شہید بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

شہید بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

شکور علی زاہدی
ہندوستان مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ایک اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت میںپچیس کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔جو کل آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہے۔ اس اعتبار سے مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔حکومت بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔ لیکن بھارت میں رہنے والی تمام اقلیتیں ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ خصوصاًمسلمان آج بھی بھارت میں غیر محفوظ اور انتہاپسند ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوری اور سیکولر ملک میں مسلمانوں کی جان و مال اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ جن کی مثال تاریخی بابری مسجد کی شہادت ہے۔لیکن ہندوﺅں کی جبروتشدد صرف اس مسجد تک محدودنہیں بلکہ 1983ءمیں حکومت بھارت کی وزارت قانون کے شعبہ اوقاف کے مطابق پنجاب اور ہریانہ میں 9620مساجد کلکتہ میں 51اور دہلی میں92مساجد مندروں میں تبدیل کرنے یا انہیں مسلمانوں سے چھیننے کا عمل جاری ہے۔
تاہم بابری مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہ کار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے ہیں۔جو اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے قدیم زمانے سے ہی اجودھیا میں اپنا ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے ۔ لیکن اچانک ہندوﺅں کی جانب سے بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دینے کی ابتدا کب اور کیوں ہوئی۔ اورمسلمانوں کے خلاف اتنی بڑی سازش کیوں ہوئی۔ اور انتہا پسند ہندوﺅں کے رویے میں اچانک تبدیلی لمحہ فکریہ ہے ۔ جس کی حقیقت سے آج ہمارے ملک کی اکثریت عوام بالکل بے خبر ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے۔ کہ مسجد کی تاریخ پر حقیقت سے نگاہ ڈالی جائے تاکہ مسلم دشمن عناصر کے ناپاک عزائم واضع ہو جائیں۔
اودھ کے سابق درالحکومت فیض آباد کے مشرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پردریائے سرجو بہتا ہے اس کے کنارے پر اجودھیا کا تاریخی شہر واقع ہے۔ اجودھیا کے وسط میں ایک ٹیلہ ہے ۔ جس میں سادات کا ایک محلہ سید واڑہ بھی ہے۔ 1527ءکو شہنشاہ بابر وہاں سے گزرے اس ٹیلے میں چند بذرگوں کا قیام تھا۔ ان میں خاندان رسالت کے ایک معزز فرد سید موسیٰ عاشقان بھی تھے۔بابر نے اپنی کامیابی کے لیے ان سے دعا چاہی ان بذرگوں نے بابر کی کامیابی کے لیے دعا کی اور فرمایا کہ کامیابی کے بعد اس جگہ میں ایک مسجد بنائے ۔ بابر نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس نے سکندر لودھی کو پانی پت کے مقام پر شکست دی۔ اور ہندوستان کی بادشاہت حاصل کی۔ فتح کے بعد اس نے اودھ کے گورنر میر باقی کوحکم دیا کہ وہ اجودھیا کے اس مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کریں۔ انہوں نے 1528ءکو سید موسیٰ عاشقان کے اہتمام سے مسجد بنوائی جو بابری مسجد کہلاتی ہے۔
اجودھیا میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے رہ رہے تھے۔ اور ہندوﺅں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اجھودھیا ان کا مقدس شہر ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق 2500قبل مسیح رام چندر جسے بھگوان کہا جاتا ہے ان کا جنم یہی ہو ا تھا۔ لیکن ایک طویل عرصے تک ہندوﺅں نے بابری مسجد کی زمین پر کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ مسجد مندرکی جگہ تعمیر کی گئی ہے۔ہندو اور مسلمان قدیم زمانے سے اس عمارت کے علٰحدہ علٰحدہ جگہ عبادت کرتے تھے ۔ لیکن ہندوﺅں کا مسجد سے کوئی تعلق نہ تھا۔1762ءمیںاہل شجاع دولہ میں قاضی محمد عاقل نے مسجد اجودھیا کی مرمت کرائی اور ان کی اجازت سے پاقی شاہ فقیر نے مسجد کی خدمت اپنے ذمے لی اور پہلوے مسجد کے چبوترے پر تعزیہ رکھا۔
برصغیر میں مسلمانوں کی مرکزی اور صوبائی حکومتیںجوں جوں کمزور ہوتی گئیںانتہاپسند ہندوﺅں اور انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔انگریز جہاں بھی گئے انہوں نے لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا ۔ مسجد کا تنازعہ بھی اس مسئلے کی ایک کڑی ہے۔اس کی ابتداءکا ذمہ دار فیض آباد ڈسٹرکٹ گزٹک کا مرتب ایچ آر نویل ہے جو ایک متعصب انگریز تھا۔میں نے سب سے پہلے یہ انکشاف کیا کہ بابری مسجد ایک مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی ہے۔ گویا یہ اس سازش کی ابتدا تھی۔ جو رفتہ رفتہ ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی اور نفرت کو فروغ دینے کا سبب بنی اور ہندوﺅں نے بابر بادشاہ پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے دور میں لشکر کشی کر کے مندر کی جگہ مسجد بنائی ہیں۔لیکن یہ بات حقیقت سے بالکل بر عکس ہے کیونکہ بابر کو اپنے ہندو رعایا سے بہت محبت تھی۔اس نے ہمیشہ ہندوستان میں بسنے ولے اکثریت ہندوﺅں کے مذہب اور عقائد کو بڑی اہمیت دی اور ان کا خیال رکھا اس نے اپنے بیٹے ہمایون کو بھی اس نصیحت کا پابند بنایااور یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ہندوﺅں کا دل جیتنے کے لیے گائے کے گوشت تک نہ کھائے۔بابر بادشاہ نہ صرف مسلم اتحاد کے داعی تھے بلکہ ہندوﺅں سے بھی اتحاد کے بہت خواہاں تھے۔اور ایسا عادل اور انصاف پسند بادشاہ کسی صورت میں مندر کی جگہ مسجد نہیں بنا سکتا۔
لیکن انتہا پسند ہندو انگریز کے تعاﺅن سے بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے۔1853ءکے اواخر میںشاہ اودھ کے واجد علی شاہ کے آخری عہد میں انتہا پسند ہندو بیراگیوں نے بابری مسجد پر ایک بڑا حملہ کر دیا۔ اور مسلمانوں کا قتل عام کر دیا۔ قرآن مجید کے متعدد نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ خواجہ میٹھے جو شہدی سید سالا غازی میںسے تھے اس کے قبر کو توڑ دیا تعزیہ رکھنے کا چبوترہ جو عہد قدیم سے تھا۔کھود ڈالا۔اس فساد عظیم میں اجودھیا کا امام بارگاہ بھی جلا دیا گیا۔1854ءکو اودھ کے ممتاز عالم دین علامہ امیر علی امیٹھی نے مسجد کی بے حرمتی دیکھ کر لکھنو سے ایک زبردست فوجی لشکر کے ساتھ بابری مسجد کو ہندﺅں کے نر غے سے آزاد کرانے کے لئے اجودھیا کے جانب روانہ ہوا لیکن بر طانوی افواج نے باوہ نیکی کے مقام پر روک کر ان کو اجودھیا آنے نہ دیا۔مولوی صاحب نے شاہ اودھ کو ایک عرضہ نامہ بھی پیش کیا جس میں عزاءخانہ کی تباہی کا بھی ذکر ہے 1855 میں مسلمانوں نے ہنومان گڑھ پر حملہ کر دیا جو اجودھیا میں ہندﺅں کا ایک مقدس مندر ہے۔اس واقعے میں75 افراد ہلاک ہوئے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی رواداری سے ہندوﺅں نے کسی عہد میں مسجد کے چبوترے میں اپنے دیوتاﺅں کی مورتیاں رکھ کر پوجا کرتے تھے۔مگر وہ جگہ جہاں مسجد تعمیر کی گئی ہے۔اس جگہ کا ہندوﺅں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔1886ءمیں ہندوﺅں نے اودھ کی عدالت میں چبوترے پر مندر تعمیر کرنے کی درخواست دے دی۔لیکن ان کو مندر بنانے کی اجازت نہیں ملی۔جب تنازعہ شدت اختیار کر گیاتو سرکاری سطح پر بعض مخصوص اور منتخب مقامات پر کھدائی کی گئی لیکن مسجد کے آثار نکلنے پر کھدائی روک دی گئی۔اس کے باوجود انتہا پسند ہندوﺅںنے اپنے حربوں اور سازشوں سے باز نہ آئے اور ہوتے ہوتے یہ کشیدگی پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ بابری مسجد کا مسئلہ شدت اختیار کرنے اور شہرت پانے کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اجودھیا کا ہندو مسلم اتحاد صدیوں سے مثالی تھا۔ جب اس اتحاد میں اچانک اختلافات پیدا ہوا تو مسئلے نے شدت اختیار کیا ۔دوسرا یہ کہ اجودھیا ہندو اور مسلمانوں کے سامنے انتہائی مقدس جگہ تھی ۔ ہندوﺅں کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیلے میں ان کے خدا رام چندر جی بھگوان کی پیدائش ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے سامنے اس سرزمین کی اہمیت یہ ہے کہ وہاں انبیائے کرام صوفیا و سادات اولیائے کرام اور بزرگان دین کے مزارات ہیں۔ جو قدیم زمانے سے مسلم تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔تیسری یہ کہ بابری مسجد کی طرز تعمیر مسلم دور کی ثقافت اور فن تعمیر کی زندہ مثال ہے۔چوتھا یہ کہ بابری مسجد اجودھیا کے مسلمانوں کے لیے جامع مسجد علی گڑھ یونیورسٹی کی طرح اتحاد کا مرکز بھی تھا۔کیونکہ مسلمانوں کے دونوں مکاتب فکر اپنے اپنے اوقات میں نماز ادا کرتے تھے۔
اس طرح بابری مسجد کی شہادت کے بھی کئی اسباب ہیں۔
اول یہ کہ بابر بادشاہ نے مسجد کے احاطے میں تعمیرات اور مزارت کی خاطر کافی جگہ رکھا تھا۔لیکن مسجد کے متولیوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور بہت سی زمین ہندوﺅں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔دوسرا یہ کہ مسلمان حکمرانوں نے اقتدار کی خاطر ہندوﺅں کی خوشنودی کے لیے بابری مسجد کے مسئلے پر کوئی توجہ نہ دیا۔تیسری یہ کہ 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کا بڑا موقع ملا ۔ انہوں نے بابری مسجد کو منتازعہ بنا کر اپنا انتقام لیا۔چوتھا یہ کہ علمائے کرام اور سیاسی لیڈر مسلم لیگ اور کانگرس کو فعال بنانے میں سرگرم ہوگئے۔ان کو بابری مسجد کا ایشو معلوم ہونے کے باوجود کوئی خاص توجہ نہ دی گئی۔ پانچواں یہ کہ تقسیم برصغیر کے بعد مسلمان بھارت میں اقلیت رہ گئے ۔ان وجوہات کی وجہ سے ہندوﺅں کی ہمت اور حوصلے بہت بلند ہو گئے ۔ اور یہ وہی اسباب تھے جو بابری مسجد کی شہادت کا سبب بنے۔
1936ءمیں برطانوی حکومت کے ماتحت مسلمانوں کا اتحاد کمزور کرنے کے لیے اوقاف کے کمشنر نے اس متنازعہ جگہ کا فیصلہ کرنے کے لیے تحقیقات کروادی۔ اور یہ فیصلہ دیا کہ یہ ایک سنی مسجد ہے کیوں کہ اس کی تعمیر کرنے والا بھی اس عقیدے کا تھا۔مگر اوقاف کے مرکزی شیعہ بورڈ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اس سلسلے میں سول جج فیض آباد کی عدالت نے ایک مقدمہ دائر کردیا ۔ عدالت نے اس دعوے کو خارج کر دیا۔ لیکن مسلمانوں نے اپنا اتحاد برقرار رکھا اور ہندوﺅں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے رہے۔22دسمبر 1949ءکو مسلمانوں نے آخری نماز عشاءادا کی۔23دسمبر1949میں ہندوﺅں نے حکومت کی سرپرستی میں مسجد کے اندر کچھ مورتیاں رکھ دی 16جنوری 1949کو عدالت نے ہندو اور مسلمان دونوں کو اس جگہ میں عبادت کرنے سے روک دیا۔جو 1986ءتک برقرار رہا۔ 28مئی 1954ءکو سینکڑوں مسلمانوں نے مسجد میں نماز الوداع پڑھنے کی کوشش کی لیکن اندر داخل ہونے نہ دیا گیا۔1961 میں مسلم مرکزی وقف بورڈ نے متنازعہ جگہ کی ملکیت کا دعویٰ کیا لیکن عدالت نے ہندوﺅں کے حق میں فیصلہ دیا۔یکم فروری 1986ءمیں عدالت نے ہندوﺅں کو مندر بنانے کی اجازت دی۔او ر مسلمانوں نے اس کے خلاف عظیم اتحاد کا مظاہرہ کیا۔اور تمام شیعہ سنی قائدین نے مل کر بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنائی اور اس کے ماتحت حکومت کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف بڑے بڑے شہروں میں عظیم مظاہرے کیے۔1989ءمیں ہندوﺅں نے متنازعہ زمین پر مندر کی بنیاد رکھی۔1990ءمیں ہندوﺅں نے جزوی طور پر مسجد کو نقصان پہنچایا۔بھارتی وزیراعظم نے مسئلے کے حل کی کوشش کی۔1991ءمیں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی۔1992ءمیں دو لاکھ ہندوﺅں نے سرکار سرپرستی میں بابری مسجد کو شہید کر دیا۔اورہندو مسلم فسادات میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔جن میں دو ہزار مسلم شہید ہوئے 2001ءمیں ہندوﺅں نے مندر بنانے کا پروگرام کیا ۔2002ءمیں اجودھیا سے آنے والی ہندوﺅں کی ٹرین پر حملہ ہوا ۔اور 58افراد ہلاک ہوئے 2003 ءمیں آثار قدیمہ کی جانب سے مسجد کی جگہ مندر ہونے کا اعلان اور مسلمانوں نے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا۔2004ءمیں مسئلے کے حل کے لیے متنازعہ جگہ میں قومی یادگار بنانے کی تجویز اور 2010ءمیں عدالت نے متنازعہ جگہ کی زیادہ حصہ کو ہندوﺅں کی ملکیت قرار دی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے اب تک 22سال گزرنے کے باوجود مسجد کی تعمیر نہ ہو سکی۔اگرچہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں نے یہ عزم کیا ہے کہ مسجد ہر حال میںتعمیر ہو کر رہے گی۔تاہم مسلم دنیا خصوصاًاو آئی سی سمیت جنوبی ایشیا کے مسلم ممالک پاکستان بنگلہ دیش اور مالدیپ بھارت پر اس قد رسفارتی دباﺅ ڈالے کہ وہ سرکاری سطح پر مسجد بنانے پر مجبور ہو جائے۔ اگر دنیا کے ایک ارب تیس کروڑمسلمان اس مسئلے پر عظیم اتحاد کا مظاہر ہ کریں گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت کسی مسجد پر میلی آنکھ اٹھانے کی جرات ہی نہیں کرے گی۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.