گلگت (سٹاف رپورٹر)سرینا ہوٹل گلگت میں منعقدہ سیمینار میںسیکرٹری فوڈلائیو سٹاک اینڈفشریز گلگت بلتستان خادم حسین سلیم، سیکرٹری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ڈاکٹرکفایت اللہ ، ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر فرمان علی ، آغا خان رُورل سپورٹ پروگرام ، قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کے ممبران اور ڈیری فارمرز نے شرکت کی۔اس موقع پر کفایت اللہ صاحب نے کہا کہ ڈیری سیکٹر کی بہتری کیلیے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال انتہائی اہم ہے تاہم اس سلسلہ میں ان پرودکٹس کا انسانوں اور جانوروں کیلیے محفوظ ہونا انتہائی اہم ہے ۔ ایسی جدیدپروڈکٹس جو تحقیقات سے محفوظ ثابت ہیں انہیں لازمی استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم ٹیکنالوجیز سے مستفید ہو سکیں۔ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی عوام الناس کی صحت اور بہتری کیلیے کوشاں ہے اور اس سلسلہ ہر قسم کے تعاون کیلیے تیار ہے۔لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کیجانب سے ڈاکٹر مدثر نے ڈیری سیکٹر میں استعمال ہونےوالی بائیو ٹیکنالوجیکل پروڈکٹس کے حوالہ سے مختصر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مصنوعی تُخم ریزی، ایمبریو ٹرانسفر، ری کمبی نینٹ بووائن سومیٹو ٹرافن ہارمون، ہائیڈروپونک چارہ جات چ جدیدٹیکنالوجیز کی چند مثالیں ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز نے ڈیری سیکٹر میں کافی بہتری پیدا کی ہے۔قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ ایگریکلچر اینڈ فوڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر سرتاج علی نے لائیو سٹاک پروڈکشن کے پائیدار حل(Sustaianable Livestock Production) کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اس شعبہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے ممکنہ حل سے آگاہ کیا۔ڈاکٹر محمد مبین نے گلگت بلتستان کے علاقہ میں ڈیری سیکٹر کی موجودہ صورتحال اور اس میں بہتری کے حوالہ سے ضروری اقدامات سے آگاہ کیا،انہوں نے کہا کہ گلگت میں مقامی جانور کی اوسط پیداوار صرف ۲ سے ۳ لیٹر ہے جبکہ یہاں کا ٹھنڈا موسم زیادہ دودھ دینے والی گائے فریزین اور جرسی کیلیے انتہائی موضوع ہے۔ مویشیوں میں دودھ بڑھانے اور صحت کو برقرار رکھنے میں بائیو ٹیکنالوجییکل پروڈکٹ ری کمبی نینٹ بووائن سومیٹو ٹرافن ہارمون کے کردارپر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایاکہ پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے دُودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور فارمرز میں خوشحالی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ہونیوالی سائنسی تحقیقات کا ایک جائزہ بھی پیش کیا گیاجس میں بتایا گیا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونیوالی تحقیقات سے مویشیوں کی صحت ، تولیدی افزائش اور دودھ کی پیداوار پرrbst کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے اشتراک سے نیلی راوی اور کُنڈی بھینس پر ہونے والی ۳ سالہ ریسرچ ، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، ٹنڈوجام اور پشاور میں ہونیوالی تحقیقات کے مثبت نتائج بھی اس بائیو ٹیکنالوجیکل پروڈکٹ کی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس موقع پر ڈاکٹر فرمان علی سیمینار کے شاندار انعقاد پر منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کیا اور مستقبل میں بھی ایسی مفید سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی امید کا اظہار کیا، انہوں نے لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کو درپیش مشکلات کے حوالہ سے بھی آگاہ کیا۔ سیکرٹری لائیوسٹاک جناب خادم حسین نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لائیوسٹاک سیکٹر کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے اور اس سیکٹر کو بہتر کرکے ہم ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔اس حوالہ سے نئی ٹیکنالوجیز کا خوش آمدید کہنا چاہیے تاہم ان کے مثبت اور منفی تمام پہلوﺅں کو مد نظر رکھنا انتہائی اہم ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کو درپیش مشکلات کا جلد ازالہ کیا جاسکے تاکہ اس سیکٹر کی بہتری میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔آخر میں ڈاکٹر طیفور خان نے تمام شرکاءکا شکریہ اداکیا اور مستقبل میں بھی ایسے سیمینار کے انعقاد کی خواہش کا اظہار کیا۔ڈاکٹر سید اشتیاق حسین نے بطور سٹیج سیکرٹری فرائض انجام دیئے ۔۔۔