افضل علی شگری۔ سابق آئی جی، سندھ۔
ڈوگرہ حکمرانوں سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اپنی جدوجہد کے بعدگلگت بلتستان کو اس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب بدنام زمانہ کراچی معاہدے کے تحت اسے ریاست کشمیر کے متنازعہ علاقے کا درجہ دیا گیا۔ اس صورتحال کی بناء پر یہ گلگت بلتستان ایک لایعنی بیوروکریٹک ڈھانچے کے تحت ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار خطہ بن گیا۔اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ایک دور دراز خطہ ہونے کے سبب یہ علاقہ شائد ابتدا ء میں غیر اہم رہاہے، مگر جب ہمسائیہ ملک چین نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر شروع کی تو ان علاقوں کی تزویراتی اہمیت دنیا کے سامنے آگئی۔
تاریخی طور پرگلگت بلتستان تبتی اوروسطی ایشیائی تہذیبوں کا حامل علاقہ رہا ہے، ان عظیم تہذیبوں اور مذہبی تعلیمات کے اثرات گلگت بلتستان میں نمایاں رہے ہیں، تقسیم کے بعدیہاں کے باشندے شملہ اور مسوری کے تعلیم یافتہ جی بی سے تعلق رکھنے والے آباد کاروں سے بھی جڑے جو 1947 کے بعد ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔مقامی آبادی میں علمی شعور کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشی خوشحالی بھی آنے لگی، جس کے لئے آغا خان کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات بھی قابل زکر ہیں۔ تعلیم یافتہ مقامی آبادی کو وقت کیساتھ یہ ادارک ہوا کہ ڈوگروں سے بزور بازو آزادی حاصل کرنے کے بعد تمام زمینوں اورقدرتی وسائل اب ان کی ملکیت ہیں اور ڈوگروں اور انگریز حکمرانوں کے درمیان اس خطے کی ملکیت کے حوالے سے ماضی میں طے پانے والے معاہدے اب ناکارہ ہو چکے ہیں۔
زمین کی ملکیت کے حقوق ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے لیکن اس کے حل کے لئے ماضی میں کوئی سنجید ہ کوشش نہیں نظر آئی زمینوں کی ملکیت سے متعلق ڈوگرہ نظام اور قوانین میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ڈوگروں کے قوانین بہت حد تک روایات پر مبنی اور امتیازی ہیں جن میں کمزور طبقات کے حقوق سے سمجھوتہ کرنے کی روش نظر آتی ہے۔
گلگت بلتستان کے طول و عرض میں موجودمشترکہ زمین کو مبہم طور پر خالصہ سرکار کہا جاتا تھا۔ 2017 میں جب خالصہ سرکار قرار دی گئی زمین کا ایک چھوٹا سا رقبہ پاک چین اقتصادی راہدری کے منصوبے کے لئے الاٹ کیا گیا تھا جس کے لئے لوگوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا تھااور یہ صورتحال نقص امن کا باعث بن گئی۔
پہلی بارحکومت پاکستان نے محسوس کیا کہ زمین کی ملکیت اور استعمال کا مسئلہ موجودہ نظام کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے لینڈ ریفارم کمیشن بنایا لیکن کوئی واضح اصلاحات سامنے نہیں آئیں۔ اس کا سارا کریڈٹ موجودہ وزیر اعلیٰ کو جاتا ہے جنہوں نے چیف سیکرٹری کو ایک جامع قانون کا مسودہ تیار کرنے کا کام سونپا جس کے ذریعے قابل استعمال زمین پر مقامی لوگوں کے مساوی حقوق کے قیام کے لیے شفاف طریقہ کار کو یقینی بنایا جائے۔چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے زمین کے انتظام کے موجودہ قانونی فریم ورک کے مختلف پہلوؤں پر کام کرنے کے لیے جی بی میں تعینات نوجوان، پرعزم اور اہل افسران کی ایک ٹیم تشکیل دی۔ متعدد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اور رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے ٹیم نے مشترکہ زمین کے استعمال کے حدودکا تعین کرنے والی مقامی روایات کا بھی جائزہ لیا۔
خطے کی تاریخ میں پہلی بار لینڈ ریفارمز کے حوالے سے جامع سفارشات تیار کرنے کے لئے خصوصی طوردوروزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنوں کے کمشنرز اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ز نے شرکت کی۔کانفرنس میں لینڈ ریفارمز پر قانون سازی کو حتمی شکل دینے سے پیشترتمام متعلقہ افسران کو موجودہ ایکٹ اور قواعد کا جائزہ لینے، گلگت بلتستان کے قانونی اور ادارہ جاتی سیٹ اپ کے تاریخی اور تنقیدی تجزیے اور عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی تصفیہ اور لینڈ ریکارڈ سسٹم کو جدید بنانے کے حوالے سے اقدامات کی بابت سفارشات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔
مرکزی ٹیم نے ریکارڈ وقت میں زمین کے انتظام کے تمام پہلوؤں سے نمٹنے کے لیے ایک مسودہ قانون تیار کیا ہے۔ بل کے 41 حصے جامع طور پر جی بی کے رہائشیوں کے تمام اہم خدشات کا احاطہ کرتے ہیں۔ سیکشن 2، جو تعریفوں سے متعلق ہے نے استحصال کے لیے کھلے تمام مبہم اور مشکوک مراحل کو یکسر ختم کردیا ہے۔
بنیادی چیلنجوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مجوزہ قانون سازی کے لیے زمین کی دو وسیع اقسام ‘حصہ دار’ اور ‘غیر جانبدار’ میں تقسیم کرنا۔ سرکاری اراضی کی وضاحت کرتے ہوئے، بل مقامی لوگوں کو ان کے اراضی کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے ‘خالصہ سرکار’ کی اصطلاح کے عمومی غلط استعمال کے مسئلے کو روکتا ہے۔ اسی طرح جنگلات، دریا کے کنارے، جھیلیں، گلیشیئر، پہاڑ، مشترکہ سڑکوں کے نیٹ ورک اور مشترکہ تسلیم شدہ زمین کے علاقوں کو ناقابل تقسیم زمین کے زمرے میں تفویض کیا گیا ہے، اس طرح ماحولیاتی تحفظ اور عام استعمال کو یقینی بنایا گیا ہے۔ شفاف طریقے سے مقامی آبادی کو حصہ دار زمین مختص کرنے کے تفصیلی فارمولے موجود ہیں۔
زمین کی تقسیم کے لیے منتخب اسمبلی ممبران اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کے ساتھ صوبائی، ڈویژن اور ضلعی اتھارٹیز تشکیل دی گئی ہیں۔ اجتماعی فیصلہ سازی کے ذریعے، ان حکام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کے تعین کے بعد اور مستقبل کے تنازعات کے حل کے لیے قابل تقسیم اراضی کی تقسیم میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔
بدقسمتی سے کچھ طبقے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر اس عوام دوست اقدام کو ناکارہ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ذریعے زمین کے انتظام سے جوڑ کر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈوگرہ راج کے قوانین گلگت بلتستان کی آزادی کے ساتھ ہی ختم ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی خدشات ہیں تو ہمیں ان کو اجاگر کرنا چاہیے اور اس بہترین اقدام کو ختم کرنے کے بجائے حل تجویز کرنا چاہیے۔ اسی طرح کے چھوٹے موٹے سیاسی مفادات کی وجہ سے ہم نے عارضی بنیادوں پر اس خطے کے ایک وفاقی اکائی کے طور پر انضمام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا۔ اگر مسودہ بل میں ضروری ترامیم کے لیے کوئی حقیقی تجاویز موجود ہیں تو انہیں بے بنیاد منطق پر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی بجائے جاری مشاورتی عمل میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بشکریہ : روزنامہ ڈان۔