مجوزہ عبوری آئینی صوبہ
in اداریہ / کالمز
28/01/2016
2,636 Views
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا پنڈورا بکس کھل جانے کے بعد ہر کوئی حصہ بقدر جثہ اس مسلے پر رائے زنی کر رہا ہے۔ اس بات پر گلگت بلتستان کے تمام باسی متفق ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہیے ۔ مگر اس بات پر اتفاق رائے نہیں پائی جاتی ہے کہ حقوق کس شکل میں ملنے چاہیے۔ اسی طرح وفاقی حکومت اور ارباب اختیار بھی اس دفعہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگو ں کی سیاسی محرومی ختم کی جائے ۔مگر وہاں بھی سٹیک ہولڈرز میں اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے کہ حقوق کس شکل میں دئیے جائیں۔ ادھر اینٹی ٹیکس موومنٹ ، عوامی ایکشن کمیٹی اور گلگت بلتستان یوتھ کی طرف سے بھی حقوق کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ ان تمام کا کہنا ہے کہ ہم حقوق کے حصول تک ٹیکس نہیں دیں گے۔ مگر وہ حقوق کس شکل میں ہوں اس حوالے سے یہ تینوں تحریکیں یک آواز نہیں ہیں۔ کشمیری قیادت بھی گرم تندور میں روٹی لگانے میں مصروف ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر سے الگ کیا گیا تو کشمیر کی کہانی بے تکی ہو جائے گی۔ انہوں نے گلگت بلتستان کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ بنانے کی شدید مخالفت کی ہے اور ایسی کسی بھی حرکت کو کشمیریوں کے خون سے غداری کے مترادف قرار دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دنوں گلگت بلتستان کا مسلہ اس شدت سے وفاق کو کیوں یاد آ یا ہے؟
اس کی ایک وجہ تو گلگت بلتستان میں پائی جانے والی سیاسی محرومی ہے ۔ دوسری وجہ پاک چین اقتصادی راہداری بتائی جاتی ہے ، اور تیسر ی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کو حقوق دینے میں باقی جماعتوں سے سبقت لے جانا چاہتی ہے۔
چنانچہ یہ ایک مناسب موقع ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ کسی ایک نقطے پر متفق ہو جائیں تاکہ جتنے حقوق دئیے جاسکتے ہیں وہ ایک ساتھ دئیے جائیں ۔ تاکہ آئندہ کے لئے یہ خطہ اور اس کے حقوق ایک معمہ بن کر نہ رہیں۔ مگر مسلہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کا معاملہ صرف وفاق اور جی بی کے درمیان کا مسلہ نہیں ہے ۔ اس میں کشمیریوں کے علاوہ، اقوام متحدہ میں کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق پاکستان کا موقف اور بھارت کا کشمیر سمیت گلگت بلتستان پر دعویٰ بھی آڑے آتا ہے اور سب سے بڑ ھ کر گذشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک اس خطے کو کشمیر کے مسلے کے ساتھ جوڑکر حقوق کے معاملے میں لٹکائے رکھا جاناہے۔
اس صوتحال میں باقی تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک طرف رکھ کر صرف گلگت بلتستان میں دیکھا جائے تو یہاں کے باسی ایک نقطے پر متفق نہیں ہیں۔ اگر چہ ایک بڑا طبقہ مکمل صوبہ مانگتا ہے جس میں وفاقی سیاسی جماعتوں کے صوبائی چپٹرز کے علاوہ چند مذہبی جاعتیں بھی شامل ہیں ۔ دوسری طرف ان کے مقابلے میں ایک طبقہ اس خطے کو کسی صورت کشمیر سے الگ دیکھنا نہیں چاہتا ہے ان کا مطالبہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ یا کشمیر میں اس علاقے کو ضم کرکے ایک مشترکہ سیٹ اپ دینا ہے ان میں چند مذہبی جماعتوں کے علاوہ کچھ کشمیر اور گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ ایک اور طبقہ ہے جو کہ صرف گلگت بلتستان کی قوم پرست جماعتوں اور ان کے ہم نواوں پر مشتمل ہے یہ طبقہ گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی الگ شناخت کو تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے ۔ اس طبقے کو مسلہ کشمیر کے حل تک اس علاقے کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ منظور ہے مگر اس کے بعد یہ اپنی الگ شناخت بر قرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس حساب سے یہ طبقہ کشمیر میں شامل ہونے والوں کے زیادہ قریب ہے ۔
مذکورہ صورتحال میں ہم اگر یہاں حقوق کے حوالے سے پائی جانے والی سوچ کو پرکھیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گلگت بلتستان میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے ۔ ایک یہ کہ کشمیر کو بھول جاؤ اور گلگت بلتستان کو پاکستان کامکمل صوبہ بناؤ والی سوچ اور دوسرا یہ کہ گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر سے الگ کئے بغیر کوئی بھی سیٹ اپ دیا جائے قبول ہے۔
صوبہ بنانے والی بات اکثریت کی خواہش ضرور ہے مگر اصل حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ صوبہ بنانا ہی تھا تو پاکستان اس خطے کو آج سے ستر سال قبل بنا لیاجاتا۔اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد صوبہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ صوبہ نہ بنانے کے پیچھے بڑی مجبوریا ں ہیں۔ اگر صوبہ بنایا گیا تو یہ عمل پاکستان کی طرف سے موجودہ متنازعہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بانڈری کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ جس کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر پاکستان کادعویٰ کمزور پڑ جائے گااور گذ شتہ نصف صدی سے زائد عر صہ پر محیط پاکستان کا کشمیر پر موقف اور اس پر اُٹھنے والے سیاسی و عسکری اخراجات سب رائیگاں جائیں گے۔ بہر حال اگر صوبہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی تو یہ اتنا آسان کام نہیں ہوگا ۔ کشمیر کے دونوں اطراف، پاکستان اور گلگت بلتستان میں موجود کشمیر نواز جماعتوں اور بھارت کی طرف سے واویلا مچ جائے گا جس کو ٹھنڈا کرتے کرتے کافی وقت گزرے گا۔ اگر پاکستان اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود صوبہ بنا لیتا ہے تو یہ گلگت بلتستان کے لوگو ں کی اکثریت کی رائے کا احترام تصور ہوگا ۔مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے کے لئے پاکستان کے پالیسی ساز ادارے اس لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اس سے علیحدگی پسند قوتوں کو شہہ مل سکتی ہے۔ اور اسی طرح الگ شناخت برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کسی قیمت پر تیار نہیں ہوگا یہ محض ایک خام خیالی تصور کی جائیگی ۔کشمیر میں ضم کرنے کے حق میں یہاں کی اکثریت نہیں ہے کیونکہ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس سے کشمیری گلگت بلتستان کے اوپر حاوی ہونگے اور یہاں کے لوگوں کی کشمیر میں کوئی سے (انگریزی والی) نہیں ہوگی۔
کچھ بھی نہ دینے اور موجودہ سیٹ اپ برقرار رکھنے میں اصل مسلہ جو درپیش ہے وہ اس خطے کے عوام کی سیاسی محرومی اور یہاں سے اٹھنے والی حقوق کی آوازیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان محرومیوں کا حل کیسے نکلا جائے؟ کیسے گلگت بلتستان کے لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ آپ برابر کے پاکستانی ہیں اور پاکستان کے مرکزی پالیسی ساز اداروں میں آپ سٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتے ہیں؟
تمام تر زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں کے پاس صرف ایک ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے وہ ہے عبوری آئینی صوبہ ۔ اور آجکل دیگر آپشنز کے ساتھ اسی آپشن پر غور ہورہا ہے ۔ جو شکل و صورت اور اختیارات کے اعتبار سے اصل صوبہ ہوگا مگر صرف اس شرط کے ساتھ ہوگا کہ کشمیر کے مسلے کے حل کے دوران اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائیگا۔
اس مجوزہ عبوری آئینی صوبہ کے لئے پاکستان کے1973 ء کے آئین کے آرٹیکل d 1(2) میں ترمیم کی جائی گی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کو آبادی کے تناسب سے تین جنرل اور ایک خواتین کی مخصوص سیٹ دی جائے گی ۔ سینٹ آف پاکستان میں دیگر صوبوں کے مساوی نمائندگی مل جائے گی۔ گلگت بلتستان کونسل ختم کی جائے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ کار گلگت بلتستان تک بڑھایا جائیگا۔ یہاں صوبائی ہائی کورٹ اور اس کے ماتحت عدالتیں ہونگی۔ دیگر صوبوں میں موجود تمام آئینی ادارے یہاں قائم ہونگے ۔ جبکہ کونسل آف کامن انٹرسٹ اور این ایف سی ایواڑ سمیت ارسا وغیرہ میں جی بی کی نمائندگی ہوگی۔ قانون سازی سے لیکر دیگر معاملات میں چاروں صوبوں کے مساوی حقوق حاصل ہونگے۔یہ کم و بیش وہی سیٹ اپ ہوگا جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دے رکھا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس سیٹ اپ سے صوبہ کا مطالبہ کرنے والوں کی تقر یبا خواہش پوری ہوجاتی ہے جبکہ کشمیر کے مسلے کے ساتھ جڑے رہنے کی خواہش کا بھی احترام ہوتا ہے۔ پاکستان کا کشمیر کے اوپر بین الاقوامی موقف کی بھی تائید ہوتی ہے اور ایسے سیٹ اپ سے کشمیر ی بھی خفا نہیں ہونگے۔ یہ win win صوتحال بنتی ہے جس سے تمام سٹیک ہولڈرز کی تسلی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی آپشن مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ مجوزہ آئینی صو بہ موجودہ گورننس آرڈر سے بہتر سیٹ اپ ہوگا ۔ یہ مکمل صوبہ ہوگا مگر کشمیر کے مسلے سے جڑا ہوگا تاکہ اس آپشن کو اپنانے میں پالیسی ساز اداروں کو مشکل پیش نہ آجائے۔اس پر عملدرآمد سے سیاسی محرومیوں کا مکمل نہیں تو کافی حد تک ازالہ ہوسکتا ہے۔
Sharing is caring!
2016-01-28