وادی کھرکوہ(غازیوں اور شہیدوں کی بستی

وادی کھرکوہ(غازیوں اور شہیدوں کی بستی)
محمد اشرف عاصی
یوں تو وطن عزیز پاکستان سے پیار اور محبت کا جذبہ ہر پاکستانی کے دل میں بے حد موجود ہے۔تا ہم بلتستان کے غیور بزرگوں،جوانوں اور نونہالوں کا جذبہءحب الوطنی قابل تقلید ہے۔انیس سو آڑتالیس سے لے کر کارگل کے محاذ تک یہاں کے عوام نے پاک سر زمین کی حفاظت کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیئے ہیں۔ اور یہ سلسہ تاحال جاری و ساری ہے۔وادی کھرکوہ کے عوام بھی وطن سے محبت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اس سر زمین کے باسیوں میں بھی جذبہءحب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں غازیوں اور شہیدوں کی لمبی فہرست موجو دہے جن کی تفصیل بیان کروںتو شاید قرطاس و قلم جواب دے جائیں۔مگر قصے ختم نہ ہو۔ تا ہم چند اہم شہیدوں کے بارے میں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔محترم قارئین! جیسا کے آپ کے علم میں ہے کہ پاک فوج کے جوان کافی عرصے سے اندرونی بدامنی کو دور کرنے کے لئے سر گرم عمل ہیں ۔2009 کے اپریشن راہ نجات کے دوران جنت نظیر سر زمین سوات میں دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئےNLI 9 رجمنٹ کے جوان آگے بڑھ رہے تھے ۔اس دوران پاک فوج کے کئی جوان جام شہادت نوش کر گئے تھے۔جن میں سات مئی بروز جمعرات کوجام شہادت نوش کرنے والے بہادر سپاہی محمد امین شہید(تمغہءبسالت) کا تعلق بھی وادی کھرکوہ کے ایک گاﺅں گھربونگ سے تھا۔ان کی جسد خاکی کو گاﺅں لایا گیاتو سینکڑوں سوگواروں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں پاک فوج کے چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کرنے کے بعدان کی تدفین آستانہ نامی قبرستان میں کیا گیا۔ان کی مقبرہ کو لواحقین نے خوبصورت انداز میں تعمیر کیا تھا۔جو اگست2010 کے سیلاب میں بہہ گیا ا ور شہید کی نعش ڈیڑھ سال بعد قبر سے صحیح سلامت بارےاب ہوئی اور لواحقین کو ایک بار پھر زیارات کرائی گئی۔قرآن کی آیت کے مصداق ہوئی کہ ”اے لوگو! تم اللہ کے راہ میں مرنے والوں کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ ان کو رزق عطا کر تا ہے مگر تمہیں نظر نہیں آتیں“ شہید کے والد کے بقول نعش بالکل تر و تازہ تھی اور داڑھی تھوڑی بڑھ گئی تھی۔اب ان کا مقبرہ گاﺅں سے تھوڑی مسافت پر مرجع خلائق ہے ۔پورے پاکستان میں وادی کھرکوہ کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ تین سگے بیٹوںکو وطن عزیز پر قربان کرنے والا باپ علی محمدکا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ان کا بڑا بیٹا غلام نبی21مئی2002 کو گولتری کے مقام پر برفانی تودہ گرنے کی وجہ سے شہید ہوا۔اس کے بعد ان کے دو فرزند محمد الیاس اور فدا حسین نے پاک فوج بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔ اورمختلف مقامات پر اپنی فرائض سر انجام دینے کے بعد ان کی تعیاناتی دنیا کی بلند ترین اور سرد ترین محاذ جنگ سیاچن میں ہوئی ۔ وہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ گیاری سیکٹر میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔6 اپریل 2010 کو پاک فوج کے یہ جوانان اپنی فرائض کے انجام دہی کے بعدرات کو آرام کرکے صبح پھرسے ہاک سر زمین کی حفاظت کے جزبے کو دل میں بسائے سو رہے تھے۔ کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوا۔ آدھی رات جب سارے جوان آرام کر رہے تھے۔کہ پاک فوج کا یہ چھاﺅنی برفانی تودہ تلے دب گیا۔اور کوئی بھی جوان بچ نہ پایا۔ان شہداءمیں محمد الیاس اور فدا حسین کے نام بھی شامل ہو گئے۔یوں سات اپریل ۰۱۰۲ کو دونوں بھائی خالق حقیق سے جا ملے۔ جب دونوں بھائیوں کے جسد خاکی کو ان کے آبائی گاﺅں لایا گیا تو پاک فوج کے اعلیٰ آفیسران،سماجی و سیاسی ومذہبی شخصیات، سول محکموںکے ذمہ داران اور زندگی کے مختلف طبقات سے وابستہ افراد نے ان کے جنازے مین شرکت کی۔تدفین کے بعد علی محمد نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ” میرے پانچ بےٹے تھے جن میں سے تین بیٹوں غلام نبی،فدا حسین اور محمد الیاس کو وطن عزیز کے لئےقربان کر چکا ہوں۔ ابھی دو بےٹے اللہ کے فضل سے زندہ ہیں اگر وطن اور ملک کو ضرورت پڑے تو میں اپنے ان دو بےٹوں کو بھی قربانی کے لئے پیش کرونگا“۔ اسی طر ح کھرکوہ کے ہر فرد میں جذبہ شہادت بدرجہ عدم موجود ہے۔کارگل اور ۲۷۹۱ کے چند شہداءاور غازیوں کے نام یہ ہیں۔سپاہی فرمان شہید(۸۹۹۱)، سپاہی حبیب شہید(۸۹۹۱)، صوبیدار میجر غلام محمدغازی،سپاہی عبدلکریم غازی،حوالدار حسن غازی، حوالدار محمد ابراہیم غازی اور سپاہی حاجی عیسیٰ مرحوم کے نام نمایاں ہیں۔موقع غنیمت جان کر یہاںوادی کھرکوہ کے محل وقوع اور اس کے باشندوں کے باے میں بھی قارئیں کے لئے چند معلومات قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔یہ علاقہ ضلع گنگچھے کے تقریباََ وسط میں واقع ہے۔یہ علاقہ کوہ قراقرم کے سلسلے سے منسلک ہے اوریہ علاقے کئی قدرتی چشموں کے علاوہ ”ریڈ ماﺅنٹنٹ گلیشئر“ سے آنے والے پانی سے بھی سیرابہوتا ہے۔ اس علاقہ میں سال میںدو بار فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔پہلی فصل جنوری کے آخر میں بوئی جاتی ہے اور جولائی کے پہلے ہفتے میں تےار ہو جاتی ہے جس کے فوراََ بعد دوسری بوائی کی جاتی ہے جس کی کٹائی اکتوبر کے وسط میں کی جاتی ہے۔ پہلے بوئے جانے والے فصلوں میں گندم،جو،آلو اور پیاز شامل ہیں جبکہ دوسری میں باجرہ،لوبیہ،دال مسور اور دیگر فصلیں کاشت کئے جاتے ہیں۔ وادی کھرکوہ کے اوپر پہاڑوں میں بھی ایک خوبصورت زیر کاشت زمین ہے جسکا نام” غوولہ“ ہے وہا ں گندم، مٹر، آلو اور سبزیاں کاشت کئے جاتے ہیں۔یہان کی آب و ہوا معتدل رہتی ہیں۔ضلع گنگچھے میں” یوچونگ “ بعد سب سے گرم ترین علاوہ تصور کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا نام کھرکوہ رکھا گیاچونکہ جب سردیوں میں برف پڑتی ہے تو یہاں برف کم دن ہی جمے رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کا اسے”کھا ہرکوس سہ“ یعنی برف چورسر زمین کہا جاتا ہے۔ کھرکوہ کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتایا جاتاہے کہ پرانے زمانے میں یہاں کے راجہ کا محل پہاڑ پر بنایا ہوا تھا جس کی بناءپر اسے ”کھر“ یعنی ”شاہی محل“ اور ”کوہ“ سے مراد پہاڑ ۔ان دونوں لفظوں کو جوڑ کر ”کھرکوہ“ کا نام دیا گیا۔کھرکوہ کے لوگ نہاےت مہمان نواز، ہمدرد، فیاض،انسان دوست اور علم کے قدر کرنے والے ہیں۔کھانے میں بلتی ڈشیس کے علاوہ چاول، دالیں، گوشت اور سبزیاں بھی بڑے شوق سے پکاتے اور کھاتے ہیں۔ یہ علاقہ گیارہ بڑے اور نو چھوٹے گاﺅں پر محیط ایک یونین کونسل ہے اور گنگچھے حلقہ نمبر ۱ کی سب سے گنجان آباد یونین کونسل مانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں تین ڈسپنسریاں،تین پرئمری،دومڈل اور ایک بوئزاور ایک گرلز ہائی سکولز، سول سپلائی کے ۵ ڈپوز اور چند نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔جہان سے لوگ اپنی علمی پیاس بجاتے ہیں۔ امید کرتے ہیںکہ جب کبھی آپ ضلع گنگچھے تشریف لائےںگے تو وادی کھرکوہ دیکھنے ضرور آئیںگے۔محترم قارئین امید ہے آپ کو راقم کی حقیر کاوش پسند آئی ہو گی۔ اور آئندہ بھی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے۔

Sharing is caring!

About admin

Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan providing latest authentic News. Mountain GB published Epaper too.