معاشی وسائل کی کمی: کیا صحافت کی کشتی چل پائے گی؟

تحریر شیرین کریم
اس پروگرام کے لیے آفس کی طرف سے آپ کو کوئی سواری میسر نہیں ہوگی آپ نے خود ہی آنا بھی ہے اور جانا بھی۔ یہ بات سنتے ہی بشارت حسین پریشان ہوگیا کہ چند روپے جیب میں ہیں اور یہ کام کیسے ہوگا اور اس پروگرام میں کیسے پہنچا جائے گا؟
ٹھیک اسی طرح کیمرہ مین بھی آج دفتر سے غیر حاضر ہے ایک صحافی اس کا انتظار کر رہا ہے وہ دفتر پہنچے اور وہ دونوں جا کے ایک انٹرویو ریکارڈ کر آئیں۔ مگر بشارت حسین کو 15 ہزار تنخواہ میں اپنے خرچے پہ روزانہ دفتر پہنچنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
 صحافی علی احمد ہنزائی کا ڈیجیٹل مائیک خراب  ہے۔ اور ان کے کیمرے کی بیٹری بھی کوئی مسئلہ کر رہی ہے۔ علی احمد بھی اسی پریشانی میں مبتلا ہے کہ اس کے دفتر سے تو کوئی خاص مالی امداد نہیں ہوگی۔ اس کو نیا مائیک خریدنا ہے اور کیمرے کی بیٹری بھی تبدیل کروانی ہے۔
اب اگر یہ دونوں مسائل حل نہ ہوئے تو کیا علی کی صحافت ٹھیک طرح سے چل سکتی ہے ؟ بلکل بھی نہیں۔
گلگت بلتستان جوکہ ٹورزم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں پر دفاتر میں عملہ بھی تھوڑا رکھا جاتا ہے اور سازوسامان کی بھی قلت رہتی ہے۔ اور یہی حال شعبہ صحافت سے منسلک دفاتر کا ہے۔ ظاہر ہے گلگت بلتستان کوئی انڈسٹریل اسٹیٹ تو ہے نہیں اور نہ ہی باقی صوبوں کی طرح ترقی یافتہ ہے ۔ا سی وجہ سے یہاں پہ دفاتر کم بجٹ میں اپنی مدد آپ کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔
کہنے کو تو شعبہ صحافت کے دفاتر ہر ساز و سامان سے لیس ہیں مگر پھر بھی ایک صحافی کو ڈیجیٹل ایکوپمنٹس یا سازوسامان کی قلت محسوس ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے کام میں رکاوٹ آتی ہے اور یہ وسائل کی کمی صحافیوں کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔
صرف یہی نہیں کم تنخواہیں بھی صحافی کے لئے ایک مسئلہ بن چکی ہیں ۔ صحافی محتاب بیان کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہ تقریباً بیس ہزار ہے اور اخبار میں کام کرتے ہیں۔ اس صحافی کے مطابق محض بیس ہزار روپے میں پورے مہینے کا خرچہ اور گھر چلانا بہت مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صحافت تو پورے دل سے کرنا چاہتے ہیں مگر تنخواہ میں کمی کی وجہ سے ان کی روزمرہ اور گھریلو زندگی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خرچے کی کمی کی وجہ سے انہیں صحافت کے کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا ہے۔
 کم تنخواہ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور نیوز رپورٹر کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا اس کم تنخواہ میں گزارہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ وہ کافی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کبھی کبھی صحافت کا کام سہی سے انجام نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا کم تنخواہ میں اعلی اسٹینڈرڈ کی صحافت کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔
 یہاں یہ بات غور طلب ہے گلگت بلتستان میں کوئی بھی ٹی وی چینل نہیں بلکہ صحافیوں نے یو ٹیوب پر اپنی مدد آپ کے تحت نیوز چینل بنائے اور ان کو چلا رہے مگر پاکستان کے بڑے بڑے چینل کے رپورٹرز موجود ہیں، ان چینلز پے کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہیں بھی کافی کم ہے یہاں پر ایک نیوز ایڈیٹر اور نیوز رپورٹر کی تنخواہ کم و بیش 20 سے 25 ہزار ہوتی ہے۔ اب ذرا سوچئے سب ایڈیٹر اور فوٹو گرافر اس سے بھی کم تنخواہ لیتے ہونگے ۔ اب بھلا اس کم تنخواہ میں ان لوگوں گزر بسر کیسے ہو اور وہ کیسے کم خرچے میں اعلیٰ صحافت کریں
صحافی علی احمد کہتے ہیں کہ معاشی وسائل کی کمی کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں کئی لوگ صحافت کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں دفاتر میں جگہ بھی کم ہے اور ان کی تنخواہیں بھی بہت تھوڑی ہے جس کی وجہ سے ایک صحافی ایک یا دو سالوں میں ہی صحافت کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ جو لوگ صحافت کر رہے ہیں وہ بھی کافی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک تو کم تنخواہ میں ان کو گزارا کرنا پڑتا ہے، دوسرا صحافت سے وابستہ تمام ڈیجیٹل آلات ان کو اپنی ہی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔
  عام الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں ایک صحافی کو کم بجٹ میں اعلٰی سٹینڈرڈ اور جدید ڈیجیٹل آلات کے استعمال سے لیس صحافت کرنا پڑتی ہے۔
گلگت بلتستان کی خواتین صحافیوں سے جب اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو صحافی سیمہ نے ان الفاظ میں وسائل کی کمی کو بیان کیا کہ کے دفتر سے انہیں بہت کم مالی معاونت ملتی ہے۔ وہ اپنی تنخواہ سے صحافت کے کام سرانجام دیتے ہیں اور دوسری طرف روزمرہ کی زندگی میں ان کو کافی معاشی تنگی رہتی ہے۔سیمہ کا کہنا تھا کہ ہر روز ان کو اپنے خرچے سے ٹیکسی یا کسی سواری سے آفس آنا جانا پڑتا ہے اور پھر وہاں سے آگے کسی ایونٹ کی کوریج یا پروگرام کی شمولیت کے لیے بھی ان کو اپنی ہی جیب سے پیسے خرچ کر کے پہنچنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسی تکلیف ہے جس کے باعث ان کی صحافت بہت متاثر ہو رہی ہے ۔سیمہ نے مزید بتایا کہ ان کا دفتر ان کے ساتھ پورا تعاون کرتا ہے مگر ان کے دفتر کے بھی وسائل کم ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں کس سے شکایت کی جائے ۔ انہوں نے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ کئی دفعہ ان کو خیال آتا ہے کہ وہ صحافت کو خیر باد کرکے کوئی اور کام شروع کریں کیونکہ اتنی تنخواہ میں یا تو صحافت سہی سے چلتی ہے یا ان کا گھر۔ صحافی سیما نے کہا کہ معاشی وسائل میں کمی کے باعث کافی خواتین صحافی شعبہ صحافت کو چھوڑ دیتی ہیں۔ ایک تو دفتر آنے جانے کے کرائے ان کی پہنچ سے دور ہیں اور دوسرا وہ جدید دور کے مہنگے ڈیجیٹل آلات کو نہیں خرید سکتیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان کو دفتر سے تنخواہ تو ملتی ہے مگر اس تنخواہ میں وہ صحافت کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دے سکتیں۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ایک صحافی کو دن میں کئی جگوں پر آنا جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے خرچے حد سے باہر ہو جاتے ہیں ۔
 ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دفاتر کے مالکان سے جب اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ وسائل کی کمی تو صحافیوں کے لیے ایک خطرہ ہے ۔اس کا جواب انہوں نے یوں دیا: گلگت بلتستان میں ایک ٹی وی چینل چلانا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ وسائل کی تنگی تو ان کو ہر لمحہ رہتی ہے مگر اسی کم وسائل میں ہی انہوں نے اپنے ٹی وی چینل یا اخبار کو چلانا ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں انڈسٹریل سیٹ اپ کی کمی ہونے کی وجہ سے اشتہاراتی کمپنیاں بھی ان سے کم رابطہ کرتی ہیں ۔ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے ان کی معاشی حالت کمزور رہتی ہے اور اور یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی تنخواہیں بھی کم رکھنی پڑتی ہیں اور باقی اخراجات بھی صحافیوں کو خود برداشت کرنا ہوتے ہیں۔
سینئر صحافی علینہ نے خوشی کا اظہار کیا کہ کسی نے اس مسئلہ کو اٹھایا ہے ۔ان کے مطابق وسائل کی کمی بھی صحافیوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ اور چیلنج بن چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں ایک صحافی کو سکیورٹی کے بہت مسئلے رہتے ہیں وہاں ان کو معاشی سکیورٹی بھی بہت پریشان کرتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب وسائل کی کمی ہوگی تو صحافی بہتر طریقے سے صحافت کا کام سرانجام نہیں دے پائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے دفاتر بہت ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ صحافیوں کے معاشی مسائل کو کم کریں مگر افسوس ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے صحافی کی صحافت کی معاشی ضرورتوں کو حل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کو کئی معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے مگر پھر بھی وہ صحافت کے کام سرانجام دے رہی ہیں اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی آواز پاکستان بھر میں پہنچا رہی ہیں۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ایک صحافی کے باقی مسئلے تو سب کو نظر آتے ہیں مگر معاشی وسائل کی کمی کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر صحافی معاشی تنگی میں گرفتار رہے گا تو وہ صحافت کو ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پائے گا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی جہاں دنیا بھر کے صحافی جدید ڈیجیٹل آلات کے ذریعہ صحافت کا کام سرانجام دیتے ہیں وہاں گلگت بلتستان کے صحافی ان جدید ڈیجیٹل آلات سے محروم ہیں اور وہ اپنی صحافت موبائل کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہاں کے صحافیوں کی تنخواہیں بھی کافی کم ہیں جس کے باعث ان کی روز مرہ کی زندگی بھی تنگ رہتی ہے اور آفس جانے میں بھی کئی تکالیف کا سامنا ہے۔
نائب صدر گلگت پریس کلب امتیاز سلطان نے کہا کہ
گلگت بلتستان کے صحافی لامحدود مسائل و مشکلات کے باجود ملک کے دیگر صوبوں کے صحافیوں کی نسبت بہتر انداز میں اپنی صحافتی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں
یہ کہ آج تک ملک میں پاس ہونے والے کسی بھی ویج ایوارڈ کا اطلاق ابھی تک گلگت بلتستان میں نہیں ہوا ہے جسے حکومتی بے حسی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مالکان ان سے وابستہ صحافیوں اور ورکروں کو بہت ہی قلیل تنخواہ ادا کرتے ہیں اور وہ بھی کئی کئی مہینے بعد ۔
 جب وسائل کی کمی کے بارے میں دریافت کیا گیا امتیاز کا موقف تھا یہ ایک حقیقت ہے کم وسائل کی وجہ سے گلگت بلتستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہے ایک تو صحافیوں کی تنخواہ کم ہوتی ہے دوسرا ان کو خط کے لیے سامان بھی میسر نہیں ہوتاان کا کہنا تھا گلگت شہر سے اخبار شائع ہوتے ہیں مگر سب کے سب معاشی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اس کی وجہ سے ساتھیوں کی تنخواہیں بھی کم رکھی جاتی ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ معاشی مشکل بھی ہو اور صحافت بھی اعلی ہو یہ کیسے ممکن ہے ؟
گلگت بلتستان کے صحافیوں سے جب ایک عام رائے لی گئی کہ ان کو صحافت میں کس چیلنجز کا سامنا ہے؟ تو حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے 90% صحافیوں نے وسائل کی کمی کو ہی سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ۔ ان کے مطابق اگر وسائل کی کمی نہ ہو تو وہ بہتر انداز میں صحافت کو سرانجام دے پائیں ۔ مگر افسوس و سائل کی تنگی کے باعث نہ وہ دور دراز کے علاقوں میں جا سکتے ہیں نہ وہاں کے لوگوں کے مسائل کی آواز بن سکتے ہیں۔ ایک صحافی نے اپنی رائے اس طرح دی ان کو صحافت میں نہ دھمکیوں سے ڈر لگتا ہے نہ سچ بولنے سے مگر معاشی وسائل کی کمی ان کو کمزور کر رہی ہے۔
یہاں پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر صحافی وسائل کی کمی کی جنگ لڑتا رہے گا تو صحافت کرنا تو بہت مشکل ہو جائے گا۔
مرد اور خواتین صحافیوں کے تنخواہوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ تمام صحافیوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
تو ایسی صورتحال میں صحافیوں کے لیے بہتر تنخواہ اور جدید ڈیجیٹل آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو صحافت گلگت بلتستان میں اپنی اصل قوت کو ظاہر کرے گی اور ان علاقے کے لوگوں کی آواز کو بھی نمایاں کرے گی جہاں پر جانا ممکن نہیں۔ تو اب وقت ہے کہ صحافیوں کو معاشی وسائل کی تنگی سے بچایا جائے اور ان کے دفاتر کے وسائل کو بھی بڑھایا جائے ۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan