دنیا خواب کے اندر خواب ہے۔ کون جانے خوابوں کا نگر حقیقت ہو یا حقیقت کا نگر خواب۔ خواجہ میر درد کا شعر ہے
وائے ناکامی، وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔
شمال کی چاہ میں شمال کے نگر کا بار بار سفر کرنے والے مسافر کے پاس اس کا کل اثاثہ خواب ہی تو ہوتے ہیں جن کی تعبیر کا پیچھا کرتے وہ پھر سے ایک نئے سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ تعبیر کی جستجو میں مزید خواب ہی آتے رہے، کسی خواب میں جنگل سے پیاسا نکل کر دریا کنارے پہنچ کر کھڑے رہنا، پھر بنا پانی پیے پتھروں سے بھرے میدان میں، جو وادی سالتورو کے راستے میں آتا ہے، پہنچ جانا۔
خواب در خواب سفر ہوتا رہا، آنکھ کھلی تو دنیا نے فنکاری کا طوق گلے میں ڈال دیا۔ یہ طوق اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ ایک طرف اس کو اٹھائے رکھنے میں اور دوسری طرف اپنی خامیاں چھپانے میں انسان ساری توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سیکھتے سیکھتے میں خود کہیں اور ہی کھو گیا۔ وہ جو بے ساختہ پن والا انسان تھا گم ہو گیا۔ اب بھی خوابوں کی تعبیر کا کوئی نام و نشان ہے نہ ہی اس راہ میں کوئی مِیل کا پتھر دکھائی پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر سفر ہی خوابوں کے نگر کا ہو تو؟
شمال میں بسا ضلع ہنزہ نگر خوابوں کا نگر ہے۔ ہنزہ اور نگر ماضی میں دو الگ ریاستیں رہیں، اور ان دونوں کو بیچ میں بہتا دریائے ہنزہ الگ کرتا تھا۔ دریا دونوں ریاستوں کی سرحد ہوا کرتی تھی۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا، جس کا دارالحکومت ڈونگس تھا۔ یہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا، اور یہ آج کے نگر اور ہنزہ پر مشتمل تھا۔
چونکہ ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشئیرز تھے جن کے بڑھنے سے وہاں کا نظامِ آبپاشی سخت متاثر ہوا تو لوگ ہوپر میں آکر آباد ہوئے۔ اس کے بعد راجہ میور خان کے بیٹوں مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ہنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ہنزہ چھوٹی ریاستں تھیں، اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والے تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔
انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھیں، اس لیے 1891 میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا، اور نگر کی طرف چڑھائی شروع کی گئی۔ نگر کا دفاعی قلعہ نلت کے مقام پر واقع تھا۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہنچ گئی، اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر محیط آزادی ختم ہوگئی۔
انگریزوں سے نکل کر ریاست کا انتظام کشمیر کے مہاراجہ کے سپرد ہو گیا مگر مرکز سے دوری کی بنا پر مقامی لوگ اپنی من مانی ہی کرتے رہے۔ ریاست نگر کا دارالحکومت ڈونگس، نگر خاص میں واقع تھا جہاں بادشاہ کا محل اور دربار ابھی تک موجود ہے۔ یہ دارالحکومت مغلوٹ شاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر شوکت علی خان تک قائم رہا۔
نگر کو برف پوش پہاڑوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ راکاپوشی، نگر کی وادی غلمت میں واقع ہے جبکہ دران پِیک نگر کی وادی مِناپن میں سینہ تانے کھڑی ہے۔ ہوپر تو نگر کے ماتھے کا جھومر ہے، جہاں سے ایک راستہ پاکستان کی بلند ترین جھیل رش لیک کو نکلتا ہے تو وہیں پر ہوپر گلیشیئر، گولڈن پِیک، برپو گلیشیئر، بولتر گلیشیئر، اور میار گلیشیئر ظہور پذیر ہیں۔
نگر کا حسن پہلی بار مجھ پر حادثاتی طور پر آشکار ہوا۔ میں قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا ہنزہ جا رہا تھا۔ مناپن کے قریب لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے راستہ بند تھا، اور گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میرے جیپ ڈرائیور نے گاڑی مناپن گاؤں کے اندر ڈال لی۔ اس دن میں نگر کی وادیوں سے ہوتا ایک پرخطر کچے تنگ راستے پر سفر کرتا اور نیچے قراقرم ہائی وے کو دیکھتا رہا کہ جہاں دونوں اطراف لینڈ سلائیڈ اور اس کی وجہ سے رکی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں تھیں۔
دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد میں پھر سے دریائے ہنزہ پر بنا پل عبور کر کے قراقرم ہائی وے پر موجود تھا، اور گاڑی ہنزہ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس دن نگر کی اندرونی بستیوں کو قریب سے دیکھا۔ خوش باش لوگ تھے، کھیلتے بچے تھے، کام کرتی عورتیں تھیں، کھیتوں میں چرتے مویشی تھے اور دور کہیں عقب میں گولڈن پِیک مسلسل منظر میں موجود تھی۔ خالص دیہی زندگی کا نام نگر ہے، یہ احساس اسی دن ہوا۔
ہنزہ سے نکلیں تو گنیش گاؤں کے بعد دریا پر بنا پل پار کرتے ہی دائیں جانب ایک سڑک ہوپر کی طرف مڑ جی ہے۔ ہوپر سے پہلے نگر خاص آتا ہے جو کبھی ریاست نگر کا صدر مقام ہوا کرتا تھا۔ سارا علاقہ خوبانی، چیری اور سیب کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ کھیتوں میں کرکٹ کھیلتے بچے ہاتھ ہلا کر مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔
محنت کشوں کی آبادی نگر خاص، چھوٹی چھوٹی دکانوں اور گھروں پر مشتمل ہے۔ نگر خاص کے بازار سے ایک راستہ شمال کے آخری گاؤں ہیسپر کو نکل جاتا ہے اور دوسرا ہوپر کی طرف، جو کہ برفپوش پہاڑوں، رش جھیل اور کئی گلیشیئرز کی سرزمین ہے۔ ہوپر پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ اس سے آگے انسانی آبادی کا کوئی وجود نہیں، محض برف ہی برف ہے اور ان سے سر ٹکراتی بے چین ہَوا کہ جس نے برفوں کو اپنے زور سے کاٹ کر ان میں لہریں بنا دی ہیں۔
ہیسپر کی طرف جائیں تو راستے میں پتھروں سے بنے قدیم طرز کے مکانات نظر آتے ہیں جن کے آنگنوں میں مویشی اور بچے ساتھ ساتھ کھیلتے اور پلتے ہیں۔ ایسے گھروں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں دل چاہنے لگتا ہے کہ ان کے اندر ایک شب کسی کا مہمان رہوں۔ آبادی سے تھوڑا آگے نکلیں تو دودھ کی آبشار بلندی سے گرتی دکھائی دیتی ہے۔ یقین نہیں تو جا کر دیکھ لیں۔ لوگ ایسے مہمان نواز اور خوش اخلاق کہ مسافر کو اپنے گھر کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ کوئی خشک خوبانیاں پیش کرتا ہے تو کوئی اخروٹ۔
میں شمال کے آخری گاؤں ہیسپر جا رہا تھا۔ یہ خزاں کا موسم تھا۔ تیز ہواؤں سے درختوں کے خزاں رسیده پتے اڑتے پھرتے تھے۔ ایک گھر کے باہر بچے کھیل رہے تھے، اور میں ان کی فوٹوگرافی میں مگن تھا۔ اس گھر کے آنگن میں ناشپاتی کا گھنا درخت لگا ہوا تھا، جو ناشپاتیوں سے بھرا پڑا تھا۔ گھر کا دروازه کھلا ہوا تھا اور میں اس کے چھوٹے چھوٹے مکینوں کی تصویریں لیتا اور ان سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔
بچوں کو ہنسانے کی خاطر اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے میں کہتا کہ بچو گھر کے آنگن میں لگے درخت سے ناشپاتیاں تو توڑ کر لاؤ۔ مجھے قطعی خبر نہ تھی کہ میری آواز گھر کے اندر بھی کوئی سنتا ہے۔ کچھ دیر میں دروازے کی اوٹ سے سرخ آنچل سے نقاب بریده نیلی آنکھیں برآمد ہوئیں. مہندی لگے ہاتھوں سے چہرے کا نقاب بناتے ہوئے مجھے اشاره ہوا۔ میں قریب گیا تو دوسرے ہاتھ سے ناشپاتی سے بھری لکڑی کی چھال کی ٹوکری میری جانب بڑھا دی گئی۔
میں نے وصول کر کے شکریہ ادا کیا تو نیلی آنکھیں پھیل گئیں، غالباً نقاب کے اندر ہنسی تھی۔ نیلی آنکھوں والی میرے سر کی طرف مہندی رچے ہاتھوں سے اشاره کر کے بولی، ” پتہ”۔ میرے بالوں میں ایک زرد پتہ نجانے کب کا اٹکا ہوا تھا۔ بالوں کو ہاتھ سے جھٹک کر پتہ گرانے تک دروازے کی اوٹ خالی ہو چکی تھی، اور میرے ہاتھ میں ناشپاتیوں سے بھری ٹوکری تھی جن کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔ گاڑی کے قریب آ کر ڈرائیور کو ناشپاتی دی تو وہ اونچے اونچے قہقہے لگانے لگا۔ اب جب کبھی یاد آئے تو مجھے سارے منظر میں ڈرائیور کا قہقہہ سب سے اونچا یوں سنائی دیتا ہے جیسے مجید امجد کا یہ شعر
گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ، تنہا
ہیسپر کے آتے آتے شام ڈھلنے لگی تھی۔ یہ گاؤں مجھے دنیا سے کٹا ہوا لگا۔ ایک عجیب طرح کا سکون اس بستی میں ٹھہرا تھا، سو وہیں شب بسری کا انتظام کر لیا۔ قراقرم کے دامن میں ایک سرد رات میں جب ہیسپر کے گھروں کی مدھم روشنیاں وادی میں جھلملاتی ہیں اور اوپر آسمان پر ستارے ٹمٹاتے ہیں، ان لمحوں میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ ستارے کہاں کہاں بکھرے ہیں۔ بیچ میں کھڑا میں کبھی وحشی پہاڑوں کے خوف سے، تو کبھی سردی کی لہر سے کانپتا تھا۔
اس رات میں نے ایک تارہ دیکھا جو آسمان سے بھڑکتا ہوا تیزی سے زمین کی طرف آیا۔ جوں جوں وہ نزدیک آتا جا رہا تھا اس کی چمک دمک بڑھ رہی تھی۔ پھیلتے پھیلتے وہ ایک بڑا سا روشن گولا بن گیا۔ ایک لمحہ کے لیے مجھے لگا کہ یہ مجھ پر اور وادی پر گر پڑے گا۔ دل میں ڈر بڑھا تو خدا یاد آ گیا۔ ایک دم روشنی کا گولا بجھا اور پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا۔ اس کے بعد دیر تک دھڑکن نارمل نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جلتے ستارے کی رات بعد میں خواب میں بھی ایک دو بار آئی اور مجھے ہمیشہ ڈر کر اٹھنا پڑا، پھر بھی ہوش و حواس میں کئی بار دل کیا کہ پروردگار مجھے ایک بار پھر سے ایسا دہشت زدہ منظر دکھا دے۔ پہاڑوں میں، تنہائی میں، خاموشی میں، موت کی دہشت کی جو لذت ہوتی ہے، وہ بھی کمال ہوتی ہے۔ دور دراز کی وادیوں میں محبتیں ہی نہیں دہشتیں اور وحشتیں بھی بھری ہوتی ہیں
نگر کی وادیوں سے نکلا تو قراقرم ہائی وے پر سفر کرتا جھیل تک پہنچا۔ جھیل کے کناروں پر رش تھا۔ ہر کسی کو پار جانے کی جلدی تھی۔ اردگرد کالے سیاہ پہاڑ تھے اور ان کے بیچ تنگ درے میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دریا کا بہاؤ رک جانے سے بنی سبز پانیوں کی ایک گہری جھیل تھی جس کی اپنی الگ ہی ہیبت تھی۔
کشتی والے نے کشتی پر جیپ لوڈ کی تو سارا بوجھ دل پر پڑ گیا۔ قراقرم کے دہشت گرد سنگلاخ پہاڑوں کے تنگ سے درے میں بنی عطا آباد جھیل کا محل وقوع، لمبائی اور گہرائی جان کر ویسے ہی خوف آتا ہے۔ ایک عام سی کشتی میں تیس منٹ کا سفر پہلے ہی ڈرا رہا تھا کہ کشتی پر جیپ بھی لوڈ ہوگئی۔ لائف جیکٹ جو پہننے کو ملی وہ بس دل کی تسلی کے لیے تھی ورنہ جس معیار کی کشتی تھی اسی معیار کی جیکٹ تھی جو شاید تنکے کو بھی ڈوبنے سے نہ بچاتی ہو
کشتی چلی تو دل سے کئی گمان گزر گئے۔ مجھے یاد پڑا کہ بیس سال پہلے میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں کہ جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ میں کنارے پر امی کے پاس روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔
تیس منٹ کا سفر سوچتے سوچتے گزر گیا۔ کشتی کنارے لگی تو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ پسو کونز کے بیک ڈراپ میں ملاح کا چہره دھندلا چکا تھا۔ حسینی کے گاؤں میں چلتے چلتے اسکول جاتے نیلی آنکھوں والے بچوں نے ہاتھ ہلا کر اشاره کیا تو جھیل، کشتی اور یادیں پیچھے ره گئیں۔ پہاڑوں پر سنہری دھوپ اترچکی تھی۔ موسم بدل چکا تھا۔ پانی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔
آدھی رات کو جب سارے دن کے کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹتا ہوں تو بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، گلگت بلتستان کی وادیاں، جیپوں کا شور، جنگل، نگر اور ہیسپر کے پرانے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔