سوشل میڈیا پوسٹ پر دھمکیاں/ نفرت آمیز کمنٹس صحافیوں کے لیے ایک خطرہ۔

تحریر شیرین کریم
ایک رات جب صحافی ارسلان نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا تو وہاں ان کی پوسٹ پہ کمنٹس میں کچھ نفرت آمیز الفاظ تھے ۔ یہ کمنٹس پڑتے ہیں ارسلان کے ہوش اڑ گئے اور اس نے کچھ ہی تبصروں کا جواب دینا مناسب سمجھا۔ ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ ان کو ان باکس میسج میں طرح طرح کی دھمکیاں آنے لگی۔ یہ معاملہ ارسلان کی زندگی میں عام ہے۔ ان کو ان کی پوسٹ پہ سینکڑوں ہیٹ کامنٹس اور کئی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔ جب ان دھمکیوں کا موضوع گھر والوں تک چلا جائے گھر اور نفرت آمیز تبصرے نہ روکیں تو ارسلان کو اپنی پوسٹ ہی سوشل میڈیا سے ہٹانا پڑتی ہے صحافی کی زندگی میں ایسی رکاوٹیں نہ گزیر ہیں
فیروز جو کے غزر کے صحافی ہیں وہ اس بات سے سہمت ہیں ان کو بھی ان کی پوسٹ پر کمنٹس میں کئی دھمکیاں ملتی ہیں اور گالی گلوچ تو عام ہیں لیکن دھمکیاں بڑی ہی سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہیں۔دھمکیوں میں کہیں مار ڈالنے کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں اغوا ہونے کا۔ اس ڈر سے صحافی ہر روز گذرتے ہیں کہ ان کی سوشل میڈیا پر پوسٹ ان کے لیے جان کا وبال نہ بن جائے ۔ مگر جان تو ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے۔ اپنی جان کے ڈر سے وہ پوسٹ سوشل میڈیا سے ہٹانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ارسلان کا مزید کہنا تھا کہ بعض دفعہ کمنٹس ایسے ہوتے ہیں کہ پڑھ کے ہی سو سو خیال آنے لگتے ہیں۔ صحافی کے کام کو سرہانہ نہ تو دور یہاں تو دھمکیوں سے بھرے الفاظات ہی ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک حقیقت پر مبنی خبر نشر کی تھی۔ اس پوسٹ کو ڈالتے ہی ان کو طرح طرح کے کمنٹس سننے کو ملے۔ ان کو میسج کرکے لوگوں نے کئی دھمکیاں دیں یہاں تک کہ ان کو واٹس ایپ نمبر پر بھی دھمکیاں موصول ہوئی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے کچھ گھنٹوں بعد اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ان کئی دن کی محنت کے بعد یہ سچ سب کے سامنے لایا گیا مگر لوگوں کے تلخ رویے اور دھمکیوں کی وجہ سے ان کو یہ بات سوشل میڈیا سے ہٹانی پڑی۔ اگر صحافیوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھرتا گیا تو وہ کیا سچائی کو سب کے سامنے لا پائیں گے؟ کیا ان کو کسی ڈر کی فکر نہیں ہوگی؟ ضرور ڈر کی فکر ہوگی اور اسی ڈر کی وجہ سے صحافیوں کا کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
صحافی شہزاد  نے اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ کسی فیس بک پر ان کے ہزاروں فالوورز ہیں اور ان کی پوسٹ پر اچھے کمنٹس بھی آتے ہیں مگر انہیں کمنٹس کے ساتھ ان کو جان کی دھمکی بھی موصول ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کو ان کی پوسٹ ناگزیر گزرتی ہے اس لیے وہاں طرح کے ہیٹ کمنٹس کرتے ہیں ۔شہزاد نے بتایا کہ ہیٹ کمنٹس تو پھر بھی قابل برداشت ہیں کیونکہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں مگر لوگوں کو یہ حق بالکل نہیں کہ وہ ایک صحافی کو جان ومال کی دھمکیاں دیں۔ شہزاد نے بڑے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ ایک دفعہ ایک بندے نے تو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ جس کی وجہ سے وہ پولیس کی مدد لینے پر مجبور ہوگئے ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں ایک صحافی اپنے کام پر توجہ دیں یا جان و مال کی حفاظت کرے ۔
اب اگر بات کی جائے خواتین صحافیوں کی تو وہ بھی ہیٹ کمنٹس اور دھمکیوں کا شکار ہیں۔ صحافی سیما کہتی ہیں کہ بعض دفعہ ان کے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر وہ کسی پوسٹ کو سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں تو لوگ کیسے کیسے تبصرے پیش کریں گے۔ انہیں کمنٹس کے ڈر سے ان کو سوچ سمجھ کے پوسٹ کرنا پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے پوسٹ لگائی تو ان کی پوسٹ پر بہت عجیب سے اور غیر اخلاقی کمنٹس آئے۔ اور اگر ان کا منٹس کا ڈٹ کر جواب دیا جائے تو پھر کچھ ہی لمحوں میں یہ کمنٹس دھمکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سیما کا کہنا تھا کہ ان کی پوسٹ کسی خاص مقصد یا سماجی ترقی کے لیے ہوتی ہے مگر لوگ اس کو غلط ضمرہ میں لے کے گالی گلوچ اور نفرت آمیز تبصرہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا کام بہت متاثر ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ افراد جب کمنٹس میں ڈرانے دھمکانے سے تھک جائیں تو وہ روز مرہ کی زندگی میں ان کو تنگ کرتے ہیں۔ اس سب کی وجہ سے ان کے معمول کے کام اور گھریلو زندگی بہت متاثر ہوتی ہے۔
  جب صحافی کرن سے ان کی رائے پوچھی گئی انہوں نے یہ کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی کہانیاں پوسٹ کرتی ہیں مگر لوگوں کے نفرت آمیز کمنٹس ان کی ساری محنت کو ضائع کر دیتے ہیں۔ کا مزید کہنا تھا کہ بعض دفعہ ان کی سوشل میڈیا پوسٹ پر لوگ ان کو ان کے آفس میں آکے بھی ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ تو سماجی بھلائی کے لئے یہ پوسٹ لگاتی ہیں تاکہ معاشرے میں ترقی آئے اور لوگوں کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو ۔مگر کچھ شرپسند عناصر یہ ہونے نہیں دیتے۔ان کا کام صرف نفرت آمیز کمنٹس کرنا اور صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے صحافیوں کا کام متاثر ہورہا ہے اور لوگوں کے حق کی آواز بھی دبتی جا رہی ہے۔
سینئر صحافی امتیاز نفرت آمیز تبصروں سے بہت ہی زیادہ تنگ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیٹ کمنٹس کی وجہ سے انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا نا کم کی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کہانی کو اخبار میں شائع کرائیں۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک کہانی لگائی جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کے غریب طبقے کو اٹھانے تجویز پیش کی تھی کہ کیسے ہم ایک غریب فرد کو روزگار مہیا کر سکتے ہیں اور اس کی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس کہانی پر ان کو ایسے ایسے کمنٹس پڑھنے کو ملے جو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کچھ لوگوں نے ان کو این جی او کا ایجنٹ قرار دیا اور کچھ لوگوں نے ان کو بیمانی کا سرٹیفکیٹ دے دیا کہ یہ سب پیسہ ہرپنے کی چیزیں ہیں۔ ان کو تنقید کا نشانہ ۔ جب انہوں نے کچھ لوگوں کو جواب دینے کی کوشش کی تو بہت سے لوگ ان کو دھمکیاں دینا شروع ہوگئے۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر صحافی کو اس قسم کا رویہ دیکھنے کو ملے گا تو وہ صحافت کا کام دل سے کیسے انجام دے گا۔ اور جب بات دھمکیوں تک پہنچ جائے تو ایک صحافی کیسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں سکون سے رہ سکتا ہے۔صحافیوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان ہیٹ کمنٹس اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ کئی کئی روز بہت پریشان رہتے ہیں۔
گلگت پریس کلب کے صدر خورشید احمد سے جب ہیٹ کمنٹس کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیسے یہ صحافی کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں تو انہوں نے ایک آسان مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ عام لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ صحافی کے سوشل میڈیا پوسٹ پے نفرت آمیز کمنٹس کریں۔ مگر ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ صحافی کتنی محنت کرکے ان کی زندگی آسان بنانے کے لئے یہ پوسٹ لگا رہا ہے۔ کاش ایسا ہو جائے کہ یہ لوگ اس صحافی کو اپنی آواز سمجھیں اور یہ خیال کریں کہ یہ صحافی ان کے زندگی یہ مسئلے مسائل کی آواز بن کے دوسروں تک پہنچا رہا ہے۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا لوگ ایک صافی کی پوسٹ سے نفرت آمیز تبصرہ کرکے اس کو خاموش کروا دیتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مدنظر سوشل میڈیا عام عوام تک پہنچنے کا اچھا ذریعہ ہے اسی وجہ سے صحافی اپنی پوسٹ سوشل میڈیا پر لگاتے ہیں۔درحقیقت یہ پوسٹ لوگوں کی آواز کی نمائندگی کرتا ہے مگر نفرت آمیز کمنٹس صحافیوں کے لیے مشکلات لاتے ہیں۔
جب سوشل میڈیا ایکسپرٹس سے ان کی رائے لی گئی کہ آخر اس کا کیا حل ہے؟ زیشان  نے بتایا کہ نفرت آمیز کمنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن کافی عرصے سے چل رہا ہے فیس بک ،ٹویٹر اور باقی سوشل میڈیا ایپس بنانے والوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نفرت آمیز کمنٹس یا دھمکیوں کو فلٹر کرکے ان کو ڈیلیٹ کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کے پی ٹی اے نے کافی سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ جس میں ایک کمپلین سیل بنایا ہے جو کہ نفرت آمیز کمینٹس پر فوری ایکشن لیتا ہے۔ اول تو نفرت آمیز کمنٹس آٹو ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کو فلٹر کرنے کے بعد ڈیلیٹ کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اتنے اقدامات اٹھانے کے باوجود نفرت آمیز کمنٹس اور دھمکیاں صحافیوں کے لیے مصیبت کا پہاڑ بنتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ہر صحافی پریشان رہتا ہے اور اس کا کام متاثر ہو رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح ہی چلتا رہا تو شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی جان کے ڈر سے صحافت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بس اب اس چیز کی ضرورت ہے کہ صحافی تو عوام کی آواز ہوتے ہیں تو ان کے کام کو سراہا جائے اور یہ حق بھی ہر کسی کو حاصل ہے کہ کہ وہ ان کے کام کی اچھائی اور برائی کی نشاندہی کریں۔مگر یہ ایک غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہے کہ وہ صحافی کو نفرت آمیز کمنٹس اور دھمکیوں کا نشانہ بنائیں۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan