دنیل/بٹن کا تخیل

از:عزیزعلی داد
گکگت بلتستان والوں کی قوت تخلیہ ماوف پوچکی ہے۔ اس لیے وہ آج کے دور میں اپنی وجودی صورتحال سے بہتر حالت کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ تخیل کی اس قوت کو سلب کرنے میں گھر، اسکول، مذہب اور ریاست کا بڑا ہاتھ ہے۔ اور ویسے بھی ایسے قوم میں تخیل کے پر لگ ہی نہیں سکتے جس کی سوچ گندم کے دانے سے آگے نہیں بڑھتی ہو۔گندم کے دانے نے آدم کو جنت سے نکالا اور اسی خوشہ گندم نے ہمارے جنت نظیر علاقے کو جہنم میں تبدیل کردیا۔ اب ہم گمنامی کے برزخ میں رہ رہے ہیں۔ اور جو جگہیں بچی ہوئی ہیں وہاں پر سرمایہ اور طاقت قبضہ جماۓ بیٹھے ہیں۔ وہ اب نیلگوں جھیل کنارے بنے ہوٹلوں اور جنگل میں موجود ریسٹ ہاوس کے باہر گھومتے مقامی لوگوں کو ایسے دیکھ رہے ہوں جیسا ایک نواب اپنے ذاتی جنگلوں میں فراٹے بھرتے ہرنوں کو اور ناچتے موروں دیکھتا ہے۔ ہم ٹوپی پر شانٹی لگا کہ ناچتے ہیں تو بالادست طببقے کے سامنے مور ہی نظر آتے ہیں نہ پشتنی لوگ۔اب سوال یہ ہے کہ اس ذہنی اپاہجی سے نجات حاصل کی جاۓ۔اس ذہنی ماحول سے فرار ہونے کے لیے شاعری کی ایک کتاب لے کر دور پہاڑوں کے بیچ پہنچ گیا تاکہ قدرت کی آغوش میں رہ کر اپنے ذہن کو معاشرتی علائشوں سے پاک کرسکوں۔ جس شاعری کی کتاب کو میں اپنے ساتھ لے گیا تھق وہ معروف سیاہ فام امریکی مصنف جیمز بالڈون کی تھی۔اس میں ایک چھوٹی سی نظم “تخیل” نے مجھے چونکا دیا۔تخیل پہ بات کرتے ہوۓ جیمز بالڈون لکھتا ہے:
(ترجمہ) تخیل
تخیل
ایک صورتحال پیدا کرتا ہے،
اور پھر، صورتحال
تخیل کو جنم دیتی ہے۔
یہ ترکیب
الٹ بھی سکتی ہے:
کولمبس کو اس چیز نے دریافت کیا
جس کو اس نے پایا تھا۔
اس شاعری نے میرے سوچنے کی تکیب بدل دی۔ مجھے یوں لگا کے گلگت بلتستان کی سرزمین خود اہنے اوپر قابض کولمبسوں کو دریافت کیا ہے۔ یہ ایسا منظر نامہ ہے جس میں مقامی باسی بے حس اور زمین اپنے اوپر ہونے والے استعصال سے نالاں ہے۔ بالڈون کیشاعری مجھے سمجھ میں ہی نہیں آتی اگر میں اس جگہ پر نہیں ہوتا جہاں پر بیٹھ کر شاعری کو پڑھ رہا تھا۔ یہ جگہ انسانی آبادی سے دور ایک چراہگاہ میں چیڑ کے درختوں کے جنگل کے درمیان بنے چرواہے کا ایک کٹیا تھا۔ وہاں پر صنوبری درخت کے پتوں کی آگ جل رہی تھی۔ صنوبری درخت کے پتوں کے جلنے سے ایک بھینی خوشبو اس کٹیا میں بھر گئی تھی۔ خوشبو کے ساتھ بالڈون کے الفاظ کے ملاپ نے مجھے بے خود کردیا تھا اور مجھ پر ایک طرح کا وجد کا عالم طاری ہوگیا۔ اسی دوران ایک کاہن کی آواز میرے اندر گونجنے لگی۔ایسے لگتا تھا کہ یہ الفاظ میرے اپاہج تخیل کی ترکیب الٹ رہے تھے اور زمین اور اس کی مخلوق کی طرف سے ان پر اور میرے ذہن پر قابض قوتوں کے بارے میں نئے انداز سے دیکھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت عطا کر رہے تھے۔یوں محسوس ہوتا تھاکہ اب تک جو کچھ میں دیکھتا تھا وہ منظر تھا ہی نہیں اور جو بات کہہ رہا تھا وہ بات کہہ گیا تھا اس کا معروض میں موجود چیزوں سے تعلق تھا ہی نہیں۔ اسی لیے ایک بڑے عرصے سے میں درخت، مارخور، پانی، برف، پریاں اور مرکم (سرسبز چراگاہوں اور جنگلوں کی دیوی) کی باتوں کو سن نہیں پا رہا تھا۔ ذرا سنئے مرکم دیوی مجھے کیا کہہ رہی تھی۔
“مئے سونو دودو پاو (او میرے سونے جیسے چہرے والے بیٹے)۔اب مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کا دور ختم ہونے والا ہے۔میں دیکھ رہی ہوں کہ اس صدی کے نصف آخر میں گلگت بلتستان کی مقامی مخلوق ناپید ہوجائیگی۔ان کی شناخت بچانے کے لیے، انھیں پوست انباری ہا سٹفنگ کرکے ہوٹلوں اور ڈرائنگ روموں میں بطور ٹرافی اس جگہ ایستادہ کیا جائیگا جہاں مارخور کو شکار کرنے کے بعد سٹفنگ کرکے رکھا گیا ہے۔ تم لوگ اب تاریخ کا شکار بن رہے ہو،۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ تم شکاری سے محبت میں مبتلا ہو۔ یہ وہ ابتلا ہے جس سے تم بے آگاہ ہو۔ یاد رکھنا بے آگاہ ماخور ہی برفانی چیتے یا بھڑئیے کی خوراک بنتا ہے تم نے خود ہی بھڑئیے کو گھر داخل ہونے دیا اور گھر کے رکھوالے کتے کو نکال باہر کیا۔ اب بھڑیا گھر کے اندر اور رکھوالا باہر ہے۔ اب اس بھڑئیے نے تمھارے گھر کو اپنا مچان بنایا ہوا ہے،جہاں پر ہر لمحہ تماری ہی مخلوق کا تمھارے ہی پشتنی حقوق کاہر روز شکار کیا جاتا ہے۔ تم خود ہی اپنوں کے شکار کے جشن کے طعام میں شریک ہو،اور اپنی ہی نسل کے قتل عام میں شریک ہو۔تم نئی صدی کی ٹرافی ہنٹنگ ہو۔ تم اپنے آپ کو شکار ہونے سے تب ہی بچا سکتے ہو جب تم تخیل کی ترکیب الٹ دو اور زمین کی آنکھ سے زمین کے اوپر بیٹھے عفریتوں کو دیکھ سکوں۔”

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan