یعقوب عالم طائی
کہتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو انسان کو سیر و تفریح کرنی چاہیئے اور فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہیئے اس حوالے سے میں ذاتی طور پر بہت زیادہ کمزور انسان ہوں اپنے 20 سالہ صحافتی کیرئیر میں نہ تو مجھے کسی غیر ملکی سفر کا موقع ملا اور نہ ہی اپنے پیارے وطن گلگت بلتستان کے حسین علاقوں کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا کراچی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد 2006 کو غذر آئے اور پھر کم و بیش ہی کہیں جانے کا اتفاق ہوا میرے انتہائی قریبی دوست منظر شگری، قاسم شاہ، سیف الرحمٰن، حاجی کریم، فرمان کریم مون گھومنے پھرنے اور خاص طور پر گلگت بلتستان بھر کے سیاحتی مقامات میں ایک سے زائد بار چکر لگانے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں تاہم اپنے دوستوں کے قریب ترین ہونے کے باوجود میں پھنڈر، یاسین ، اشکومن اور ہنزہ و گلگت سے آج تک باہر نہیں نکلا اس وقت بھی شاید واحد انسان ہوں گا جس کو اپنے وطن کی خوبصورت اکائیوں استور، دیامر، چترال وغیرہ کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ گلگت بلتستان کے سب سے بڑے و تاریخی ڈویژن بلتستان کو گزشتہ دنوں یو این ڈی پی اور گلاف ٹو پراجیکٹ کے زیر اہتمام تین روزہ میڈیا ورکشاپ میں شرکت کے بہانے بلتستان جانے کا اتفاق ہوا اور یہ میری زندگی کا پہلا وزٹ تھا اس سے قبل اپنے محسن بانی چیف ایڈیٹر روزنامہ کے ٹو گلگت بلتستان راجہ حسین خان مقپون کی حادثاتی رحلت کے بعد کئی سال قبل میندی روندو چلا گیا تھا اور فاتح خوانی کے بعد فوراً ہی واپس آگیا تھا اس وقت بلتستان کی شاہراہ بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی ہم 6 سے 7 گھنٹے میں گلگت سے میندی پہنچ گئے تھے جبکہ گزشتہ دنوں شاہراہ بلتستان کی تعمیر کے بعد 4 سے 5 گھنٹوں کے درمیان ہم گاہکوچ سے سکردو پہنچ گئے شاہراہ بلتستان کی تعمیر وہاں کے لاکھوں لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے بحرحال ماضی میں میری فیملی سے تعلق رکھنے والے کئی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے آفیسران و ملازمین بلتستان کے مختلف اضلاع میں ڈیوٹی انجام دے چکے ہیں میرے پیارے مرحوم چاچو طوطہ جان بھی پانچ سال تک بلتستان سکردو میں اے کے آر ایس پی کے لئے خدمات انجام دیتے رہے جبکہ میرے چاچا محترم محمد زمان نے بطور ایریا منیجر اے کے آر ایس پی سکردو بلتستان میں 12 سال سے زائد تک خدمات انجام دیا ان سب نے کئی بار سکردو آنے کی دعوت دی اور وہاں کی خوبصورتی کا تذکرہ بھی کیا مگر میں وہاں نہیں جا سکا یو این ڈی پی ،گلاف 2 اور محکمہء اطلاعات و نشریات گلگت بلتستان کی جانب سے ٹریننگ ورکشاپ کے لئے نامزد کرنے کی اطلاع پر بھائیوں جیسے دوست، جنرل سیکرٹری پریس کلب غذر عابد شیر کے ہمراہ 14 مئی کو اسکردو کی جانب چل پڑا گلگت بلتستان کے دیگر تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافی دوست بھی گلگت سے بلتستان کی جانب چل پڑے تھے ہم دن کو 12 بجے گاہکوچ سے نکلے اور شام 5 بجے سکردو پہنچ گئے ہمارے پہنچنے سے قبل ہی بلتستان کے ہمارے انتہائی قابل احترام دوست صدر پریس کلب سکردو وزیر مظفر اور ان کی پوری کابینہ ہمارے انتظار اور استقبال کے لئے موجود تھی اس موقع پر بلتستان بھر کے اضلاع سے بھی صحافی دوست سکردو تشریف لا چکے تھے سکردو پریس کلب کے دوستوں نے اپنی منفرد روایات اور ادب بلتستان کے تحت ہماری مہمان نوازی کی اور پر تکلف ڈنر کا اہتمام کیا اور ڈھیر ساری محبتوں سے نوازا دوستوں نے ہمیں سد پارہ کے علاوہ کئی تاریخی مقامات کی سیر کرائی جس کے لئے ہم ان کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے اگلے ہی دن سکردو کے ایک معروف ہوٹل میں ٹریننگ ورکشاپ شروع ہوا ایڈیشنل چیف سیکرٹری گلگت بلتستان عزیز احمد جمالی، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ضمیر عباس نے سیشن کے پہلے روز شرکت کی جبکہ گلاف 2 کی جانب سے باسط خان نے موسمیاتی تبدیلی اور تیزی سے ختم ہونے والے قدرتی گلیشیرز اور اس کے نتیجے میں رونماء ہونے والے نقصانات کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا جہاں سے ہم نے بہت ساری معلومات حاصل کرلی تین روزہ سیشن میں ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے بھی اسلام آباد سے آئے ہوئے ٹرینر طلحہٰ صاحب نے آگاہی فراہم کی اس سیشن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تاہم یو این ڈی پی کے ذمہ داران نے جس طرح بلتستان کے تاریخی مقامات تک ہماری رسائی ممکن بنادی وہ انتہائی حوصلہ افزا ہے ہم سیشن کے دوسرے دن شگر چلے گئے جہاں شگر فورٹ کے علاوہ کئی تاریخی مقامات کو دیکھ کر اندازہ لگانے میں مشکل نہیں آئی کہ بلتستان کا ہر ضلع اپنے اندر ایک بھرپور تاریخ اور تہذیب سمیٹے ہوئے ہے سیشن کے آخری دن ایک اور تاریخی ضلع گانچھے جانے کا اہتمام کیا گیا جہاں پہنچ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں خپلو فورٹ،خانقاہ چقچن، خپلو کا تاریخی بازار بالخصوص ہزاروں سال پرانا تاریخی مسجد خانقاہ چقچن دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بلتستان کا ضلع خپلو اپنی تاریخی اہمیت کے حوالے سے کس قدر امتیازی مقام رکھتا ہے اس دوران پریس کلب گانچھے کے صدر و کابینہ اور ہمارے قلمی ساتھیوں نے جس مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا اور جس قدر وہاں سے ہمیں محبتیں ملیں وہ نا قابلِ فراموش ہے ہم خصوصی طور پر گانچھے پریس کلب کا نہ صرف شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے قلمی ساتھی بلتستان کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوئے بھی دنیا کی تہذیب یافتہ قوموں سے پیچھے نہیں بلتستان کے مختلف تاریخی قلعوں اور مقامات کے وزٹ کرنے کے دوران ہم نے ایک اور چیز نوٹ کیا جو بیان نہ کریں تو ذیادتی ہوگی جس قدر بلتستان کے تاریخی مقامات بالخصوص تاریخی قلعوں کو آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے از سر نو تعمیر کرکے ان کی اصلی حالت میں لاکھڑا کیا ہے اور سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے وہ لائق تحسین ہے اس عمل سے بلتستان کی تاریخی کو بچانے میں مدد مل گئی ہے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ سالانہ ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح بلتستان کا رخ کرتے ہیں اور ان تاریخی مقامات کی سیر کرتے ہیں جس سے مقامی سطح پر روزگار کے وسیع مواقعے میسر آنے کے علاوہ بلتستان کی ٹورزم انڈسٹری بھی روز بروز ترقی کررہی ہے جس کے خطے پر دور رس نتائج برآمد ہورہے ہیں اس موقع پر یو این ڈی پی کے زیر انتظام گلاف ٹو پراجیکٹ کے کئی پراجیکٹس جن میں کمیونٹی سینٹرز، حفاظتی بندوں کی تعمیر اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے سلسلے میں شروع ہونے والے پراجیکٹس کا وزٹ کرایا گیا جو یقینی طور پر بلتستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے لئے کارگر ثابت ہوں گے جبکہ وہاں قائم کمیونٹی سنٹرز سے بھی مقامی افراد فائدہ حاصل کرسکیں گے تحریر کے آخر میں ایک بار پھر بلتستان بھر کے اپنے ساتھیوں جن کے ناموں کی طویل فہرست ہے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بلتستان کے میرے پہلے سفر کو زندگی بھر کے لئے یاد گار بنایا اور برملا کہنے کا موقع دیا کہ بلتستان ادب،مہمان نوازی، منفرد تاریخ، ثقافت اور تہذیب یافتہ قوم کی سرزمین ہے جہاں نفرتوں کا دور پار سے تعلق نہیں مذہبی رواداری، بھائی چارگی اور امن پسندی بلتستان کے قدرتی حسن پر ایک اور خوشگوار اضافہ ہے اور دنیا جانتی ہے کہ جس علاقے میں امن و آشتی ہو وہاں ہر شعبہ ترقی کرتا ہے بلتستان کی ان تمام خوبیوں کے پیچھے بھی وہاں کے عالم دین، اہل قلم،ادیب،شاعر، اساتذہ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا کردار ہے جس پر بلتستان بھر کے عوام مبارک باد کے مستحق ہیں ۔