بدلتی ضروریات میں پھنسا ہوا آن لائن سماج

تحریر: وسیم اکرم بیگ
دور جدید نے جہاں پوری دنیا کو نت نئی ایجادات اور ضروریات کی وجہ سے اپنی لیپٹ میں لیا ہوا ہے وہاں اس دور کے ہر فرد کی طبیعت میں جدت آرہی ہے اور ہر روز بھڑتی چلی جارہی ہے۔ آج کا انسان جسمانی ، ذہنی ، اور معاشرتی تھکاوٹ اور اضطراب کا شکار ہے۔ میری نظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا کی بدلتی ضروریات ہیں۔ نہ چاھتے ہوئےبھی آئے روز نت نئی چیزیں انسان کی ضروریات کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ انسان اسی گمان میں لگا رہتا ہے کہ کیسے ان ضروریات کی تکمیل کی جائے ۔ میں خوائشات کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ کسی زمانے کی خواہشات ابھی تو روز مرہ کی ضروریات بن چکی ہیں، جس کی وجہ دنیا کا تیزی کے ساتھ رنگ بدلنا ہے۔
آج کا انسان تیزی سے آن لائن دنیا کی طرف ہجرت کر رہا ہے کیوں کہ اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا انسان کی ضرورت بن چکے ہیں۔ انٹرنیٹ تک رسائی ایک آسان عمل ہے لیکن اچانک ایک ایسی دنیا میں چھلانگ لگا بیٹھے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک موبائل فون کی مدد سے ہم ایک ایسے خیالی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں جس کا جادوئی نشہ ہر دن بھڑتا چلا جاتا ہے اور ہم اس میں مگن ہوتے جارہے ہیں ، وقت کی رفتار اور بھی تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے نظریات، خیالات ، احساسات اور مواد ہماری پہنچ میں آجاتی ہیں۔
ہم نہ چاہتے ہوئے کسی نہ کسی خیال کو بغیر تحقیق اور فکر کے اپنی ذات کا حصہ بنا لتے ہیں اور اسی بیانیے کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور کسی بھی ملک کے تھنک ٹینک ایک مضبوط منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے بیانیے کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ ایک سوچ کی تشکیل میں نہ صرف ایک ملک بلکہ ایک فرد واحد بھی بھی اپنا الگ نظریہ پھیلا سکتا یا سکتی ہے۔ ان حالات میں آن لائن سوسائٹی کی بے ہنگم تشکیل ہورہی ہے اور آف لائن معاشرے کے اندر نظریات، خیالات اور متصادم احساسات کی بھر مار نظر آتی ہیں۔ ہر کوئی اپنا الگ نظریہ رکھتا ہے اور اسی کو سچ اور صحیح مانتا ہے۔
عرض یہ ہے کہ ہمیں جدیدیت کے اس دور میں اپنی تحقیق اور فکر کو وسیع کرنے اور معاشرے کو متصادم رویوں کے اثرات سے بچانے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے میں اقدار کی پستی کی وجہ ان ہی رویوں کی وجہ سے ہے۔ سوشل میڈیا ایک گمنام دنیا ہے اور ہمیں اپنے اقدار ، روایات ، اخلاقیات اور ثقافت کو گمنامی سے خود بچانا ہوگا۔ ضروری نہیں آپ اپنی نجی زندگی کے ہر لمحے کا پر چار کرے اور دیکھاوے اور مادیت پرستی کی جانب جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سٹیزن جرنیلزم کو ایک خاص مقام حاصل ہے جہاں لوگ ایک مثبت معاشرے کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا تحقیقی اور علمی حصہ ڈالتے ہیں اور ایک مضبوط اور مثبت رائے عامہ قائم کرتے ہیں۔ اج کے دور میں ہر وہ انسان سٹیزن جرنلسٹ ہے جو سوشل میڈیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بغیر سوچ اور فکر سے کسی کا بنایا ہوا بیانہ کو اپنانے اور پھیلانے سے گریز کریں کیوں کہ انہی متصادم خیالات کی وجہ سے معاشرہ بے رہ روی ، تصادم ، اور ذہنی پستی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ لوگ استعمال ہوتے چلے جاتے ہیں جنکی تحقیق میں کمی پیشی ہوتی ہیں اور وہ لوگ ایک دن اپنے پورے اخلاقیات بھول جاتے ہیں۔
قارئین سے گزارش ہے کہ اپنا تمام تر طرزعمل و زندگی سوشل میڈیا کے ساتھ ماخوذ نہ کیا کرے۔ کچھ اپنا بھی کوئی حاصل کردہ علم اور قابل تعریف کام شئیر کرے اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کرے جو گمنام دنیا میں تحقیق اور مطالعے سے ایک مثبت معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ باقی آج کا نو جوان ٹک ٹوک اور پیپ جی گیم میں بندوقوں سے گولیاں چلانے میں اتنا مصروف ہے کہ وہ رات کو کم اور دن کو زیادہ سوتا ہے ، گھر میں کسی سے بات نہیں کرتا ہے ، اور بات بات پر غصہ ہوجاتا ہے جو کہ ایک سنگین بیانیے کی علامت ہے اور ایک سوالیہ نشان ہے

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan