں پیٹرول کی وجہ سے سب سے زیادہ احتجاج ہوئےاس لیے  پاکستانیوں کیلئے انتہائی مشکل سال  صرف پیٹرول نہیں مہنگائی  اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کی خوشیوں کو دکھوں میں گرہن لگائے رکھا۔ اور اب 2022 کے آغاز پر حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں عوام پر مہنگائی بم گرادیا ہے2022 کاآغاز بھی ہوچکااور پیٹرولیم مصنوعات کے مظاہرے دیکھ کر لگ رہاہے پھرپچھلے سال کو رپیٹ کیاجارہاہے۔ آئی ایم ایف کی شرط پر بنایا گیا منی بجٹ عوام کیلئے زہرکی طرح ہے ،تقریباً 144 سے زائد اشیاء پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے جن میں کھانے پینے کی اشیا،میڈیسن، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کاروں سمیت دیگراشیاشامل ہیں جس وجہ سے مہنگائی کا طوفان آنے کا ڈرہے ۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہے جس وجہ سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے اور خودکشیاں معمول بنتی جارہی ہیں اوپرسے بے روزگاری ڈیرے جمائے ہوئے ہے۔ اب منی بجٹ سے مہنگائی کا گراف مزید بلند ہو گا۔ کورونا کے بعد سے میاں بیوی کمارہے ہیں مگر گھر کا خرچ مشکل سے ہورہاہے اور آمدنیوں میں اضافہ کی کوئی نویدنہیں یہ اضافی بوجھ کیا گل کھلائے گا یہ وقت بتارہاہے اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
24 جولائی 2018 تک ہمارے حکمران اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند و بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی ، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ اورغریبوں کو ریلیف دینے کی باتیں کرتے تھے ۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے عوام کو صرف مایوس کیا ہے۔ کیونکہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کانام نہیںلے رہا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکانداری مشکل، تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے ایونٹ کیلئے لوگ روپے روپے کی بحث کرتے ہیں ۔ بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی،دالیں، سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے بھنور میں عوام کو بے یارومددگار چھوڑدیا ۔جب سے پاکستان وجود میں آیا تب سے ہر آنیوالا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جبکہ  ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور ہمیشہ خزانہ خالی سنائی دیتا ہے کا ۔
موجودہ حکمران کہتے تھے کہ ہم ماضی کے حکمرانوں سے اتنا قرض وصول کریں گے کہ ملک کا قرض بھی اترجائے گا اور ہمارا ملک چائینہ جاپان سے سعودی عرب سے بھی ترقی کرجائے گا مگراقتتدار میں آنے کے بعد عوام کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لئے ایک فیصد بھی عمل نہ کیا گیا۔ اور آج تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کرپشن ہورہی ہے ، میرٹ کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ موجودہ حکمران پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لیٹر زیادہ ہے، اور اب وہ عوام پر کوخود145کا پیٹرول دے رہے ہیں۔ عوام چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ اگر غریبوں کے زخموں پرمرہم کے بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پی پی اور مسلم لیگ ن کی حکومت توان سےبھی بہتر تھی۔ ہرآنے والی حکومت سے ہمیں صرف جھوٹے وعدے اور دعوے ملتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد ڈھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جبکہمزدور کے پاس کام نہیں کسان کے پاس کھاد نہیں یہاں تک کہ محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ موجقدہ حکمران ملک کے قرضے ختم کرنے کی باتیں اور باہرممالک سے لوگ نوکریوں کیکئے پاکستان آنے کے دعوے کرت تھے مگرگزشتہ ساڑھے تین سالوں میں مہنگائی نے کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن نہ تو ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی سرگرمیوں میں اتنا اضافہ ممکن بنایا گیا کہ عوام مہنگائی کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہو سکیں۔  ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ غریب اور متوسطہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے اپنے بڑھتے مسائل کی وجہ سے ناامیدی کی جانب بڑھ رہا ہے اب تک بے لگام مہنگائی کی نمک پاشی جاری ہے اور پتا نہیں یہ سلسلہ کب رکے گا یا ہمیشہ مہنگائی کی ہمارا مقدر ٹھہرے گی اگرحکومت اپنے بقیہ وقت اقتتدار میں مہنگائی پر کنٹرول کرلیں تو عوام کے چہرے پر مسکان آجائے۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan