دنیا کے حل طلب مسائل جن میں اقوام متحدہ اب تک ناکام رہی ہے ان میں مسئلہ فلسطین کے بعد مسئلہ کشمیر آتا ہے۔ جی ہاں وہی مسئلہ کشمیر جس سے ذبردستی نتھی کر کے گلگت بلتستان کو گزشتہ 68 سالوں سے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی کیفیت میں رکھا ہوا ہے۔ دوستو اور میرے وطن کے نوجوان طلباو طالبات آج کی میری یہ کاوش گلگت بلتستان کے مسئلے پر ان حقائق پر روشنی ڈالنا ہے جن کو بیان کرنا از حد ضروری ہے تاکہ ہماری آج کی نسل حقائق سے آگاہ رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرسکیں۔
ہاں تک گلگت بلتستان کا مسئلہ کشمیر سے تعلق ہے تو اسکے دو پس منظر ہیں۔اوّل کشمیریوں کا 1947 سے پہلے ریاست کا حصہ ہونے کو جواز بنا کر ملکیت کا بے بنیاد دعوی۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان پر 1847 کےعشرے میں زبردستی قبضہ کیا تھا، جس کو قریب سو (100) سال بعد ہمارے غیور آباو اجداد نے بذور طاقت ہی ختم کردیا۔ پھر کشمیریوں کے اس بےبنیاد دعوے کی قلعی انکے قول و فعل کے تضاد سے بھی کھل جاتی ہے جب وہ گلگت بلتستان کو اپنا حصہ تو کہتے ہیں لیکن جب کشمیر پر الیکشن ھوتے ہیں اور جب اسمبلی میں جاکر حکومت کرنے کی باری آتی ہے تو گویا اجنبی بن جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان مسئلہ کے حل نہ ہونے کی وجہ پاکستان کے پالیسی سازوں کی وہ سوچ ہے جس میں پورے کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے گلگت بلتستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ بنائے رکھنے سے کل استصواب رائے میں پاکستان کے لئے زیادہ ووٹ ملےگا۔ جبکہ راقم کے خیال میں حقوق سے محروم رکھ کر اور انہیں باہم لڑا کر نہیں بلکہ عوام کو خوش کرکے اور ان کے دل جیت کر ہی انہیں اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔
گلگت بلتستان کے مجوزہ مستقبل کے حوالے سے جہاں وفاق اور وفاقی پارٹیاں عوام کو دھوکہ دیتی ہیں بلکہ قوم پرستی کی سیاست کرنے والی کئی جماعتیں بھی نوجوانوں کو حقائق بیان کرنے کی بجائے سبز باغ دکھاتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے پہلے گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانا مسئلہ کشمیر کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ کشمیر پر پاکستان کی بنی اس پالیسی کے لئے نقصان دہ ہے جس کے تحت عوام کو الجھائے رکھ کر انکے وسائل اور حقوق کو ایک مخصوص طبقہ ہڑپ کرجاتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر کو ایک خودمختار سیٹ اپ دینے اور بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو ریاست کی آیئنی شکل دینے مسئلہ کشمیر کو نقصان نہیں پہنچتا تو گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ یا مقبوضہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے سے کیسے نقصان ہوسکتا ہے۔ اور اگر بات کی جائے ہمارے قوم پرستوں کی جو آزاد ریاست کی بات کرتے ہیں اور اسکے لئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر 3 جون 1947 کے منصوبہ تقسیم ہند کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق ریاستوں کے پاس تین آپشن تھے کہ وہ چاہیں تو پاکستان میں شامل ہوں ، چاہیں تو بھارت میں یا پھر آزاد ریاست کی شکل میں۔ 1948 کی پاک بھارت جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر میں ریاست کشمیر کے لوگوں کے لئے بھی وہی تین آپشنز دی تھیں لیکن شملہ معاہدہ میں پاکستان اور بھارت نے کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ بناکر تیسری آپشن ہی ختم کردی ہے۔اب ریاست کے باشندوں کے پاس صرف پاکستان اور بھارت کی آپشن ہی رہ گئی ہے۔
زبردستی ہی سہی گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا گیا، تو اب دیکھنا ہوگا کہ آج گلگت بلستان کہاں کھڑا ہے اور آگے کیا ہوسکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ استصواب رائے کراتی بھی ہے تو گلگت بلتستان والوں کو ریاست کشمیر کے باشندوں کے طور پر ہی پوچھا جائیگا۔ اس صورت میں بھی ریاست کے اجتماعی ووٹ کی بنیاد پر گلگت بلتستان پاکستان، آزاد کشمیر یا بھارت کا حصہ تو بن سکتا ہے لیکن ایک آزاد ریاست نہیں۔ سوائے اس ایک صورت کے کہ گلگت بلتستان کے نوجوان اور باشندے گلگت بلتستان کے مسئلے کو اتنا مضبوط اور عالمی افق پر اتنا اجاگر کریں کہ اقوام متحدہ استصواب رائے میں گلگت بلتستان کی عوام کے لئے آزاد ریاست گلگت بلتستان کی ایک الگ آپشن کے اضافہ پر پاکستان اور بھارت کو راضی کرائے جو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ان حالات میں جب گلگت بلتستان علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر باہمی تقسیم کا شکار ہے اور علاقہ اور عوام بنیادی انسانی و شہری حقوق بشمول حقِ حکومت و رائے دہندگی اور آیئنی تحفظ سے محروم ہے، نوجوان طبقے کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نوجوان جہاں قومی اتحاد و بھائی چارے کے لئے کام کرتے ہیں وہیں پر گلگت بلتستان کےآیئنی و قانونی تشخص اور عوام کے بنیادی حقوق کے لئے بھی منظم ہوکر کام کریں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بن سکتا لیکن مسئلہ کشمیر کے حل تک آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ تو دیا جاسکتا ہے۔ وہ بھی تب جب گلگت بلتستان کے عوام متحد ہو اور حکمرانوں کو اس بات پر قائل کیا جائے۔ 2013 میں راقم سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا یا جب تک پاکستان کی کشمیر پالیسی نہیں بدلتی گلگت بلتستان ایسے ہی رہیگا۔ گلگت بلتستان کی عوام اگر متحد ہو تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ ملنا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کشمیر پالیسی بھی ہل سکتی ہے۔ نیک تمناوں اور بہتر مسقبل کی دعا کے ساتھ پھر آپکی خدمت میں حاضر ہونگا۔