عابد ایوب اعوان
صرف چائے ، پانی کیلئے 9 کروڑ روپے، غربت زدہ پاکستان کے وزیر اعظم ہائوس نے شاہانہ اخراجات کی ہوشربا مثال قائم کر دی ۔
2017 _18 کے بجٹ میں وزیر اعظم ہاوس کے لیئے چائے ، پانی ، کھانے اور دیگر لوازمات کے اخراجات کے لیئے ساڑھے نو کروڑ روپے مختص کرنے کے لیئے سمری وزارت خزانہ کو ارسال کر دی گئی ہے۔ ملازمین کی تنخواہ اور دیگر اخراجات اس میں شامل نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاوس میں رہائش پذیر نہیں ہوں گے اور اسطرح کر کے وہ سادگی اپنائیں گے اور وزیراعظم ہاوس پر اٹھنے والے اخراجات ملک پر بوجھ نہیں بنیں گےوزیر اعظم ہاوس کے لیئے سالانہ چائے پانی کی مد میں اٹھنے والے اخراجات ساڑھے نو کروڑ روپے بنتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی ان شاہ خرچیوں پر ماضی کے حکمرانوں کی چند مثالیں آپکے سامنے رکھتے ہیں۔
۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے دور گورنری جنرل میں ایک دفعہ کھانے کی میز پر ایک اضافی سیب رکھ دینے پر گورنر جنرل قائداعظم سیخ پا ہو گئے تھے اور گورنر جنرل ہاوس کے اسٹاف کو خوب ڈانٹ ڈپٹ کھانی پڑی۔ واقعہ کچھ اسطرح پیش آیا تھا کہ کھانے کی میز پر قائداعظم ، محترمہ فاطمہ جناح اور ایک مہمان مدعو تھے تو 3 بندوں کے مطابق 3 سیب کی بجائے 4 سیب رکھ دیئے گئے تھے جس پر قائداعظم نے اس بات کا نوٹس لیکر آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہا تھا۔ قائد اعظم کے بعد چوہدری محمد علی ایک وزیراعظم پاکستان رہے ہیں جن کی گاڑی کی پارکنگ کی جگہہ بنانے کے لیئے 1300 روپے کی سمری وزارت خزانہ نے یہ کہہ کر مسترد کر کے واپس بھجوا دی تھی کہ مہاجرین کی منتقلی کی وجہ سے ملکی خزانہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ غیرضروری اخراجات کر کے وزیراعظم کی گاڑی کے لیئے پارکنگ کی جگہہ بنائی جائے۔ اسی طرح ذوالفقار بھٹو جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے صاحبزادے کی وزیراعظم کی گاڑی لے کر اسلام آباد کی سڑکوں پر بلاوجہ چکر لگانے کی عیاشی کرنے کی پاداش میں خوب دھلائی کی تھی۔
1947 سے لے کر 80 کی دہائی تک جتنے بھی حکمران آئے سب مالی بدعنوانی سے پاک ہی رہے۔ وطن عزیز میں مالی بدعنوانی نے 80 کی دہائی کے بعد سر اٹھایا اور اس کے بعد آنیوالے ہر حکمران نے مالی بدعنوانی کی بلا شک و شبہہ اعلی مثالیں قائم کی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے ایک تازہ بیان کے مطابق کرپشن بہت زیادہ ہے ، کرپشن کو روکنے بیٹھ جائیں تو ترقیاتی کام نہیں کر سکیں گے۔
مطلب وزیراعظم نے یہ تسلیم کر لیا کہ پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں کرپشن کا جو جن بے قابو ہوا تھا وہ ابھی ان کے دور حکومت میں بھی اپنے جوہر دکھا رہا ہے اور ایسے ہی جوہر دکھاتا رہے گا۔ پچھلی حکومت کی طرف سے وراثت میں ملی کرپشن اب بھی اپنے عروج پر جاری وساری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں ہی ایک وزیر نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہییے۔
لگتا ایسا ہے کہ آنیوالے دور میں کرپشن کا ناسور وطن عزیز میں اس قدر اپنی جڑیں مظبوطی سے گاڑھ لے گا کہ شاید ہمارے سیاسی حاکموں کو ملک میں کرپشن کو جائز قرار دینے کا اعلان کرنا پڑجائے۔ پاکستان کو جسطرح سے ہر طاقتور اور بااثر طبقہ دیمک کی طرح کھانے میں لگا ہوا ہے تو اس وطن عزیز کے ابھی تک کے قیام وسلامتی کے پیچھے صرف اللہ رب العزت کی غیبی طاقت و امداد ہی ہے۔ کلمے اور اسلام کے نام پر رمضان کے ماہ مقدس کی ستائیسویں شب 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات قائم ہونے والی اس ریاست مملکت پاکستان نے تا قیامت اللہ رب العزت کے حکم سے اسی طرح قائم ودائم رہنا ہے۔