مرکزی میڈیا کے در بند تو ڈیجیٹل دنیا نے خواتین صحافیوں کے لئے نئی راہیں ہموار کی ہیں۔

تحریر شیرین کریم
اکثر یہ الفاظ خبروں میں اور گفتگو کی محفلوں میں سننے کو ملتے ہیں کہ دنیا ڈیجیٹلائز ہو گئی ہے، آج کل ڈیجیٹل دور ہے، یا پھر یہ کہ دنیا تو آن لائن ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ٹھیک اسی طرح جب دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھتی جا رہی ہے تو ڈیجیٹل میڈیا کا بھی بول بالا ہے۔
اس بات کو ہر عام و خاص تسلیم کرے گا کے سوشل میڈیا کے قدم رکھتے ہی پوری صحافت ہی بدل چکی ہے۔
  ڈیجیٹل میڈیا ایک جادوگر جیسی صفت رکھتا ہے۔ کیونکہ
 ایک خبر کو کچھ ہی سال پہلے عوام تک پہنچانے کے لیے بیسوں گھنٹے اور کئی دن درکار ہوتے تھے مگر اب تو یہ ایک جادو جیسا ہی لگتا ہے۔ بس ایک خبر چند ہی سکینٹوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔
جب سے دنیا ڈیجیٹل ہوئی ہے تو اب اخبارات اور ریڈیو کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے قدم رکھتے ہیں ذرائع مواصلات کا ذریعہ موبائل فون بن گیا اور اس نے تمام ذرائعوں کی جگہ لے لی ہے ۔ بس چند ہی لمحوں میں موبائل سے سوشل میڈیا پر جائیں اور دنیا بھر کی خبروں سے واقف ہو جائیں۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی تو آسان ہو گئی مگر اس ڈیجٹلائزڈ دنیا نے ہزاروں لوگوں سے ان کے دفتری کام چین لیے۔ اب اگر دیکھا جائے جب دفتر ہیں نہیں تو بے روزگاری ہوگی
جی ہاں بالکل ایسا ہی ہوا ہے مگر کچھ دنوں کے لیے جیسے ہی دفتر بند ہوئے تو ہر شعبے کے لوگوں نے ڈیجیٹلائزیشن طرف سفر کیا اور نئی راہیں تلاش کی۔
اب اگر بات کی جائے دنیاۓ صحافت کی تو یہاں پر بھی ڈیجیٹل میڈیا کا راج ہے۔ ایک صحافی نہیں، دو نہیں بلکہ ہر صحافی نے ڈیجیٹل میڈیا کو اپنا لیا ہے۔ چاہے وہ پاکستان کا مشہور و معروف صحافی حامد میر ہی کیوں نہ ہو، عاصمہ شیرازی ہی کیوں نہ ہو۔ بس ہر ایک صحافی نے اپنی توجہ سوشل میڈیا اور یوٹیوب کی طرف رکھی ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات صرف شہروں تک نہیں بلکہ پاکستان کے دور دراز گاؤں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ کسی بھی چھوٹے علاقے میں رہنے والا صحافی اپنی خبر سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینل پر ڈال کر ڈیجیٹل صحافت انجام دے رہا ہے اور اسی میں اپنی روزی تلاش کر رہا ہے۔ جو کبھی سننے میں آتا تھا آفس اور آفس کا ایک بوس یہ تصور تو اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور آجکل اسمارٹ صحافت وجود میں آئی ہے۔
 اب ایک اچھے صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے کاموں میں ایکسپرٹ ہو اور کمپیوٹر کے بارے میں بھی جان پہچان رکھتا ہو۔ یوں کہیں تو ایک صحافی اب ڈیجیٹل ایکسپرٹ ہو تو اس کی زیادہ مانگ ہے۔
کیونکہ آج کل کی صحافت میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس، ویب سائٹس، بلاگنگ اور ولاگ کا بہت رجحان ہے۔ ایک صحافی ان سب پر مہارت رکھتا ہے تو وہ بہت اچھی آمدنی کماسکتا ہے۔
سمارٹ صحافت کو عام الفاظ میں کچھ یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک موبائل فون سے اور موبائل کیمرے کا استعمال کرکے کی گئی صحافت۔ یعنی ایک صحافی موبائل فون کے ذریعے ہی صحافت کرتا ہے اسی سے ویڈیوز بناتا ہے، ان کو ایڈٹ کرتا ہے اور سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر وہ خبریں شائع کرتا ہے۔
اب ذرا اگر خواتین صحافیوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین صحافی تو پہلے سے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہیں ۔اور اب تو آفس کا نظام بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے پھر خواتین صحافی کیا کریں گی؟ اور کیسے کام کریں گی ؟
ان خواتین صحافیوں کے پاس ڈیجیٹل میڈیا اور سمارٹ صحافت کے علاوہ کوئی چارہ موجود نہیں..
اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج خواتین صحافی موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر اپنے چینل بنا کے صحافت کر رہی ہیں اور اپنی معاشی مشکلات کو حل کر رہی ہیں۔
بس یہی وجہ ہے کہ دنیائے صحافت میں اب ایک صحافی کو کئی مہارتیں آنی چاہیے
اسے کیمرہ بھی ٹھیک چلانا آنا چاہیے، موبائل فون میں بھی ایکسپرٹ ہو، اچھی قسم کی فوٹو اور ویڈیو گرافی بھی آنی چاہیے اور ساتھ ساتھ اسکرپٹ لکھنا آنا بھی بہت ضروری بنتا جا رہا ہے۔
اب اگر بات کیجئے صحافت میں مواقع ملنے کی تو یہ بات حقیقت ہے کہ بڑے شہروں میں تو کئی مواقع میسر آتے ہیں مگر چھوٹے شہروں میں خاص کر گلگت بلتستان کے کئی شہروں میں اچھے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے صحافت میں خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو فیلڈ میں اکا دکا خواتین کام کر رہی ہیں۔
یہ حقیقت پر مبنی بات ہے شعبہ صحافت میں نیوز چینلز میں جاب ملنا بہت مشکل ہے۔ اخبارات کا تو رجحان ہی ختم ہو رہا ہے وہاں تو جاب دور کی بات ان کے اپنے دفتر بھی بند پڑے ہیں۔ ان ہی وجوہات کے باعث تمام صحافی اب ڈیجیٹل میڈیا پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی صحافت میں نئے آنے والے لوگ خاص کر یونیورسٹی گریجویٹ سٹوڈنٹس اب اپنی جوب تلاش کرنے کی بجائے خود سوشل میڈیا پر اور یوٹیوب چینل بنا کر کام کر رہے ہیں۔ اور اگر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب ہی طاقتور ذرائع ہیں جو ایک صحافی استعمال کرکے اپنی رائے اور خبر لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ سوشل میڈیا پر خبرکی ترسیل بہت تیز اور کروڑوں لوگوں تک ہو سکتی ہے۔ اب خبر کسی بڑی جگہ کی ہو یا کسی دور دراز علاقے کی چند لمحوں میں ہی پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
اس حوالے سے گلگت سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی کرن قاسم جو کہ ان چند خواتین صحافیوں میں شمار کی جاتی ہیں جو فیلڈ میں کام کررہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور جب سے میں نے ڈیجیٹل میڈیا پر کام کیا تو تب ہی مجھے عوام میں پذیرائی ملی اور یو ٹیوب پر خود کا چینل بنانے سے بھی جن معاشی مشکلات کا ان کو سامنا ہے اس سے کافی حد تک مدد ملتی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ڈیجٹل میڈیا کے ذریعے کر خواتین صحافی گلگت بلتستان کی خواتین کے مسائل کے حل کے لیے دور دراز علاقوں میں بیٹھ کر بھی کر ان کی آواز بن سکتی ہیں اور ان خواتین کے مسائل کو حکومت تک پہنچا سکتی ہیں ۔ انہوں نے اور کہا جب انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنا شروع کیا تو ابتدا میں ایسا لگتا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کا کوئی فایدہ نہیں مگر جیسے کام بڑھتا گیا ان کو اور ان کے چینل کو مقبولیت ملتی گئی اور اب وہ گلگت بلتستان کی ایک جانی پہچانی صحافی کہلائی جاتی ہیں۔
یونیورسٹی سے فروغ اتحصیل سٹوڈنٹ حفصہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا ہے اور کام کررہی ہوں کیونکہ خواتین کے لئے اس فیلڈ میں مواقعے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا ہی وہ واحد ذریعہ اور طاقت ہے جس کی بدولت عوام کی آواز کو آگے پہنچایا جاسکتا ہے۔
ربعیہ ارشد اس حوالے سے کہتی ہیں کہ پاکستان میں صحافتی اداروں کی کمی ہے اور خواتین صحافیوں کو ان اداروں میں جاب کرنے کے نہایت ہی کم مواقع ملتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے اگر جاب مل بھی جائے تو کچھ ہی مہینوں میں خواتین صحافیوں کو جاب سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے خواتین کو فیلڈ میں بھی کام کرنے کا موقع نہیں ملتا اور اگر کا موقع ملتا بھی ہے تو صرف اعزازی صحافت کرنا پڑتی ہے اور کہیں پر بھی خواتین کو انکے کام کا بہتر معاوضہ نہیں ملتا۔ بس پھر آخر میں ڈیجیٹل میڈیا پر ہی ہر کوئی منتقل ہو رہا ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب پر صحافت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔چنانچہ سب کی طرح میں نے بھی اپنا یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے اور اسی پر کام کرتی ہوں۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے ہر صحافی بھی سمارٹ صحافت کرنے کے قابل نہیں۔ کئی ایسی خواتین صحافی ہیں جن کو بہت ٹریننگ کی ضرورت ہے جو نہ تو اپنا یوٹیوب چینل بنا سکتی ہیں نہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ریگولیٹ کر سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس وسائل ہیں کہ وہ اچھا موبائل فون خرید سکیں جس کا کیمرہ بہت اچھا ہو۔ ایسی صورتحال میں سینئر صحافی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے صحافیوں کو بھی ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں سمجھائیں اور انہیں ٹرین کریں۔ اس کے علاوہ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے اداروں کو بھی چاہیے وہ صحافیوں کو ڈیجیٹل ٹریننگ فراہم کریں اور ہو سکے تو انہیں گرانٹ فراہم کی جائے تاکہ وہ ڈیجیٹل آلات خرید سکیں اور ڈیجیٹل صحافی بن سکیں۔
اسکے علاؤہ چند ادارے جو کام کررہے صحافیوں خاص کر خواتین صحافیوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور صحافتی مہارتوں سے آگاہی فراہم کرتے ہیں کہ وہ صحافتی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرسکے ۔
عکس جیسے ادارے خواتین کو خودمختاری بنانے میں کامیاب ثابت ہو رہی ہیں یہ ادارے خواتین کو تکنیکی صلاحیتوں کو سکھانے کے ساتھ ساتھ صحافتی اقدار میں رونما ہونے والی نئے مہارتیں سیکھا رہے۔
اگر ایسے ادارے مزید آگے آکر کام کریں تو خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔
صحافت میں مشکلات تو بہت زیادہ ہیں مگر یہ حل طلب بھی ہیں مالکان تک ہماری رسائی ممکن نہیں جس کے لئے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت اور امداد باہمی پر کام کرنا ہوگا اس دور میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
صحافی ایک دوسرے کی مدد کریں سینیئر صحافی اپنے نئے آنے والوں کی رہنمائی کریں جو کہ پہلے نیوز چینل میں اور اخبارات کے ڈسک میں ہوا کرتا تھا جو اب ختم ہو رہا اور پاکستان میں چند ایک ایسے ادارے بھی ہیں جو صحافیوں کی ترقی کے لیے بھی کام کررہے جو گرانٹ دینے کے ساتھ صحافیوں کو انہیں سازوسامان مہیا کرتا ہے اور صحافیوں کو تربیت بھی فراہم کرتا ہے جو کہ صحافیوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے جو کہ میڈیا اس وقت کرائسز کا شکار ہے اور اپنے ورکرز کو نکال رہے اور کئی صحافی بے روزگار ہوگے ایسے میں ان اداروں کی کارکردگی صحافیوں کے لیے ایک حوصلہ اور امید کہ کرن بھی بن کر سامنے آرہا اگر اس طرح کے ادارے اور بھی سامنے آئیں تو کافی بہتری آسکتی ہے ۔
مشکلات اور پریشانیاں ہر فیلڈ میں ہیں مگر ان سے نمٹنے کیلئے صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے سے اپنے صحافتی خدمات بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔
پاکستان میں چند ہی ایسے ادارے ہیں جو صحافیوں کی ترقی کے لیے کام کررہے جو گرانٹ دینے کے ساتھ صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ سازوسامان مہیا کرتے ہیں اور صحافیوں کو تربیت بھی فراہم کرتے ہیں۔
اس وقت جہاں میڈیا کرائسز کا شکار ہے تو حکومت کو اور باقی نجی صحافتی اداروں کو صحافیوں کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرنے کے لیے وسیلہ بنانا چاہیے۔ ایسی صورتحال میں صحافیوں کے لئے ایک امید کی کرن جاگ سکتی ہے کہ جب صحافت کے دفتر بند ہو رہے ہیں تو اب ڈیجیٹل صحافت کے ذریعے ہی صحافیوں کو معاشی مشکلات میں ڈوبنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا سے صحافی اپنی آمدنی کماسکتے ہیں تو سرکاری اور نجی سطح پر ان کے لیے ٹریننگ اور ڈیجیٹل آلات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا وقت آ چکا ہے۔ اب اس چیز کی ضرورت آپڑی ہے کہ ہم اپنی خواتین صحافیوں کو ڈیجیٹل صحافی بنائیں۔

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan