معاشرتی اقدار کی ٹوٹتی ڈوریاں،بندشیں، حرام اموات کی سبب

معاشرتی اقدار کی ٹوٹتی ڈوریاں،بندشیں، حرام اموات کی سبب
تحریر:عامر جان سرور(صدر جی بی این ایس)
اسباب آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی نظر نہیں آتے اور خود کشیوں پر خود کشیاں روز کا معمول بن رہے ہیں ایک ایسے معاشرے میں جو چاہے جس بھی فرقے سے ہو ا، اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے۔  ایک کےبعد ایک خود کشیایوں کے بعد اب دن میں دو خود کشیوں کے واقعات بھی رونما ہونے لگے جس کے بعد  ان خود کشیوں کی تعداد  20 ہو چکی ہے اور صرف 40 دنوں کی یہ تعداد ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں رونما ہونے والا خود کشی کے واقعات 225 ہو چکے ہیں۔  جن میں  120 مرد اور105 خواتین شامل ہیںجو کہ ریکارڈ میں آ چکے ہیں۔ گزشتہ40 دنوں میں ہونے والی 20 خود کشیوں میں سے 4کو پولیس نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ اسباب ڈھونڈے جائیں تو کبھی نہیں ملیں گے کیونکہ اپنی مٹھی میں کوئی چیز بند کر کے جتنا مرضی ڈھو نڈا جائے نہیں ملے گی آخر میں اپنی مٹھی کھولنےکی ضرورت ہے۔
معاشرتی اقدار کی وہ ڈوریں جو ہمیں آداب،احترام اچھے برے کا فرق اور تمیز کے دائرے سے باند کر رکھتے ہیں جو کہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتےہیں اگر ٹوٹنا شروع ہو جائیں تو نتیجے ایسے ہی سامنے آتے ہیں، نہ ہی دنیا کی فکر نہ آخرت کی اس میں ایندھن کا کام گلگت بلتستان کے لوگوں میں موجود جذباتیت ہے جو کو بآسانی ہوا دی جا سکتی ہے۔  والدین کی ڈانٹ اولاد برداشت نہیں کرتے اور انتقال لیتے ہیں۔
معاشرے ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہے جہاں ہر پر جائز نا جائز طریقے سے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا ہے اور اگر آگے نہیں نکل سکے تو زندگی کا چراغ گل کر دیا۔  مذہبی بندشوں کو ڈیجیٹل معاشرہ کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں نتیجہ خود کشی۔ اس معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی اور شرعی قوانین سے زیادتی روایتوں کی غلامی ہے جو نوجوان نسل کی خواہشات کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ خودکشی کی صورت میں بنی ہوئی ہے۔
گلگت بلتستان میں جتنی بھی خود کشیاں ہیں ان میں اکثریت نوجوان اور غیر شادی شدہ افراد کی ہے  اور اکثیریت اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ ایک حیران کن امر ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی کو اس معاشرے میں ایک منظم کمیونٹی کے طور پر جانا جاتا ہے ایسی کمیونٹی میں خودکشیوں کے واقعات ہوں تو لازماً حیرانگی کا باعث ہے۔ اگر ہم وجوہات تلاش کرنے لگیں تو کسی بھی واقعہ کی وجہ بظاہر تو دوسرے واقعے سے مماثلت نہیں رکھے گی لیکن سبب ایک ہی ہے ، بندشیں اور اخلاقیات کے گرتے معیار!
یہ ازہان ایک ہی دن میں نہیں بنے کسی ایک واقعے کے بعد لواحقین کی پشیمانی کو نوجوان نسل ہتھیار بنا رہی ہے۔ حرام اور حلال میں تمیز  معاشرے سے ختم ہو جائے تو سب جائز تصور کیا جاتا ہے بس اپنی انا اور ضد پر کسی بھی صورت سمجھوتہ نہیں کرنا۔
اسباب  والدین کی ڈانٹ، گھریلو نا چاقی،امتحانات میں پیچھے رہ جانا، پسند کی شادی نہ ہونے دی جانااور اس طرح کے اور بھی بے شمار عوامل ہو سکتے ہیں، اگر وجہ تلاش کرنے والے وجوہات کے پیچھے دوڑیں گے تو کچھ ہاتھ نہ آئے گا، اس کے سد باب کیلئے ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ جو علماء کرام کا ہے کر دار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول میں موجود اس وائرس کا خاتمہ ہے، ہم نے تعلیم کو بچوں پر مسلط کیا ہے،اچھی نوکری کےحصول کیلئے جس کیلئے مال و دولت رکھنے والے ولادین غریب قابل بچے کا معاشی قتل کرنے سے نہیں رکتے، ہم نے پسند کی شادی کو انا کا مسئلہ بنا ہے جس کی اسلام اجازت دیتا ہے  شیعہ ،سنی، اسماعیلی فرقوںکی آپس میں شادی گلگت بلتستان کی تاریخ ہے کہ خوش اسلوبی سے انجام نہیں پاتی اگر ایک آدھ ہوئی بھی ہو۔ ہم نے نوجوانوں کو یہ سکھایا ہے کہ نمبر ون پر آنا ہے نہیں تو معاشرہ رسوا کر دیتا ہے، ہم نے معاشرے کو سکھایا ہے کہ شارٹ کٹ میں مقاصد کیسے ملیں گے۔ ہم نے معاشرے کو محنت سے دور بھگایا ہے۔ ہم نے پر تعیش زندگی کے سہانے خواب دکھائے۔ ہم نے درسگاہوں میں آزادی اور حقوق کے درس دیئے یہ جانے بغیر کہ روایات کا اسیر معاشرے میں یہ صرف الفاظ ہیں عملی طور پر کوئی بھی شخص قبول نہیں کریگا کہ اس کی بہن ،بیٹی کی شادی کسی دوسرے مذہب، دوسری ذات میں ہو بڑے قد کاٹھ والے روایتوں کے غلام جو مذہب کے ٹھیکیدار بھی ہیں عزت کا مسئلہ ہے۔
دور نہیں جاتے سگے بھائی کا بیٹا اچھی ذہانت رکھتا ہے قابل ہے مگر غریب ہے تو بھائی ہی اپنی دولت کے بل بوتے پر اس کا استحصال کریگا، اتنے قریبی رشتوں کا یہ حال ہو تو وجوہات تلاش کرنا محض خانہ پوری کے سوا کچھ نہیں۔
چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے آتے ہی اس مسئلہ پر سنجیدگی دکھائی اور اقدامات بھی کئے لیکن خود کشیاں نہیں رکی، اس کے اسباب لوگوں کے گھروں میں چھپے ہیں جو ہاتھ نہیں آئینگے اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہے تو نوجوانوں کو مصروف رکھنا ہو گا۔  معاشرے کی نئے سرے سے تربیت کرنے کی ضرورت ہو گی، اخلاقیات کی طرف مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی فقدان ہے  جو معاشرتی اقدار کی ڈوریوں کو توڑ رہا ہے اور اس حد تک تیار کر رہا ہے کہ اپنی جان لینے سے پہلے ایک بار بھی خیال نہیں کرتے ہیں اپنے پیچھے بوڑھے کندھوں کو  جوپہلے ہی اولاد کیلئے اپنی پوری زندگی خرچ کر چکے ہوتے ہیںنا تواں کر کے عمر بھر کا روگ دیئے جا رہے ہیں۔
وہ حرام فعل انجام دے رہے ہیں جس کی اسلام میں کسی صورت گنجائش نہیں کیونکہ جان تو اللہ کی امانت ہے اور اللہ کی امانت میں خیانت کیسے قابل معافی ہو سکتی ہے، سب سے پہلے تو نوجوانوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک فعل حرام ہے علماء بہتر طور پر آگاہی دے سکتے ہیں

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan