شکور علی زاہدی
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں پاکستان سمیت دنیا کے چار بڑے دیگر ممالک سے منسلک ہیں ۔ جغرافیائی اعتبار سے خطے کی اہمیت کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ اس خطے کی اہمیت ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلکل مختلف ہے ۔ 72ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے گلگت بلتستان میں دس اضلاع پر مشتمل 22لاکھ آبادی نسلی ، لسانی ، ثقافتی ، تہذیبی ، جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مذہبی اور مسلکی لحاظ سے بھی یہ خطہ دنیا بھر میں بہت مشہور ہے ۔ کیونکہ اس خطے میں سو فیصد مسلم آبادی ہے جو شیعہ سُنی ، اسماعیلی اور نوربخشی مسالک پر مشتمل ہے ۔جو ظہور اسلام کی آمد سے رشتہ محبت اور اخوت کی فضا میں پروان چڑھے ہوئے آ رہے ہیں جس کی مثال 1947کی انقلابِ آزادی ہے جس میں خطے کے عوام نے مسلک سے بالا تر ہو کر ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جو آج تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موضوعِ بحث بن چکا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد جب خطے کے عوام نے بغیر کسی شرط کے الحاقِ پاکستان کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مضبوط طاقت فراہم کیاتو ملک دشمن عناصر نے پہلی دفعہ گلگت بلتستان میں مسلکی ، لسانی ، نسلی اور دیگر اختلافات کا بیچ بو کر نہ صرف خطے کے عوام کو کمزور کرنا شروع کر دیا بلکہ ایک سازش کے تحت گلگت بلتستان کو متنازعہ بنا کر نہ صرف خطے کو آئینی حیثیت سے محروم رکھا بلکہ گلگت بلتستان کی حیثیت کو ملک سے الگ تصور پیش کر کے پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے کی بھی ناپاک اور ناکام کوشش کی گئی ۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ مسلکی اور مذہبی اختلافات کے کارڈ کو خوب استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے سانحہ 1988سے لے کر 2005کے واقعات اور گزشتہ دو سال قبل KKHکے چار مقامات پر دہشت گردی کے بدترین واقعات دیکھنے میں آئے ۔ لیکن ان تمام سانحات کے باوجود گلگت بلتستان کے محب وطن عوام اور علما کرام نے امن اور اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔08جون 2015کے انتخابات کے بعد منتخب جمہوری حکومت نے اس بات کا مکمل عزم کیا کہ خطے کی ترقی امن و امان اور عدل اور انصاف کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے اہم کارنامہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کے دور قیادت میں گلگت بلتستان میں مکمل طور پر امن و امان کی فضا بحال ہو گئی ۔ اراکین اسمبلی نے اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ خصوصاً وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان ، وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال ، سپیکر فدا محمد ناشاد، سینئر وزیر اکبر تابان ، وزیر تعلیم و وزیر اطلاعات ابراہیم ثنائی اور ڈپٹی سپیکر جعفراللہ کا خطے میں امن و امان بحال کرنے میں اور نظام حکومت کو منظم انداز سے چلانے کے لئے ہمیشہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب تک عوام مذہبی اور مسلکی خول سے باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک علاقے میں امن اور ترقی ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جانب سے قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا ۔ اراکین اسمبلی نے ڈپٹی سپیکر کی قیادت میں عشائیہ میں بھرپور شرکت کی ۔ اس عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر جعفراللہ نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو مسلکی خول سے نکلنے کے بغیر حقوق نہیں ملیں گے ۔ ہمیں سازش کے تحت شیعہ سنی میں لڑایا گیا اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ کہ اب ہم مذید تفرقہ بازی نہیں کریں گے ۔ ملک کے دوسرے علاقوں سے علما آ کر گلگت بلتستان کے عوام اور امن کو خراب کرتے ہیں اور سادہ عوام فوراً تفرقہ بازی میں مبتلا ہوتے ہیں انہوں نے راجہ ناصر عباس سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ دوسرے علما کے برعکس علاقے میں امن اتحاد اور رواداری کو فروغ دینے میں کردار ادا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ ہمارے آباو اجداد نے اپنی مدد آپ کے تحت خطے کو آزاد کرا کر بغیر کسی شرط سے الحاق پاکستان کیا ہے ۔ مگر ہمیں اب تک وہ حقوق اور مراعات حاصل نہیں جو پاکستان کے چاروں صوبوں کو حاصل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ جب تک شیعہ سنی اسماعیلی اور نوربخشی کے خول سے ہم نہیں نکلیں گے اس وقت تک ہمیں آئینی حقوق نہیں مل جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان مظلوم اور بے آئین خطہ ہے ۔ اقتصادی راہداری سے جی بی کے عوام کی تقدیر بدل جائے گی ۔ خطے میں امیر و غریب کی تفریق کو ختم کرنے کے لئے عدل و انصاف کے قوانین لاگو کئے جائیں گے ۔
عشائیہ سے حاجی اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں ہمیں اس منصوبے کو ثبوتاز کرنے والوں کے عزائم کو سب مل کر ناکام بنانا ہوگا۔ یقیناًمجلس وحدت مسلمین کی جانب سے قانون ساز اسمبلی کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ قابل تعریف اور نیک شگون ہے ۔ کیونکہ ایسے پروگراموں کے زریعے مختلف علاقوں اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے درمیان ہم آہنگی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ جس سے ملک میں امن و امان اور اتحاد کی فضا پیدا ہو جاتی ہے ۔ ڈپٹی سپیکر جعفراللہ نہ صرف امن و اتحاد کے داعی ہیں بلکہ علاقہ بگروٹ کے قدیم خاندان کے فرزند ہونے کی وجہ سے شیعہ سُنی دونوں مکتبہ فکر کے سامنے مساوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ماضی اور حال میں گلگت بلتستان میں امن و امان بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اور اب قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی حیثیت سے مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی رٹ کو مضبوط کرنے میں فعال خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام اور علما کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مذہبی اور مسلکی وجوہات صرف گلگت بلتستان میں نہیں ہیں بلکہ شیعہ سنی عوام پاکستان بھر میں مل جل کر بڑی تعداد میں رہتے ہیں ۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب کے 35اضلاع میں کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں شیعہ سنی آبادی مل کر نہ ہو۔ یہی مثال سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے اور دیگر علاقوں کی بھی ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عشرہ محرم کے صرف ایک دن میں دس ہزار مقامات پر مجالسِ اعزا منعقد ہوتی ہیں اور پاکستان کے اندر رہنے والے تمام مسلمان اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرتے ہوئے ایک قوم اور ایک امت ہونے کا ثبوت دیتے ہیں تو پھر گلگت بلتستان میں کیوں مسلکی بُو کو پروان چڑھایا جاتا ہے ۔ تفرقہ بازی ختم کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اپنا عقیدہ چھوڑ کر دوسرے کے عقیدے کو اختیار کیا جائے ۔ بلکہ اس کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے عقائد کے اندر رہتے ہوئے دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں اور سب کو آزادی کے ساتھ جینے کا موقع دیا جائے ۔
بحیثیت مسلمان اسلامی فرقوں کے مابین تعداد کے اعتبار سے اکثریت اور اقلیت کا تصور دینا بھی بلکل غلط ہے کیونکہ اسلامی قوانین اور آئین پاکستان کے لحاظ سے سارے مسلمان فرقوں کو مساوی حقوق اور نمائندگی حاصل ہے نہ اکثریت کو زیادہ مراعات اور حقوق ہیں اور نہ جو کم ہیں ان کو کم مراعات اور کم حقوق ہیں ۔ سب کے حقوق برابر ہیں۔ سب کو یکساں آزادی حاصل ہے اور یہ ملک جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے سب کا ملک ہے ۔ لہٰذا گلگت بلتستان کے عوام ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے خطے میں امن اتحاد کی فضا قائم کریں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کو بنیادی حقوق ملیں گے بلکہ اُس کے زریعے وطن عزیز ترقی کے سنہرے مراحل سے گزرے گا۔