گلگت بلتستان میں فون اور انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے صحافت میں مشکلات

ایک صحافی کی مشکلات : نہ فون میں
 سگنل، نہ انٹرنیٹ کا ساتھ۔
تحریر شیرین کریم
(فون اور انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے صحافت میں مشکلات)
میرے موبائل میں تو سگنل نہیں آرہے اب میں یہ خبر اپنے چینل تک فوری کیسے پہنچاؤں گا؟
اس علاقوں میں تو انٹرنیٹ سروس بھی میسر نہیں میں کیسے لائیو کوریج دوں گا ؟ یہ وہ سوال ہے جو گلگت بلتستان میں خبر کی تلاش میں نکلے ہر صحافی کے ذہن میں آتے ہیں۔
پاکستان میں سالوں سے فور جی4G سروس چل رہی ہے اور اب تو فائیو جی5G بھی شروع ہونے والا ہے ۔مگر گلگت بلتستان میں آج بھی انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں۔افسوس کی بات یہ ہے یہاں تو کال بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے اور انٹرنیٹ چلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اور اگر غلطی سے سگنل آ بھی جائیں تو موبائل ڈیٹا ای(E) میں نظر آتا ہے۔
گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی سروس نہ ہونے کی وجہ شعبہ صحافت بہت بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ایک صحافی کو خبر کی ترسیل میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہ بات غور طلب ہے کہ ایک صحافی کو دور دراز علاقوں میں کوریج کے لیے جانا پڑتا ہے نہ وہاں پر فون سروس ہوتی ہے نہ کوئی انٹرنیٹ کی سروس اور ایسے حالات میں کیسے ہوگی صحافت؟
صحافی عنایت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سروس میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔خبروں کی ترسیل میں دیری آجاتی ہے ۔انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایک خبر گھنٹوں بعد دوسری جگہ پہنچتی ہے۔ گویا یوں لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں آج بھی ہم ستر کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کئ دنوں کا سفر کر کے دور دراز علاقوں میں جا کے ان کو پروگرام کی کوریج کرنا ہوتی ہے اور فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے خبر بھی کئی دنوں بعد اخبار کی زینت بنتی ہے۔ عنایت کے مطابق اگر انٹرنیٹ یا فون سروس ہو تو فوراً ہی یہ خبر عوام تک پہنچ جاۓ گی۔
اسی طرح صحافی فدا علی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صحافت کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے کیونکہ یہاں پہ تو فون سروس کا نام و نشان نہیں اور انٹرنیٹ سروس کا تو سوچ ہی نہیں سکتے۔ خود جا کے خبر اکھٹی کر کے آنا پڑتی ہے پھر آفس میں بیٹھ کے وائی فائی کی مدد سے خبر کو نشر کیا جاتا ہے۔ اور اس عمل میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ھے کہ سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سروس کو بہتر بنایا جائے گا اور اس امید پر ہم یہ خیال کرکے بیٹھے ہیں کہ شاید صحافت ہمارے لیے آسان ہو جائے اور لوگوں کو وقت پر خبر سننے کو ملے۔ مگر افسوس یہ خواب ابھی تک خواب ہی ہے۔
گلگت پریس کلب کے صدر خورشید احمد سے جب انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے صحافت میں مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا توان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی زندگی کے بیسوں سال انہیں دشواریوں کے نظر کیے۔ انہیں انٹرنیٹ میسر نہ ہونے کی وجہ سے کافی دنوں بعد خبر چھاپنی پڑتی تھی۔ ان کے مطابق گلگت بلتستان میں تو لائیو کوریج کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ تو اب موبائل فون کے آجانے کی وجہ سے ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے مگر انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ لائیو کوریج بھی لائیو نہیں کہلائی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑی علاقے میں بڑے بڑے کیمرے اور ڈیجیٹل آلات لے جانا مشکل ہے۔ اس لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروس ہیں صحافت کو آسان بنا سکتی ہے انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اتنے برس انتظار کرنے کے بعد بھی آج انٹرنیٹ سروس صرف گلگت بلتستان کے چند شہروں میں ہی میسر ہے اور دو دراز کے گاؤں اور علاقے آج بھی اس سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حسرت ہی رہ گئی ہے کہ وہ کسی دور علاقے میں جا کے لائیو کوریج دیں اور ان کے فون پے انٹرنیٹ چل رہا ہو۔
صحافی کرن قاسم نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکچھ اس طرح کیا کہ وہ ایک دفعہ ٹورسٹ کی رائے جاننے کے لئےاپر فیری میڈوز گئی ہوئی تھی۔وہاں پر ان کو فون سگنل نہ ہونے اور انٹرنیٹ سروس میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے فیری میڈوز میں انٹرنیٹ سروس کو کوستے ہوئے بتایا کہ ان کو دو دن وہاں قیام میں ایک لمحہ بھی اپنی ویڈیوز پوسٹ کرنے کا موقع نہ ملا۔ اور تین دن بعد جب وہ گلگت شہر واپس گئ تب ہی اپنی ویڈیوز کو پوسٹ کر پائی اور فیری میڈوز میں ٹورسٹ کی رائے کو عوام کے سامنے پیش کر پائی۔ انہوں نے دکھ سے کہا کہ ایسی صورتحال میں فیری میڈوز کے عام لوگوں کی آواز اور ان کے مسائل کو کیسے سب کے سامنے پیش کیا جائے گا؟ فون اور انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے کوئی صحافی یہاں کا رخ نہیں کرتا۔
ٹیلی کام حکام اور نمائندوں سے جب اس کے بارے میں رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے عام عوام اور خاص طور پر صحافیوں کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید جب پوچھا گیا کہ اس سروس کو بہتر بنانے میں آپ لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ایس سی او SCO اور دوسری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز نے گلگت بلتستان میں فور جی سروس لانچ کرنے کا پختہ عہد کیا ہے اور حکومت کی طرف سے بھی عمل کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ایس سی ہو (SCO) کے اعلیٰ افسر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان میں صحافت بہت مشکل ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صحافیوں کی بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ فون پر سگنل نہ آنے کی وجہ سے ان کو خبر کی ترسیل میں بہت دشواری کا سامنا ہے۔اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز بڑی تیزی سے گلگت بلتستان میں فور جی سروس کا کام کر رہی ہیں۔
گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں پہلے کی نسبت اب کافی تبدیلی آئی ہے  جگہ جگہ ٹاور نسب کئے ہیں اور مرحلہ وار ان علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں عوام کو سہولت مہیا کرنے کیلئے اپنی بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔
اب یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ کہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز نے فور جی کا خواب تو دکھا دیا ۔مگر کیا اب واقعی ہی یہ خواب پورا ہو گا؟ کیا صحافیوں کی مشکلات کم ہو نگی؟ کیا صحافی اب انٹرنیٹ استعمال کر کے اپنی خبروں کو ملک بھر میں جلدی سے پہنچا سکیں گے؟ یہ وہ سوال ہیں جس کے جواب کا انتظار گلگت بلتستان کی عوام اور خاص کر شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ امید لگاۓ کر رہے ہیں۔ شاید اب باقی یہ وقت آ چکا ہے گلگت بلتستان میں اچھی انٹرنیٹ سروس فرام کی جائے۔ تاکہ صحافیوں کے لیے دور دراز علاقوں میں جا کر خبروں کو اکھٹا کرنا اور ان کو وقت پر شائع کرنا آسان ہو جائے۔
وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے اس حوالے سے بتایا کہ گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی فراہمی میں ایس سی او اپنا بہتر کردار ادا کر رہا دور دراز علاقوں استوار اور سکردو ہنزہ میں بھی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی اور بہتری  کے لئے ٹاورز نصب کئے ہیں گورنمنٹ بھی گلگت بلتستان انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنائے گا پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی فراہمی کے حوالے سے ایس سی او کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیلی کمیونیکیشن کے ساتھ ایم او یو بھی سائن کیا ہے بہت جلد گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی سہولت کو بہتر بنانے کیلئے کام شروع ہوگا۔ اور عوام خاص کر سٹوڈنٹس کے انٹرنیٹ سے متعلق پیش آنے والے مسلے کو حل کیا جائے گا

Sharing is caring!

About Samar Abbas Qazafi

Samar Abbas Qazafi is Cheif Editor / Owner of Daily Mountain Pass Gilgit Baltistan