نقصان دہ سماجی رویے اور اُن کے نقصانات

تحریر:ظہور احمد ظریف خیل
سماج افراد کا ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جن کے ایک دوسرے سے قریبی روابط اور اکٹھ ہو اور ضروری نہیں ہے کہ یہ لوگ کسی ایک خا ص مذہب یا قوم سے وابستہ ہوں۔
سماجی رویے کسی بھی معاشرے کے اقدار (Values)کا درجہ رکھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ اُس معاشرے کی طاقت (Strength)ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات معاشرے کے کچھ رویے نہ صرف منفی اقدار کا درجہ اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ وہ معاشرے کی طاقت کے بجائے کمزوری (Weakniss)پر دال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے کا سنجیدہ،بروباد، باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ ایسے رویوں کو نہ صرف یہ کہ اختیار نہیں کرتے بلکہ ایسے رویوں کے خلاف وقتاً فوقتاً آوازبھی بلند کرتے رہتے ہیں۔
ترقی پسند (Progressive)معاشرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر موجود منفی رویوں کو مثبت رویوں میں بدلنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔اور یہ عمل بعض اوقات دانستہ اور بعض اوقات غیردانستہ شکل میں چلتا رہتا ہے۔لیکن اگر کسی مثالی معاشرہ (Ideal Society)کا تصور کیا جائے تو شائد وہاں صورت حال دانستہ والی زیادہ ہوگی اور ہونا بھی یہ چاہیے کہ انفرادی ذہن کے ساتھ ساتھ اجتماعی سوچ کے دھارے کو بھی مسلسل بہتر سے بہتر اور فائدہ مند رویے کی طرف رخ دیا جائے۔ان تبدیلیوں کو بعض اوقات اُس ریاست کے قوانین بھی رخ دیتے ہیں جیسے کہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ جب کسی ملک میں کسی ایسے نقصان دہ عمل (Harmful Practices)کے خلاف قانون سازی ہوتی ہے جو کہ پہلے وقتوں میں قابل قبول یاموجود تھی تو اُس کی وجہ سے وہ سوچ تبدیل ہوجاتی ہے۔اس کی ایک مثال تعلیمی اداروں میں خصوصاًاور عام زندگی میں عموماًجسمانی سزا(Corporal Punishment)کا قانون اور پالیسی ہے۔پہلے وقتوں میں تعلیمی اداروں اور عام زندگی میں بچوں کو مارنا پیٹنا نہ صرف قابل قبول تھا بلکہ اس عمل کو بچے کی تربیت کیلئے ضروری سمجھا جاتا تھا اور یہ ہمارے معاشرے کا ایک راسخ شدہ رویہ تھا۔لیکن اب ریسرچ اور تحقیق کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی(Child Proteceion and Welfare Act 2010) کی وجہ سے اب اس عمل کو بُرا سمجھا جاتا ہے اور اس کے خلاف نہ صرف آواز اُٹھائی جاتی ہے۔بلکہ اس عمل پر والدین اور ریاستی اداروں کی طرف سے سخت درعمل سامنے آتا ہے۔
منفی سماجی رویوں میں سے ایک رویہ بچپن یا کم عمری کی شادی بھی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی کئی حوالوں سے موجود ہے۔لڑکا اور لڑکی کی شادی کیلئے ایک طرف اسلامی احکامات موجود ہیں جن پر بحثیت مسلمان ہم پر عمل کرنا فرض ہے اور دوسری طرف ملک میں ایک قانون بھی موجود ہے جس کی پاسداری ہماری آئینی وقانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔اسلامی حکم کو اگر دیکھاجائے تو اُس میں عمر کوئی خاص تعین نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ لڑکا اور لڑکی عاقل اور بالغ ہو. یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہوں گے کہ پاگل یعنی ذہنی معذور کی شادی نہیں کی جاتی اب رہ گئی بالغ کی بات تو بلوغت کی کوئی خا ص عمر کا تعین نہیں کیا جاسکتا اور دوسرا یہ کہ بلوغت کی عمر مختلف ممالک اور علاقوں میں مختلف ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا مذہبی نکتہ ہے کہ جس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ رہ گئی قانون کی بات تو ہمارے ملک میں چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ (Child Marriage Restraion Act 1929)نافذالعمل ہے جس کی روسے 16سال سے کم عمر لڑکی اور 18سال سے کم عمر لڑکے کی شادی غیر قانونی ہے اور قانون شکنی کی صورت میں 1929؁ء کے دورکے مطابق ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ قید ہے۔کم عمری کی شادی کا مطلب بچپن کی شادی ہے یعنی ایک ایسی عمر جس میں وہ فرد خود بچہ یا بچی ہوتا ہے۔
اب اگر بچے کی تعریف کو دیکھاجائے تو اس حوالے سے ایک بین الاقوامی معاہدہ موجود ہے۔وہ ہے حقوق اطفال کا بین الاقوامی معاہدہ
(United Nation Convention of On the Rights of The Child) (UNCRC)۔یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ جس پر دنیا کے تمام ممالک بشمول مسلمان ممالک نے دس سال سے بحث وتمحیص کی اور طویل عرصہ گفت دشنیدکے بعد کا فی حد تک ایک متفقہ اور قابل قبول معاہدہ سامنے آیا۔پاکستان اُن دس پہلے ممالک میں شامل تھا جس نے نہ صرف اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں بلکہ اس کی توثیق (Retification)بھی کی ہے۔اس معاہدے کی روسے بچہ ہر اُس فرد کو کہا جائے گا جس کی عمر18سال سے کم ہو۔کم عمری کی شادی کے حوالے سے ایک نیا بل بھی ڈرافٹ ہوچکا ہے۔جو کہ صوبائی بل ہے لیکن اس بل پر کابینہ اراکین کے کچھ تحفظات ہیں جس کی وجہ سے یہ ابھی التواء میں ہے اور جس کے اسمبلی میں پیش ہونے اور پاس ہونے کی صورت میں صوبے کا کم عمری کی شادی کے حوالے سے اپنا ایک قانون بن جائے گا۔
بہر حال ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے مروجہ رویے اور سوچ کوبدلاجائے۔اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں چندفرضی باتیں (Myth)اور ایک خاص سوچ کارفرما ہے۔یہ کہ لڑکی ایک بوجھ ہے اس سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔چھوٹی عمری میں شادی کردونا کہ مستقبل میں بدنامی کے مسئلے سے جان چھوٹ جائے۔سمجھ بوجھ آجانے پر لڑکے اور لڑکی کو بیاہ دو تاکہ اپنی ذمہ داری کا احساس ہوجائے۔ بروقت شادی کردونا تاکہ ان کی ذمہ دایوں سے جان چھوٹ جائے بچوں کی شادی والدین پر ایک بھاری ذمہ داری ہے اس سے جتنا جلد جان چھڑائی جاسکے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس سلسلے میں نہ بچے یا بچی کی تعلیم کا خیال رکھاجاتا ہے۔نہ اُن کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے نہ ہی اُن پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے بوجھ کا ادراک کیا جاتا ہے اور نہ ان کے مستقبل کی زندگی پر اس کے پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔بلکہ ایک خاص سوچ کو مذہبی ذمہ داری کا تڑکا لگا کر اس کام سے عہدہ بر آہونے کو عین سماجی اور مذہبی فریضہ سمجھاجاتا ہے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ ارتقائی مراحل طے کرنے والے ترقی پسند(Progessive)معاشرے نقصان دہ اور غیرہ سنجیدہ رویوں میں تبدیل کے عمل کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرتی زندگی میں سرایت شدہ اس رویے کو بھی تبدیلی کے عمل سے گزار اجائے آج تعلیم کی افادیت جتنی ہمارے معاشرے میں ضروری سمجھی جاتی ہے۔شائد پچھلے وقتوں میں اتنی بلکل نہیں تھی۔ آج ہم لوگ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کا جتنا خیال رکھتے ہیں ماضی میں ایسا نہیں تھا۔آج کے اس تیز ترین دور میں ہم لوگوں نے شعور کی جو سیڑھیاں عبور کی ہیں اور جس مقام پر کھڑے ہیں ماضی بعید وقریب میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔آج نئی نسل میں ہر لحاظ سے مقابلے کا جو رحجان اور سوچ ہے پہلے ایسا قطعاً نہیں تھا تو ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے ہمیں ماضی کے بعض رویوں کوبھی اپنی سوچوں سے نکالنا ہوگا جس میں ایک اہم رویہ کم عمری کی شادی ہے۔ہمیں اپنے بچوں اور اپنے متعلقین کے بچوں کو تعلیم دلوانی ہے اُن کی صحت کا سوچنا ہے اُن کو شعور کی منزل تک پہنچانا ہے۔اور مقابلے کے اس دور میں اپنی اولاد کو اچھے مقام پرکھڑا کرنا ہے۔ اور یہ سب تب ممکن ہو گا جب ملکی قوانین کے ساتھ ساتھ مثبت رویوں کو سماجی سطح پر نہ صرف رواج دیا جائے اور منفی رویوں کو تبدیل بھی کیا جائے۔اگر ایک مثالی معاشرے کے خد وخال دیکھے جائیں تو وہاں قانون کے حرکت میں آنے کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے بلکہ معاشرے کے باشعور افراد اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کے احساس اور شعور کے تحت اجتماعی سوچ اور رویوں کو منفی سے مثبت کی طرف لے جاتے ہیں اور ملک کے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اصل چیز سوچ ہے سوچ بدلے گی تو عمل میں بھی بہتری آئے گی اور سوچ بدلنے کیلئے اجتماعی رویوں میں بہترین تبدیلی ضروری ہے۔
ظہور احمد ظریف خیل
goldcharsadda@gmail.com

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan