موجودہ پاک چین قتصادی راہداری کا پرانا نام شاہراہ ریشم ہے۔ یہ شاہراہ صدیوں سے تجارت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے ۔اسی لئے تاریخی لحاظ اس کی اہمیت صدیوں پرانی ہے۔
دنیا میں ہمیشہ سے وسائل کی جنگ رہی ہے ۔ وسائل کی ترسیل تجارتی راستوں سے ہوتی ہے اس لئے تجارتی راستے ہمیشہ دفاعی اہمیت کی حامل رہے ہیں ۔ اس لئے اس شاہراہ ریشم کو سیاسی، عسکری اور سٹریٹیجک راہداری بھی کہا جاسکتا ہے۔ شاہراہ ریشم کا ایک قابل ذکر حصہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔ گلگت بلتستان کئی حوالوں سے جغرافیائی طور پر پہلے ہی عالمی اہمیت رکھتا ہے مگر اس کی خاص اہمیت شاہراہ ریشم اور موجودہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے ہے۔ پرانے زمانے میں سفر دریا کے ساتھ ساتھ کیا جاتا تھا اس لحاظ سے یہ علاقہ موزوں تھا دوسرا اس روٹ کو تجارت کے لئے اس لئے بھی استعال کیا جاتا تھا کیونکہ پہاڑوں کی وجہ سے یہ محفوظ تصور ہوتا تھا اور لوٹ مار کا امکان کم رہتا تھا۔ اس کے باوجود اس روٹ پر تجارتی کافلوں کو لُو ٹا جاتاتھا۔ جس کی بنیاد پرمقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مگر اس روٹ پر جب چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئیں تو ان ریاستوں کے حکمران وظیفے کے عوض اس روٹ کی حفاظت کرتے تھے۔ ہم زیادہ پرانی تاریخ پر گئے بغیر صرف گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ اس روٹ کی کیا اہمیت تھی۔
اس روٹ کی اہمیت اور ریاست کشمیر کی حفاظت کے پیش نظر کشمیر کے ڈوگروں نے ۱۸۴۲ ء میں گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ مگر راجہ گو ہر آمان کے ہاتھوں مسلسل شکست کھاتے رہے اور ۱۸۶۰ ء میں گوہر آمان کی وفات کے بعد ڈوگرہ گلگت پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئے ، ا۱۸۵ ء میں چلاس پر قابض ہوگئے اور شاہراہ ریشم کے اس اہم حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
انگریز بر صغیر پر قابض ہوتے وقت ہی اس روٹ کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔ مگر ۱۸۸۰ ء میں انگیریز باضابطہ طور پر اُس وقت اس خطے کی طرف متوجہ ہوا جب ان کومعلوم ہوا کہ روس سے کیپٹن گرام چومسکی پامیر عبور کر کے ہنزہ پہنچ گیا ہے اور میر آف ہنزہ سے دوستی اور معاہدہ کے زریعے مستقبل میں شاہراہ ریشم پر اپنی نقل و حمل بڑھانے کی تدبیر کر رہا ہے۔ روس کی اس پیش قدمی کے حوالے سے اس وقت کا میڈیا شور مچانے لگا۔ کلکتہ سے شائع ہونے والا اخبار ” سٹیٹس مین” نے ۳ اگست ۱۸۸۷ ء میں ایک اداریہ لکھا اور لندن سے شائع ہونے والا ” ٹائمز لندن ” نے ۹ دسمبر ۱۸۹۲ ء میں ایک روسی اخبار ” سوویت ” کا مضمون شائع کیا ۔ جس سے اندازہ ہوا کہ روس شاہراہ ریشم پر پیش قدمی کر رہا ہے۔ ان اطلاعات کی تصدیق کے بعد بر طانیہ نے ۱۸۸۹ ء میں کرنل ایلجرین ڈیورنڈ کو گلگت روانہ دیا ۔ انہوں نے گلگت پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ یہاں ایجنسی قائم کر دی۔ دوسرا کام یہ کیا کہ میر آف ہنزہ اور میر آف نگر سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت ان کو پابند کیا گیا کہ وہ بر طانیہ کے فوجیوں کو نگر اور ہنزہ سے نقل و حمل کی اجازت دیں گے۔ ابتدائی طور پر دونوں ریاستوں کے حکمراں نے معاہدہ قبول کیا مگر بعد میں روس اور چین سے اپنے دیرینہ تعلق کی وجہ سے معاہدہ توڑ دیا۔
کرنل ڈیورنڈ کو اس بات پر سخت غصہ آیا اور انہوں نے نگر اور ہنزہ پر حملہ کر دیا۔ ابتدائی طور پر کئی حملوں میں وہ ناکام ہوئے مگر بعد ازاں پونیا ل لیویز کی مدد سے نگر اور ہنزہ پر قابض ہوا۔ دونوں ریاستوں کے حکمران بھاگ کر چین چلے گئے اور وہاں پناہ لی۔ انگریز کا مقصد یہاں اپنی حکومت قائم کرنا نہیں تھا بلکہ ان دونوں ریاستوں کو اپنے طابع رکھنا تھا۔ اس مقصد سے انہوں نے یہاں دونوں سابقہ میروں کے خاندان سے دو نئے میر مقرر کر دئیے۔ اور ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا جس کے تحت انگریز نے پامیر تک راستہ بنانے کا عہد کیا۔ تاکہ روس کا راستہ رو کا جا سکے۔
میجر براؤن اپنی کتاب ” انقلاب گلگت ” میں لکھتے ہیں کہ ہنزہ اور نگر پر قبضہ کرنے کی لڑائی اتنی اہم تھی کہ برطانیہ کے بادشاہ براہ راست اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس لڑائی میں حصہ لینے والے تین انگریز فوجی آفیسران کیپٹن ایلمر، لیفٹنٹ بوئسر اگن اور لیفٹنٹ میرزسمتھ کو بر طانیہ کے سب سے بڑے فوجی اعزاز” وکٹوریہ کراس ” سے نوازا گیا۔
شاہراہ ریشم کی اہمیت کے پیش نظر کرنل ڈیورنڈ کی منصوبہ بندی کے تحت ۱۸۹۳ ء میں میجر رابٹسن نے پونیال لیویز کی مدد سے چلاس پر قبضہ کیا۔ ۱۸۹۵ ء میں کرنل کیلی نے چترال پر قبضہ کر لیا۔ ان فتوحات کامقصد چترال سے گلگت اور شاہراہ ریشم سے ملنے والے راستے پر قبضہ کرنا تھا۔ اور اس راستے میں موجود موجودہ ضلع غذر کی چار تحصلیوں کو چار پولیٹکل ڈسٹرکٹس بنا کر ان کو گلگت ایجنسی کے ماتحت رکھا۔اس سارے عمل کا مقصد موجودہ اقتصادی راہداری اور ماضی کی شاہراہ ریشم کو اپنے قبضے میں رکھنا تھا۔ اس وقت سے انگریز اس علاقے کی اور اس روٹ کی مکمل نگرانی کرتا رہا۔ بعد ازاں روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو شاہراہ ریشم اور گلگت بلتستان کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ چنانچہ انگریز نے اس علاقے کو براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت رکھنے کا فیصلہ کر لیا اور ۱۹۳۵ ء میں گلگت بلتستان کو ڈوگروں سے لیز(ٹھیکہ) پر انگریز نے اُٹھا لیا اور اپنے تصرف میں رکھا۔
۱۹۴۷ ء میں تقسیم ہند کے دوران انگریز نے لیز ختم کر نے کا فیصلہ کر لیا تو اس وقت بھی وہ شاہراہ ریشم اور موجودہ اقتصادی راہداری کی اہمیت کو فراموش نہیں کر گیا تھا۔ اس لئے گلگت کے آخری انگریز پولیٹکل ایجنٹ کرنل بیکن نے گلگت کو ڈوگروں کے حوالہ کرنے سے صرف تین دن پہلے ۲۹جولائی ۱۹۴۷ ء میں میجر براؤن کو بحیثیت کمانڈنٹ گلگت سکاؤٹس یہاں تعینات کر دیا بعد میں ان کی مدد کے لئے کیپٹن میتھی سن کو بھی بیج دیا جو کہ چلاس میں بطور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ تعینات کر دیا گیا ۔ جب ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ یہاں پہنچ گئے تو کرنل بیکن نے جاتے ہوئے میجر براؤن سے کہا کہ ڈوگرہ گلگت میں تین مہنے سے زیادہ حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ بعد میں وہی ہوا جو بیکن نے کہا تھا اور یکم نومبر ۱۹۴۷ ء کو ڈوگرہ سرکار یہاں سے رخصت ہوا۔ جنگ آزادی گلگت میں براؤن اکیلا انگریز نہیں تھا جنہیں اس عمل میں دلچسپی تھی بلکہ ا ن کے اوپر کرنل بیکن کے علاوہ اُس وقت کے گورنر سرحد سرجارج بر کنگھم ، جنرل سکاٹ اور جنرل گریسی تک سب لوگ اس امر سے واقف تھے کہ گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہوگا۔ اسی لئے جب ۳ دسمبر ۱۹۴۷ ء میں کر نل بیکن اور میجر براؤن نے میجر جنرل سکندر مرزا کے ہمراہ لیاقت علی خان سے راولپنڈی میں ملاقات کی تو ان کو مشورہ دیا کہ گلگت بلتستان میں ایف سی آر کا نظام بر قرار رکھا جائے۔ اس مشورے کا کیا مقصد تھا وہ انگریز ہی بہتر جانتا ہے۔ انگریز یہاں سے جسمانی طور پرچلا گیا تھا مگر فکری طور پر یہاں موجود تھا۔ ان کو شاہراہ ریشم کی اہمیت اور اس پر ہونے والی نقل و حمل میں بڑ ی دلچسپی تھی۔ اس لئے بعد ازاں جب ذولفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر ختم کیا اور شاہراہ ریشم(کے کے ایچ) کی تعمیر شروع کرائی تو انگریز کو یہ سارا عمل بڑا نا گوار گزرا۔
اس ساری صورتحال میں شاہراہ ریشم اوراس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی انگریز کے لئے اہمیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔یہ بات سچ ہے کہ انگریز کی اس خطے میں دلچسپی ماضی کے شاہراہ ریشم اور موجودہ اقتصادی راہداری کی وجہ سے تھی اور ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ یہ خطہ متنازعہ رہے تاکہ ان کو کسی بھی وقت ٹانگ اڑانے میں آسانی ہو۔ انگریز کوموجودہ اقتصادی راہداری کی اہمیت کا اندازہ اس وقت سے ہی تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ اکیسویں صدی میں یہاں کیا کچھ ہونے والا ہے۔
آج بھی عالمی طاقتیں اس اقتصادی راہداری کی اہمیت سے بے خبر نہیں ہیں۔ اس لئے اس راہداری کو گیم چینجر کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اب وسائل کے حصول کے لئے دوست اور دشمن تبدیل کئے جارہے ہیں ۔اس اقتصادی راہداری سے دو ارب سے زائد لوگ براہ راست فائدہ اُٹھائیں گے ۔ چین کی تجارت کم اخراجات کے ساتھ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالگ تک پھیل جائے گی۔ اس لئے چین اس راہداری کے سلسلے میں پاکستان میں ۴۶ ارب ڈالر خرچ کرے گا جس کے زریعے بے شمار سڑکیں، ریلوے لائنوں ، دس سے زائد بجلی گھروں اور۲۹ انڈسٹریل زونز کی تعمیر کی جائے گی۔ ان مقاصد کے لئے پاکستان اور چین نے ۵۶ معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ چین نے اس منصوبے کے بارے میں ۱۹۳۹ ء سے غور کرنا شروع کیا تھا۔ یہ منصوبہ چین کا ۱۳ واں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ ہے اور ۲۱ ویں صدی کا شاہراہ ریشم کی توسیع کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ راہداری چین کو سپر پاور بنانے کا زریعہ بن جائے گی اس لئے عالمی طاقتیں اس کو نا کام بنانے کی پوری کوشش کریں گی ۔
راہداری کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرکزی سڑک سے بیک وقت کئی سڑکیں آکر ملتی ہیں۔ جیسے ندی نالے مل کر دریا بنتا ہے۔ صرف گلگت بلتستان میں دیکھا جائے تو سکردو سے کرگل اور بھارت تک کا راستہ آکر عالم برج کے پاس راہداری سے ملتا ہے، استور سے آزاد کشمیر تک کا راستہ بھی راہداری سے بونجی کے قریب ملتا ہے، اسی طرح غذر سے تاجکستان، وخان، چترال اور افغانستان تک کا راستہ گلگت میں آکر اقتصادی راہداری سے ملتا ہے۔ مذکورہ سڑکوں کے علاوہ گوادر پہنچنے تک سیکنڈ وں سڑکیں مختلف اطراف سے آکر راہداری کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس کی اصل تکمیل ۲۰۴۰ ء میں مکمل ہوگی۔ اس دوران آپٹک فائبر ، گیس اور ریلوے لائنیں بھی گلگت بلتستان سے گزاری جائیں گی۔ ماضی کی شاہراہ ریشم اور موجودہ پاک چین اقتصادی راہداری اپنی اہمیت کے اعتبار سے بام عروج تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی عالمی منظر نامے میں اہمیت بھی ماضی کی نسبت بہت بڑھ گئی ہے۔ اقتصا دی راہداری اور گلگت بلتستان لازم و ملزوم ہیں ، موجودہ وقت میں دونوں کی اہمیت مسلمہ حقیقت ہے ۔
اب سوال یہ نہیں ہے اس راہ داری میں کس کو کتنا حصہ مل رہا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ اس نئے گیم میں اہم کردار ادا کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیوں کہ گیم میں حصہ لینے کے لئے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ صلاحیت سے مراد اپنی سیاسی ، علمی اور ذہنی سمجھ بوجھ کے بل بوتے پر فیصلہ سازی میں حصہ دار بننا ہے یا پہلے سے کئے گئے فیصلوں کو اپنے حق میں تبدیل کرانے کی اہلیت حاصل کرنا ہے۔ گلگت بلتستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے پاس گذشتہ دو سو سالوں سے زائد عرصے سے اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رہا ہے۔ ڈوگروں اور انگریزوں نے جواختیار ان سے چھین لیا تھا وہ آج تک ان کو واپس نہیں ملا ہے۔ یہاں کے لوگ آج بھی فیصلہ سازی اور سیاسی نظم و نسق چلانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ چنانچہ موجودہ نئے گیم میں جس کے اندر صلاحیت نہ ہو وہ واویلا مچا تا رہے گا جبکہ ماہر کھلا ڈی اپنا گیم جاری رکھیں گے او ر تاریخ گواہ ہے کہ نااہل قوموں کوفاتح قوموں کی خوشیوں کے شادیانوں کی آوازیں سننے کے علاوہ کچھ نہیں ملا کرتا ہے ۔ ایسے بھی “بے گانہ شادی میں عبداللہ دیوانہ” کے
مصداق نااہل لوگ دوسروں کی خوشیوں میں ناچنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
گلگت بلتستان کے لوگ سیاسی طور پر آج بھی یتیم ہیں اس لئے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس نئے گیم میں ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہوگا۔ یہ صرف کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر نئے گیم کا تماشا دیکھ سکتے ہیں کیونکہ تماشا دیکھنے کے لئے کسی خاص صلاحیت اور میرٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔